مرے دل میں اپنے ہی ڈر تھے بہت

April 07, 2013

سول انتظامیہ، مسلح افواج اور عدالت عظمیٰ سمیت تمام اداروں کی جانب سے جمہوری نظام کے تسلسل کو قائم رکھنے کی یقین دہانیوں کے باوجود اور عام انتخابات کی جانب سفر کے لئے لازمی دستوری تقاضوں پر عملدرآمد کے باوصف اہل وطن کی ایک خاص تعداد یہ سوال پوچھتی دکھائی دیتی ہے کہ ”کیا عام انتخابات ہوں گے؟“ اس کی ایک بڑی وجہ تو شکوک و شبہات کا وہ موسم ہے کہ جنرل ضیاء الحق جس کے نرغے میں وطن عزیز کو چھوڑ گئے تھے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمیں آج تک کوئی سلسلہ چلتا دکھائی نہیں دیا۔ اچھی خبریں سننے اور ان کے صحیح ثابت ہونے کا بھی ہمیں کوئی زیادہ تجربہ نہیں ہے۔ ہمارے غیر ملکی حکمران انگریزی کہاوتوں کے دو تحفے اپنی سابق رعایا کے لئے چھوڑ گئے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ خبر اتنی اچھی ہے کہ یقین نہیں آتا اور دوسری یہ کہ پیالے اور ہونٹوں کے درمیان بھی پھسلنے کے بہت سارے خدشات ہوتے ہیں اور ہم ان خدشات سے باہر نہیں آ رہے۔ دہشت گردی تو ایک نئی مصیبت ہے مگر اس سے پہلے بھی ہمیں دہشت زدہ رکھنے والی بہت سی مصیبتیں موجود تھیں جن میں خود ہمارا اپنا وجود بھی ہے جس کے بارے میں جاوید شاہین نے کہا تھا کہ
غریب آسمان مجھ پہ گرنا تھا کیا
مرے دل میں اپنے ہی ڈر تھے بہت
ہمارے دشمن ہمارے دلوں میں پلنے والے خوف ہی نہیں ہمارے اندر مچلنے والی خواہشات بھی ہیں۔ یہ خوف اور خواہشیں بعض اوقات ہم سے ہماری بینائی، سماعت اور سوچنے کی طاقت بھی چھین لیتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں ہماری روایتی انتخابی دھاندلیوں کی گنجائش بہت کم ہو گی۔ یہ انتخابات ماضی کے انتخابات اور ریفرنڈموں سے کہیں زیادہ صاف اور شفاف ہوں گے مگر کوئی نہیں جانتا کہ ان عام انتخابات سے برآمد کیا ہو گا؟ کس نوعیت کے نتائج سامنے آئیں گے؟انتخابات جیتنے والی پارٹیوں میں ہمارے روایتی دھڑوں کی پوزیشن کیا ہو گی؟ تیسری سیاسی قوت کون سی ہو گی؟ ”سرپرائزر“ کون کون سے ہوں گے۔ دھڑام سے گرنے والے برج اور ابھرنے والی طاقتیں کون سی ہوں گی۔ کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی تعداد کتنی ہو گی اور وہ کدھر اور کس طرف جائیں گے؟ ”بھان متی“ آئندہ حکومت کے لئے کہاں کہاں کی اینٹ اور کہاں کہاں کے روڑے اکٹھے کر کے ”کنبہ“ جوڑے گی؟ اگلی حکومتی کولیشن کتنی سیاسی جماعتوں کی ہو گی ؟ اگلی حکومت کو ”ہنی مون“ کے لئے کتنا عرصہ ملے گا؟ کتنی دیر بعد لوگ یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ حکومت کو اتنے دن ہو گئے ہیں مگر ابھی تک کوئی بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا؟ ”ایکشن ری پلے“ کب اور کیسے شروع ہوں گے؟ منیر نیازی مرحوم نے فرمایا تھا کہ
محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن تو ان کی یاد میں ہو گی
اور فیض احمد فیض جانتے تھے کہ
ہم کہ ہیں کب سے درِ اُمید کے دریوزہ گر
یہ گھڑی گزری تو پھر دست طلب پھیلائیں گے
کوچہ و بازار سے چن چن کے ریزہ ریزہ خواب
پھر وہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں گے