’’بجٹ‘‘ کیا تجویز اور کیا امیدیں کیا ترجیح اور کیا منصوبہ بندی

June 05, 2020

صائمہ نورین بخاری

اس سال کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث بجٹ مختلف ترجیحات کا حامل ہونا چاہیے۔ لاک ڈاون کے باعث معاشی بحران کا شکار غریب اور متوسط طبقہ جہاں شدید طریقے سے متاثر ہوا ۔وہاں کورونا کے وار سے امیر متمول اور صاحب حیثیت افراد بھی معاشی سرگرمیوں کے تعطل کے باعث پریشانی کا شکار ہوئے۔ کورونا وائرس نے اپنے تباہ اثرات پوری دنیا کی معیشت پر مرتب کئے اور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے ۔گھر بار بال بچے خاندان اور ہسپتال ۔بس یہی سوچ اور یہی فکر کچھ اس طرح لوگوں کے ذہنوں پر حاوی ہوئی کہ انداز زیست ہی بدل ڈالے۔

اب جہاں سال کے شروع میں لوگ ٹیکس اور جرمانوں کے گورکھ دھندوں میں الجھ رہے تھے ۔وہاں صرف تین ماہ بعد بھوک ننگ افلاس اور سبسڈی کا شور اٹھنے لگا ۔کہیں پولیس گردی کاخوف اور کہیں قرنطینہ میں جکڑے جانے کا ڈر ،حواس باختہ عوام نے جب لاک ڈاون میں نرمی کی خوش خبری سنی تو مویشیوں کی طرح باڑھ توڑ نکل آئے ۔اب ایسی صورت حال میں جب ایک طرف ٹڈی دل کے حملوں نے فصلوں کی تباہی برپا کردی ہے اور دوسری طرف بے موسمی بارشوں نے کسان طبقے کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔

اب خسارے کابجٹ ،عدم توازن ادائیگی طلب ورسد میں بے پناہ اتار چڑھاؤ۔معاشی منصوبہ بندی ٹیم میں ہم آہنگی کے فقدان والی حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت جہاں وسیع پیمانے پر بد انتظامی سامنے آئی وہیں عوامی سماجی فلاحی تعلیمی شعور پھیلانے کا دعوی رکھنے والے بد احساس لوگوں کی بدنیتی بھی سامنے آئی ۔خیر اب محکمہ تعلیم کا پرائیویٹ سیکٹر ہو یا پرپراٹی ڈیلنگ کا شعبہ۔

گندم کی فصل پر ذخیرہ اندوزی کا معاملہ ہو ، پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاو کا مسئلہ۔ سب شعبے امداد ، سبسڈی اورٹیکس چھوٹ کا نعرہ لگائیں گے ۔حکومت کی ترجیحات عوام کو سہولیات بہم پہچانا ہے ۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کے علاوہ بیرونی امداد کو مستحقین تک پہنچانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے ۔بجٹ کا نام ہی جب خسارے کا بجٹ ہو۔۔تو کیا تجویز اور کیا اُمیدیں۔کیا ترجیح اور کیا منصوبہ بندی۔۔۔۔

بہرحال آج بھی ہم تبدیلی کے تمام دعوں وعدوں کے کاغذی پھولوں میں خوشبو کی تلاش رکھتے ہوئے کچھ عام فہم تجاویز پیش کرتے ہیں جو خواتین کے حوالے سے مددگار ثابت ہوں گی۔

بجلی اور گیس کے بل اس مرتبہ کم آئے ہیں ۔۔۔اگلی مرتبہ ساری کسر نہ نکال لی جائے اس لیے اس مہینے کی بچت کو غینمت جانیےاور یہ رقم ایک طرف بچاکر رکھ لیجئے۔

غیر ضروری اخراجات یعنی برائنڈڈ کپڑوں کی شاپنگ ، فوڈ پوائنٹ کے آرڈر ۔۔ہوٹلنگ اور” ناپسندیدہ بہت ہی پسندیدہ مہمان داری“۔۔۔شادیوں کے ہر دعوت نامے پر جانے کی تیاری ،میک اپ ۔۔بیوٹی پارلر کے وہ اخراجات جس میں صرف وقت اور پیسے کا ضیاء یقینی ہوتا ہے ۔سہلیوں کو جلانے کے شوخیوں والے اخراجات ۔یعنی جلا ہواکیک بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ ایڈٹ کرنے پر نیٹ بل کے اخراجات ، میکے گھومنے کےاخراجات اوربچوں کی چھٹیوں میں نانی، دادی کے گھر جانے کے اخراجات ۔۔۔غرض کے وہ تمام اخراجات جن کے بغیر بھی زندگی چل سکتی ہے وہ سب اخراجات کی بچت کو بھی بینک میں محفوظ کر لیجیے۔

اور جو کچھ زکوٰۃ،خیرات اور صدقات کی مد میں آپ صرف کرتی ہیں اس میں دل بڑا کرتے ہوئے اضافہ کرلجیئے۔اپنی آیا ،میڈ اورملازمین کو رقم اور راشن کی صورت میں بانٹ دیجیے۔زندگی میں کوئی بھی پیش گوئی حتمی نہیں اس لیے اپنے ذہن کو تفکرات سے محفوظ رکھتے ہوئے جینے کا حوصلہ ان لوگوں پائیے جن کے اس وبا میں پیارے چھن گئے۔ جنہوں نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے لوگوں کی جانیں بچائیں۔۔۔ اور معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لیے راشن یا رقومات دیتے ہوئے۔

ان کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا۔ آفات جنگوں کے طرح ہوتی ہیں اس میں فرنٹ لائن پر بھوک بیماری اور بے بسی سے لڑنا ضروری قرار پاتا ہے ۔اگر ہم اس مختصر زندگی میں بے شمار غیر ضروری اخراجات کو کم کرکے مفید اور ضروری اخراجات کی طرف قدم بڑھائیں گے تو ہم نہ صرف اپنی زندگی بلکہ پورے سماج کی زندگی کو بھی آسان بنا سکتے ہیں۔