میاں نوازشریف۔ ایک انار سو بیمار

April 06, 2013

پاکستان میں سیاست اور سیاستدانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا جاتارہا ہے اورجو کھیل آج بھی کھیلا جارہاہے اس کے مقاصد نہ کبھی پہلے ڈھکے چھپے تھے اور نہ آج کسی سے مخفی ہیں۔ دنیاکاکون سا ملک ایساہے جس کے سیاستدانوں اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد جھوٹے اورسچے الزامات کی زد میں نہ آتے رہے ہوں۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت اس کی بہترین مثال ہے جس کے سیاستدان بدترین کرپشن کے الزامات کی زد میں آتے رہتے ہیں لیکن جمہوریت اپنا سفربھی جاری رکھتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ احتسابی عمل بھی جاری رہتاہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں بھی کرپٹ اوربری شہرت کے لوگ موجود ہیں مگر پاک دامنوں کی بھی کوئی کمی نہیں اور بدقسمتی سے یہی پاک دامن لوگ اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں کھٹکتے ہیں کیونکہ یہ روبوٹ کی طرح ان کے احکامات پرعمل نہیں کرتے۔ سیاستدان اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا ہوتاہے جب تک وہ نابالغ رہتا ہے اور اس کے ہاتھو ں میں کھیلتا رہتاہے لیکن جونہی وہ بلوغت کی سیڑھیاں طے کرنے لگتا ہے اس کے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی جاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوجب تک ”نابالغ“ تھا اور ایوب خان کی گود میں چوسنی منہ میں لئے بیٹھا رہتا تھا اس وقت تک وہ ”گھانسی رام“ نہیں تھا لیکن جب وہ ”بالغ“ ہوا، اسے پھانسی پرلٹکادیاگیا۔ نوازشریف بھی جب تک ضیاالحق کی گود میں بیٹھاغوں غاں کرتاتھا وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا تھا لیکن جب اس نے بلوغت میں قدم رکھا اسے سانپوں اور بچھوؤں والی عقوبت گاہ میں پھینک دیاگیا اور پھرملک بدری بھی اس کا مقدر بنی۔ تاہم عوام کی طاقت جب اپنا رنگ دکھاتی ہے تواس طرح کے سارے حربے ناکام ہو جاتے ہیں۔ بھٹو مرنے کے بعد بھی بے شمار دلوں میں زندہ ہے اور نوازشریف آج بھی بے شمار لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ بھٹو اوربینظیر بھٹو کے وارث اس واراثت کی حفاظت نہیں کرسکے چنانچہ یہ پارٹی ان دنوں عوامی طاقت سے محروم ہوچکی ہے۔ نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ وہ خود بھی منجھے ہوئے سیاستدان بلکہ مدبرہیں اور ان کے پاس ایک بہترین ٹیم بھی ہے جس کے ارکان میں چاروں صوبوں کے اچھی شہرت اور قابلیت کے حامل افراد شامل ہیں۔ سو ان دنوں ایک بارپھر اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں اگرکوئی سیاستدان کھٹکتا ہے تو وہ نوازشریف ہے چنانچہ اسے برسراقتدار آنے سے روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے لئے ان دنوں کچھ نئے ”نابالغوں“ کے سروں پرہاتھ رکھا گیا ہے تاکہ اس کے ووٹ تقسیم ہوجائیں اور یوں اگر نوازشریف حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہوجائے تو ایک ایسی بے بس حکومت وجود میںآ ئے جسے موم کی ناک کی طرح جدھر گھمانا چاہیں وہ اُدھر گھوم جائے۔
