بھٹو خاندان یہ جنگ نسل در نسل لڑے گا

April 08, 2013

میں اکثر دو باتوں پر سوچتا رہتا ہوں ایک یہ کہ بھٹو خاندانمیں سے سب سے بہادر کون تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو یا شاہنواز بھٹو؟ دوسری بات یہ کہ بھٹو خاندان کی عوام سے محبت زیادہ تھی یا عوام کی بھٹو خاندان سے محبت زیادہ تھی۔ کافی عرصے سے ان دونوں باتوں پر سوچنے اور مقابلہ کرنے کے باوجود میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔ اپنے مشاہدے کے مطابق میں اس سلسلے میں ایک یا دو مثالیں اس کالم میں پیش کروں گا اور پھر فیصلہ جنگ کے قارئین کے ہاتھ میں ہے۔ بھٹو 70 میں الیکشن مہم کے دوران سانگھڑ میں ایک بڑے عام جلسے کو خطاب کرنے کے لئے سانگھڑ جا رہے تھے جب وہ سانگھڑ شہرکے قریب پہنچے تو روڈکے دونوں طرف درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے ہوئے کچھ مسلح لوگوں نے بھٹو کی کار پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ اس وقت اس کار میں بھٹو کے ساتھ مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ اور میر رسول بخش تالپر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ گولیوں کی بارش میں بھٹو نے کار رکوائی اور دروازہ کھول کے باہر نکلے اور دھاڑتے ہوئے کہا کہ کون لوگ ہیں جو میرے لوگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ اسی دوران پیچھے قافلے کی گاڑیوں سے پی پی ورکر باہر نکلے اور بھٹو کو نیچے گرا کے خود بھٹو کے لئے ڈھال بن گئے گولیاں لگنے سے ایک دو ورکر زخمی ہو گئے جن میں سے شاید ایک ورکر بعد میں انتقال بھی کر گئے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے بھٹو نے کہنیوں سے ورکروں کہ ہٹایا اور زور زور سے کہنے لگے کہ بھٹو میں ہوں، گولیاں چلانی ہیں تو مجھ پر چلاؤ، میرے لوگوں پر گولیاں کیوں چلا رہے ہو؟ اسی دوران بھٹو کے قافلے کی گاڑیوں میں موجود گارڈز بھی باہر نکل آئے اور وہ بھی گولیاں چلانے لگے اس طرح دوسری طرف کے لوگ گولیاں چلانا بند کر کے بھاگ گئے۔ اس وقت حیدرآباد سے پیپلزپارٹی کا ترجمان اخبار ہلال پاکستان شائع ہوتا تھا مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ سندھی زبان کے بڑے شاعر بھی تھے دوسرے دن ہلال پاکستان میں اس واقعے پر مخدوم صاحب کا ایک دلچسپ قطعہ شائع ہوا جو کچھ اس طرح تھا کہ ”ہم نے یہ تو سنا تھا کہ فلاں آدمی شیر ہے مگر شیر کا باپ ہم نے پہلی بار دیکھا ہے“۔ ایک اور قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پنڈی جیل کے پھانسی گھاٹ کے ایک سیل میں قید تھے اسی دوران ایک دن پتہ چلا کہ اس وقت ملک کے ایک ممتاز سیاستدان میاں ممتاز محمد خان دولتانہ مع اپنی بیگم کے کراچی آئے ہوئے ہیں اور باتھ آئی لینڈ کے ایک بنگلے میں رہائش پذیر ہیں۔ ہم دولتانہ صاحب سے ملاقات کرنے کے لئے ان کے بنگلہ پر پہنچ گئے۔ ملاقات کے دوران جب دولتانہ صاحب کو پتہ چلا کہ میں سندھی ہوں تو زور سے میرا ہاتھ پکڑ کے کہنے لگے یار تم سندھی کچھ کرو، بھٹو کو اپنی زبان میں سمجھاؤ کہ وہ میری بات مان لیں اور ملک سے چلے جائیں۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے دولتانہ نے ہمیں بتایا کہ میں نے جنرلوں سے بات کی ہے اور ان کو قائل کیا ہے کہ وہ بھٹو کو چھوڑ دیں گے مگر اس سلسلے میں ان کی شرط ہے کہ وہ ملک چھوڑ کے باہر چلے جائیں اور ایک خاص مدت تک ملک واپس نہیں آئیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرلوں کی ان باتوں کے بعد انہوں نے بیگم نصرت بھٹو سے ملاقات کر کے ان کے ذریعے بھٹو کو پیغام بھجوایا کہ وہ یہ بات مان لیں اور فی الحال ملک سے چلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بیگم صاحبہ کو سمجھایا کہ جنرلوں کی نفسیات یہ ہے کہ جو ان کے آگے آئے گا وہ اسے اڑا دیں گے لہٰذا فی الحال وہ اپنی جان بچائیں اور سیاست اور ملک چھوڑ دیں اس میں سب کی بھلائی ہے مگر دولتانہ نے افسردہ ہو کر کہا کہ بھٹو نہیں مان رہا ہے وہ کہتا ہے کہ اس طرح میں پسپا ہوا اور عوام کو چھوڑ کے چلا گیا تو تاریخ مجھے معاف نہیں کرے گی۔ اس سلسلے میں اس دور میں بھٹو کا یہ تاریخی جملہ بھی بہت مشہور ہوا کہ
"I prefer to be eliminated by generals rather than being destroyed by the history."
ایک طرف بھٹو کی یہ بہادری اور عوام سے لگن تھی (حالانکہ اس سلسلے میں اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں) اور دوسری طرف یہ بھی ایک تاریخ ہے کہ کس ملک میں لوگوں نے اپنے قائد کی جاں بچانے کے لئے خود سوزی کی اور جاں دے دی۔