چار دلائل،چار جواب

April 10, 2013

دلیل نمبر 1 : جو شخص با کردار اور صالح مسلمان نہیں، کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں برتتا ،اسے دستور کی دفعہ 62کے تحت عوام کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں۔جواب:ہر وہ شخص اہل ہے جو اپنے آپ کو ایماندار، نیک اور دیانت دار کہتا ہے اور سمجھتاہے کیونکہ دستور نے کوئی ایسا طریقہ وضع نہیں کیاجس کے تحت کسی بھی شخص کو شق 62کے تحت انتخابی عمل سے باہر کیا جا سکے۔ جب دستور نے خود ایسا کوئی طریقہ نہیں بتایا تو کوئی مذہبی دیوتا کیسے بتا سکتا ہے ؟مزے کی بات یہ ہے کہ غیر مسلم امیدوار کے ضمن میں ایسی کوئی شرط نہیں صرف اتنا لکھا ہے کہ وہ اچھے کردار کا حامل ہو ۔اب اس کا کیا مطلب ہے ؟ کیا کوئی ہندو امیدوار کسی مندر کے پجاری سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ لے کر جمع کروائے گا جس میں لکھا ہو گاکہ ”تصدیق کی جاتی ہے کہ مسمّی بھولا ناتھ اچھے کردار کا حامل شخص ہے اور آئین کی دفعہ 62پورا اترتا ہے ۔تصدیق کنندہ ،کاشی رام ،جین مندر ،لاہور۔“کیا ایسا سرٹیفکیٹ دیکھ کر ریٹرننگ آفیسر کے کلیجے کو ٹھنڈ پڑ جائے گی ؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر مسلم امیدواروں کو بھی ایسے سرٹیفکیٹس جمع کروانے کا پابند کیا جانا چاہئے جیسے کہ ویزا اپلائی کرتے وقت ہم لوگ مختلف قسم کے حلفیہ بیان دیتے ہیں اور تمام ممالک وہ بیان من و عن تسلیم بھی کر لیتے ہیں تاوقتیکہ ان کے پاس کوئی خلاف واقعہ شہادت نہ ہو۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے مذہبی رہنما مل جل کر ایک ایسا ادارہ ہی کھول لیں جوگناہ گار مسلمانوں کو ایک شارٹ کورس کے بعد انہیں سرٹیفائیڈ مسلم قرار دیکر فارغ کردے جو شق 62پر پورا اترتاہو !جو ریٹرننگ آفیسر دعائے قنوت اور کلمے سن کر امیدواروں کی مسلمانیت کے بارے میں فیصلے سنا رہے ہیں انہیں چاہئے کہ ایک دفعہ قانون شہادت کھول کر پڑھیں اور دیکھیں کہ اس میں گواہ کی اہلیت کی کیا شرائط بیان کی گئی ہیں ۔اپنے روزانہ کے مقدمات سنتے وقت کیا وہ گواہوں کو ان شرائط پر پرکھتے ہیں ؟نہیں ،کیونکہ اگر وہ ایسا کرنے لگیں تو پورا عدالتی نظام دھڑام سے نیچے آ گرے۔ وہ ہر گواہ کو ایماندار اور سچا سمجھ کر ہی مقدمے کا فیصلہ کرتے ہیں تاوقتیکہ کوئی شخص اس گواہ کو جھوٹا ثابت کردے ۔رہی بات دعائیں اور کلمے سننے کی تو تمام علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی بھی ان پڑھ شخص اگر چپ چاپ بھی امام کے پیچھے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی ۔اب کیا اَن پڑھ شخص کو آپ دائرہ اسلام سے خارج کردیں گے ؟اگر کوئی اَن پڑھ کسان اپنی برادری کی نمائندگی کرنا چاہتا ہے تو کیا وہ اس بنا پر نا اہل قرار پائے گا کہ اسے چھٹا کلمہ نہیں آتا؟اور پھر یہ شق 62میں یہ کہاں لکھا ہے کہ اسلام کے متعلق علم کا اندازہ اس طریقے سے لگایا جائے گا ؟ جب اس ضمن میں کوئی قانون سازی ہی نہیں کی گئی تو پھر ہر شخص 62میں اہل ہے جب تک اس کے خلاف کوئی ثبوت نکال کر اسے مجرم ثابت نہیں کیا جاتا۔ دلیل نمبر 2 : یہ بات ہمارے دستور میں لکھی ہے کہ شہریوں کو اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق مرتب کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ پس ثابت ہوا کہ پاکستان میں مذہب انسان کا ذاتی معاملہ نہیں اور ریاست کا فرض ہے کہ دستور کے مطابق لوگوں کی زندگیاں اسلامی سانچے میں ڈھالے ۔جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ شق بنیادی انسانی حقوق کے باب میں نہیں بلکہ حکمت عملی کے باب میں درج ہے ۔فرق دونوں میں یہ ہے کہ بنیادی حقوق کسی بھی عدالت میں جا کر حاصل کئے جا سکتے ہیں جبکہ حکمت عملی کے اصول enforceableنہیں ہیں اور یہ بات اس باب میں درج ہے ۔اصل الفاظ یہ ہیں ” The validity of an action or of a law shall not be called in question on the ground that it is not in accordance with the Principles of Policy, and no action shall lie against the State or any organ or authority of the State or any person on such ground. ۔“
