سندھ کی عبوری حکومت اور امریکی سامراج

April 08, 2013

سندھ کے نگراں سیٹ اپ کے بارے میں اور خصوصاً عبوری وزیراعلیٰ کے بارے میں سندھ کی ترقی پسند پارٹیوں کو اعتراض ہے کہ وہ غیرجانبدار نہیں ہیں اور وہ پی پی پی کے کارکن کے طور پر کئی ایسے کام کر چکے ہیں جو پی پی پی یا اُن کے اتحادیوں کے مفاد میں ہیں۔ لینڈ اسکینڈل سے لیکر بلدیہ کی فیکٹری کو آگ لگائے جانے تک سندھ کے عبوری وزیراعلیٰ پی پی پی یا اُس کے اتحادیوں کو پیش نظر رکھتے رہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سندھ کی عبوری حکومت میں وزیر کے طور پر ایسے افراد کو بھی لے لیا گیا ہے جو ایک افریقی ملک کے قونصل جنرل ہیں اور اس لحاظ سے اُن کی نامزدگی غیر قانونی ہے کہ اُن کی وفاداریاں بٹی ہوئی ہیں۔کسی ملک کا اعزازی قونصل جنرل ہونا اور سندھ میں وزیر بننے سے قومی مفاد پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ایسے ویزوں کا بھی اجرا کیا جو افراد ڈی پورٹ کر دیئے گئے جو تحقیق کا معاملہ ہے اور ایک دوسرے قسم کی کرپشن کا طریقہ ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کو نوٹس لینا اور اُن کو قانون کی گرفت میں لینا چاہئے۔ سندھ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور سندھ کے عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے بھٹو خاندان کو سندھ کے عوام کی خدمت کا صلہ دے دیا ہے اب بھٹو خاندان کا کوئی فرد پی پی پی کا سربراہ نہیں۔ انہوں نے بلاول کو بلاول بھٹو زرداری بنا کر پی پی پی کی ماہیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ اب پی پی پی پی زرداری پارٹی ہے اور جس نے سندھ کے عوام کو بہت دکھ دیئے ہیں اور آج کسی سندھی کو لاہور یا اسلام آباد میں دیکھ کر لوگ پی پی پی کا کارندہ سمجھتے ہیں اور اُس کو کرپشن کرنے والا بندہ قرار دیتے ہیں،کرپشن کو سندھی عوام کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے جس کا ہم ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حب الوطنی کسے کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بھی کرپشن نہیں کی ہو، ہم نے ٹیکس پورے ادا کئے، یہاں تک کہ پہلے روز سے لیکر اب تک نواب شاہ کراچی ہم بجلی، گیس اور یہاں تک کہ ٹی وی ٹیکس بھی ادا کرتے تھے۔ جلال محمود شاہ نے کہا کہ میرے والد بزرگوار سندھ امداد محمد شاہ کہتے تھے کہ اگر ہم نے ٹیکس ادا نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔ ہم نے کبھی قانون شکنی نہیں کی اگرچہ ہمارے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور ہمیں پابند سلاسل رکھا گیا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور دوسرے ممالک پاکستان میں زمین اور پانی میں ایسے جراثیم ملا دیتے ہیں جس سے کینسر ہو جاتا ہے۔ خود جامشورو میں تین کیسز ایسے ملے ہیں جو کینسر سے ہلاک ہوئے۔ مزید برآں انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں گیہوں کی ایک ایکڑ میں 50 من کے قریب پیدا ہونے لگا ہے اور اسی طرح کپاس کی پیداوار میں بھی فی ایکڑ اضافہ ہوا ہے۔ اس میں فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کی تحقیق کا عمل دخل ہے۔
رسول بخش پلیجو کا کہنا تھا کہ افریقہ ہو یا ایشیا، عرب ممالک ہوں یا ایشیائی سب مسلمان ممالک پر امریکی سامراج، مسلمانوں کا خون بہار رہا ہے اور کسی طور پر وہ ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ مشرف ہو یا ضیاء الحق یا عمران خان یا کوئی اور سب سامراج کے کارندے ہیں اور اسٹیج پر آ کر امریکی ڈائریکٹر کی ہدایت پر اپنا کردار ادا کرکے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے سوویت روس سے افغانستان میں معاہدہ نہ کر کے ایک بہت بڑا موقع گنوا دیا۔ روسی افغانستان سے جانا چاہتے تھے، وہ ہار چکے تھے اور مجھ سے افغانستان کے صدر نجیب اللہ نے کہا کہ آوٴ طالبان کو راضی کریں اور الیکشن کرا لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ غیر مقبول ہیں، ہم ہار جائیں گے اور طالبان جمہوری طریقہ سے حکمران ہو جائیں گے تو خون بہنے سے رک جائے گا مگر ضیاء الحق اور اُس کے حواری نہیں مانے اور آخرکار امریکہ نے روس سے ڈائریکٹ فیصلہ کر لیا،اگر دیکھا جائے تو اس وقت بھی یہی ہے کہ امریکہ پاکستان کو ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے یا قریب آنے سے اس لئے روکنا چاہتا ہے کہ وہ خود ایران سے بات کر رہا ہے پھر اگر اُن کے درمیان صلح ہو جائے تو وہ پاکستان کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینکیں گے۔ ہمارے خیال سے پاکستان نے یہ درست فیصلہ کیا کہ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ کرلیا اور اب آنے والی حکومت کے بس میں نہیں ہے کہ عوامی فائدے کے اس معاہدوں کو رد کر دے اور اگر رد کرے گی تو امریکی پٹھو کہلائے گی اور پھر جس طرح شاہ ایران کو دُنیا میں دفن ہونے کے لئے جگہ ملنے میں دشواری ہوئی تھی اسی طرح اس حکمراں کا مقدر بن جائے گا۔
امریکی سامراج اور دوسرا فرانسیسی سامراج جو امریکہ کی کاپی کرتا ہے وہ مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اور مسلمانوں کو مشکلات میں ڈالے رکھنا اُن کی اولین ترجیح ہے۔ سامراج نہ صرف حکومت تبدیل کراتے ہیں بلکہ ایسے لیڈروں کو کسی وائرس کے ذریعہ مرواتے ہیں جو اُن کے مخالف ہوں۔ جہاں تک سندھ میں تبدیلی کی بات ہے وہ ہم لانے کی کوشش کر رہے ہیں،گھر گھر جا رہے ہیں اور سندھ کے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے طویل ترین جدوجہد کی ہے اور ہم نے آزاد صحافت اور آزاد عدلیہ کی حمایت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ آزادی صحافت کی جدوجہد میں بُرا دور جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں آیا جب ہم نے ہاریوں کو صحافی بنا کر کراچی کے ریگل چوک پر گرفتاریاں دیں۔ جس کی وجہ سے آج آپ اس قدر آزاد صحافت کر رہے ہیں اور تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ یہ دراصل ہماری قربانیوں کا ثمر ہے جو آزاد صحافت آج تبدیلی کرانے میدان عمل میں ہے۔ پاکستان میں تبدیلی اگر 50 فیصد بھی آگئی تو پاکستان کا اچھا دور شروع ہوجائے گا۔