لیکن بات پھروہی عوامی طاقت کی ہے جو ان دنوں ایک بار پھر نوازشریف کامقدر بنی ہے۔ جانبدار ، غیرجانبدار، دوست، دشمن سبھی الیکشن میں اس کی بے پایاں کامیابی کی چاپ سن رہے ہیں اور یوں مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جارہاہے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ(ن) نے چند صحافیوں کو اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بطور مبصر مدعوکیا تھا جس کی صدارت میاں نوازشریف کر رہے تھے۔میں جب ماڈل ٹاؤن میں واقع مسلم لیگ(ن) کے سیکرٹریٹ میں پہنچا تو اس کا وسیع و عریض لان سیاسی کارکنوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ یہاں ٹکٹ کے امیدواروں کے حامی اورمخالف دونوں جمع تھے۔نعرے بازی بھی ہورہی تھی۔ یہ ایک خوبصورت سیاسی ماحول تھا جو بہت عرصے بعد دیکھنے میں آ رہا تھا۔ میں جب اس ہال میں داخل ہوا جہاں ٹکٹ کے امیدواروں کی اہلیت، قابلیت اور ماضی میں دی گئی ان کی قربانیوں کوجانچا جارہا تھا تووہاں برادرم عرفان صدیقی، خواجہ فرخ سعید اور غریدہ فاروقی سے بھی ملاقات ہوئی جو میری ہی طرح اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لئے یہا ں مدعو تھے۔ یہاں ایک ایک نشست کے لئے بیس بیس امیدوارتھے یعنی ایک انار سو بیمار والا معاملہ تھا۔ وہ اپنانام پکارے جانے پراپنے کوائف اور پارٹی کے لئے اپنی خدمات بیان کرتے جبکہ ان کا پورا ریکارڈ پہلے سے میاں صاحب کے سامنے تحریری صورت میں دھرا ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کا ٹیپ کامصرعہ یہ جملہ کہتا تھا کہ ”قائد محترم! اگر مجھے ٹکٹ ملا تو میں اس نشست سے سو فیصد کامیاب ہوکردکھاؤں گا“ ایک امیدوار نے جب اپنی قربانیوں کے بیان میں یہ کہا کہ ”آمرکے دور میں مجھے بہت ذلت کا سامنا کرناپڑا!“ تو میاں صاحب نے کہا ”آپ ذلت کا لفظ استعمال نہ کریں بلکہ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دور ِ آمریت میں سرخرو کیا کیونکہ ذلت ان کے حصے میں آئی جنہوں نے جمہوریت پسندوں پرمظالم روارکھے تھے!“ ایک نوجوان امیدوار نے جواپنے کالج کے زمانے میں مجلس مباحثہ کے صدر تھے اور بطورڈیبیٹر بہت انعامات لیتے رہے تھے یہاں بھی ایک ڈیبیٹر کے انداز میں اپنا موقف بیان کیا۔ مجھے علم نہیں کہ میاں صاحب اور ان کی کمیٹی نے ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا لیکن انہیں اگر اور کچھ نہیں تو جلسوں کی کمپیئرنگ کا فریضہ تو بہرحال سونپا جاسکتا ہے… یہاں اختررسول بھی نظرآئے۔ وہ اپنے ماضی پر بہت پشیمان تھے۔ انہوں نے کہا ”میں بلھے شاہ کے مزار پر گیا اور ان سے پوچھا میں میاں صاحب کوکیسے مناؤں؟“ تومجھے آواز ٓئی ”مینو ں نچ کے یار مناون دے“ پھرمیں میڈم نورجہاں کے مزار پر گیا وہاں سے آواز آئی ”آ سینے نال لگ جا ٹھا کرکے“ تواختررسول نے یہاں ناچ کرتو”یار‘ ‘ کو نہیں منایا البتہ اپنی نشست سے اٹھے اور ”ٹھا“ کرکے میاں صاحب کے سینے سے جا لگے اوراس کے ساتھ ہی آبدیدہ ہوگئے۔ میاں صاحب نے کہا ”میں آپ کودل سے معاف کرتا ہوں!“ لوگوں کومیاں صاحب کی یہ ادا اچھی لگی، واضح رہے اختررسول ٹکٹ کے امیدوارنہیں تھے!
سواب صورتحال یہ ہے کہ میاں صاحب اور ان کی ٹیم کے علاوہ صحافیوں پر بھی سفارشیوں کی یلغار ہے اور ظاہر ہے سفارش کی یہ خواہش مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے حصول کے لئے ہے۔ میری دعا ہے کہ مسلم لیگ ٹکٹ صرف ان کارکنوں کو دے جو آمریت کے دور میں ڈٹے رہے اور اگربہت مجبوری ہو توتیس فیصد ”آبائی نشستوں“ والے اجارہ داروں کوبھی ٹکٹ ”دان“ کردیں تاہم اصولی طورپر ہونا تو یہی چاہئے کہ سو بیماروں میں سے ایک انار اگر کسی کو دینا ہے تواسے دیاجائے جوواقعی ”بیمارِ محبت“ ہو!