یعنی یہ ریاست کی خواہشات تو ضرور ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی کاہن اٹھ کر یہ کہہ دے کہ دیوتاؤں نے اس کے کان میں بتا دیا ہے کہ مذہب کی رو سے فلاں بات درست ہے لہٰذا فوراً دستور کی اس شق کے تحت اس کو نافذ کیا جائے ۔دوسری بات مزید دلچسپ ہے۔ اسلامی دفعات کے ضمن میں یہاں لفظ استعمال ہوا ہے ”مطلب یہ کہ ریاست مجبور نہیں کریگی بلکہ enableکرے گی اور ایسا ہی ہمارا دین بھی کہتا ہے کہ اس میں کوئی جبر نہیں۔کسی ریٹرننگ آفیسر کو یہ اختیار نہیں کہ اس اصول کی آڑ میں ڈنڈا اٹھا ئے اور لوگوں کو سزا سنانا شروع کردے ۔یہ اصول enabling environmentکی بات کرتا ہے punitive environmentکی نہیں ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انہی اصولوں میں اور بھی بہت سی باتیں درج ہیں مگر ان پر ہمارا کبھی دھیان نہیں جاتا ،ہاں اگر کبھی کوئی این جی او عورتوں کے حقوق کا کوئی بل منظور کروا لے تو ہاہا کار مچ جاتی ہے حالانکہ یہ بات بھی وہیں درج ہے جہاں اسلامی دفعات کا ذکر ہے ۔دلیل نمبر 3 : اگر کوئی امیدوار ببانگ دہل یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ شرابی ہے تو ریٹرننگ آفیسر کے پاس یہ اختیار ہے کہ اس کے کاغذات نامزدگی آئین کی دفعہ 62 کے تحت مسترد کر دے کیونکہ ایسا شخص با کردار مسلمان نہیں رہا۔جواب: قانون کے مطابق شرابی وہ شخص نہیں جو اقرار کرے کہ وہ شرابی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ اقرار کرے کہ وہ ہٹلر کا قاتل ہے تو اس شخص کو اس جرم میں پھانسی نہیں دیدی جائے گی ۔مطلب یہ ہوا کہ قانون کے مطابق اگر کوئی اقرار بھی کر لے تو پہلے مقدمہ درج ہوگا،چالان پیش ہوگا ،گواہ بلائے جائیں گے ،جرح ہو گی ،طبی معائنہ ہو گا اور پھر جج جسے شرابی قرار دیگا وہ مجرم ہوگا قطع نظر اس بات سے کہ وہ اقرار کرے یا مکر جائے۔کسی مسلمان کے کردار کا فیصلہ محض اس بات پر نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے کوئی تخلیقی مضمون لکھا جو کسی بونے کو سمجھ نہیں آیا لہٰذا اس نے شرابی قرار دے دیا ،کل کو یہ ریٹرننگ افسر اقبال کو بھی شرابی کہہ سکتا ہے کہ اس نے ”ساقی نامہ “ لکھ ماری تھی۔دلیل نمبر4 : دنیا بھر میں عوامی نمائندگی کے دعویداروں کی خوردبین سے سکروٹنی کی جاتی ہے اور اگر ان کی کردار کی معمولی سی لغزش بھی سامنے آجائے تو انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ۔جواب : نہایت مخولیا دلیل ہے ۔دنیا بھر میں عوامی نمائندے کسی ریٹرننگ آفیسر کے ہاتھوں نا اہل نہیں ہوتے بلکہ اپنی کسی غیر اخلاقی حرکت کے نتیجے میں میڈیا اور سول سوسائٹی کے دباؤ کے تحت اس لئے مستعفی ٰ یا سبکدوش ہوتے ہیں کیونکہ ان کی approval ratingsگر جاتی ہیں ۔دنیا میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں جہاں کوئی امیدوار کسی ریٹرننگ آفیسر کے ہاتھوں اس وجہ سے بے عزت ہوا ہو کہ اس کا کوئی افیئر تھا۔اگر یہ کام ریٹرننگ افسران کا ہوتا تو پھر الیکشن کی کیا افادیت رہ جاتی ہے ؟ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ کسے حکمرانی کے لئے منتخب کرتے ہیں ما سوائے ان لوگوں کے جو شق 63کے تحت ٹھوس ثبوت اور عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں نا اہل قرار پاتے ہیں ۔