زمانہ ’’وقت‘‘ کا حیرت کدہ (آخری قسط)

July 12, 2020

اس لیے کوئی کوشش بھی انہیں تبدیل نہیں کرسکتی۔اس کے برعکس Presentist (موجودیت پسند) فقط ’’حال ‘کو حقیقی سمجھتے ہیں۔ وہ ماضی کے واقعات کو غیر حقیقی سمجھتے ہیں چوں کہ وہ واقعات گزر چکے ہیں اور فقط یادداشت کا حصہ ہوتے ہیں۔ جب کہ مستقبل کے واقعات ابھی رونما ہونے ہیں اس لیے وہ وجود نہیں رکھتے۔غالباً اس مکتبۂ فکر کے لوگ زندگی کو ایک مسلسل حال میں گزرتا دیکھتے ہیں اور غالباً یہ لوگ اس بات پر بھی یقین نہ رکھتے ہوں گے کہ مستقبل تخلیق ہوچکا ہے اورنہ ہی اس خیال کو حقیقی سمجھتے ہوں گے کہ کوئی انسان مستقبل میں کسی بھی وسیلے سے جھانک سکتاہے۔ ایک حدیثِ مبارکہﷺ جبروقدر کے بیچ ایک لطیف توازن پیدا کرتی ہے۔’’الایمان بین الجبروالقدر (ایمان جبر اور قدر کے درمیان ہے)۔‘‘

ڈاکٹر وحید اشرف اپنی کتاب ’’زمان ومکان‘‘ میں شامل اپنے مقالے ’’اقبال کا تصوّرِ زمان ومکان اور صوفیا‘‘میں ابنِ عربی کی معرفت ایک اور نظریہ سامنے لآتے ہیں۔ اس فکر کے مطابق وقت کو دو اندازمیں دیکھا جا سکتا ہے ۔ ایک نظامِ شمسی کی صُورت ہے، جس میں ماہ وسال اور روزوشب قطرہ قطرہ ٹپکتے ہیں۔ دوسری صُورت میں وقت ایک وہم ہے، اس کا کوئی وجود نہیں۔ ابنِ عربی نظامِ شمسی کو اللہ کےامر کےنزدیک آنکھ جھپکنے سے بھی کم تصوّر کرتے ہیں۔ اِسی کو قرآن میں ’’کُلِ یوم ھو فی شأن‘‘ کہا گیا ہے۔ ابنِ عربی تو دہر (یعنی زمانہ) کو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنہ میں شامل کرتے ہیں۔ رازی نے بھی تفسیرِقرآن میں درج کیا ہے کہ صوفی بزرگوں نے انھیں دہر، دیہور یا دیہار کے الفاظ کے ورد کی ہدایت کی تھی (از خطبات ِ اقبال)۔ فلسفہ ہائے وقت، دل چسپ حقائق اور طبقات ِ فکر سے گزرتے ہوئے بات کا رُخ ادب کی جانب موڑا جائے، تو اسے برتنے کے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔

وقت کو عمومی رائج الوقت تصوّر کے مطابق ادب میں برتا گیا، جس میں وقت میں سفر یا انسان کا موت کے طبعی وقت سے بڑھ کر زندہ رہ جانا وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری جانب اس کا فلسفیانہ اور پیچ در پیچ حیران اور متذبذب کر دینے والا دل کش پہلو فن پارے کے مرکز میں رکھا گیا۔ ادب میں عوامی، سطحی اور عمومی نوعیت کاوقت بنیادی اہمیت کاحامل ہے۔عموماً واقعات اور خیالات کسی ایک خاص وقت میں وقوع پذیر ہوتے یا وجود میں آتے ہیں۔ کوئی بھی واقعہ وقت اور جگہ کے جالے میں مکڑی کی طرح موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی خیال کتنا ہی آفاقی کیوں نہ ہو، اسے شیکسپیئر، گوئٹے یا مِلٹن مخصوص وقت یا زمانے کے تناظر میں دِکھا کر زیادہ بامعنی اور حقیقی بناتے ہیں۔ جب غالبؔ کہتا ہے ’‘ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے…‘‘ تو وہ ’’میرے‘‘ کہہ کر قاری کا تصوّر اپنے زمانے اوردَور پر مرکوز کرکے خیال کو آسان فہم اور بامعنی کردیتاہے۔ یعنی شعر میں انیسویں صدی کا غالب مرکز میں ہے، البتہ اس کا اطلاق کوئی بھی، کہیں بھی کرسکتا ہے۔

علمائے ادب بالعموم نثری ادب اور بالخصوص ناول میں وقت کو چار مختلف سانچوں میں لیتے ہیں۔ اوّل، مصنّف کا وقت، یعنی وہ وقت جب فن پارہ تخلیق یا شائع کیا گیا۔ دوم، راوی کا وقت، یعنی وہ وقت جب راوی کہانی بیان کرتا ہے۔ سوم، پلاٹ کا وقت، یعنی وہ وقت جب کہانی یا ماجرا وقوع پذیر ہوتا ہے۔ وہ ماضی یا مستقبل میں،کہیں بھی ہوسکتا ہے۔ چہارم، قاری یا ناظر کا وقت، جب قاری فن پارے کو پڑھتا ہے یا ناظر اسے دیکھتا ہے۔ عام طور پر کہانی کو سیدھے سبھاؤ واقعاتی اور لمحاتی ترتیب کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا واقعہ اور ایک کے بعد دوسرا کردار بالترتیب کہانی میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک ناول کئی صدیوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

اردو میں اس کی مثال قراۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ ہے۔ ایک ناول کے درجنوں صفحات گنتی کے چند لمحات کی روداد بھی بیان کرسکتے ہیں۔ مارسل پراؤسٹ کا ناول "In Search of Lost Time" ’’وقتِ گم گشتہ کی تلاش‘‘ اس کی مثال ہے۔ ناول میں ماضی اور حال بارہا یوں مدغم ہوتے ہیں کہ ان میں تفریق مشکل ہوجاتی ہے۔ فیودور دوستووفسکی کا ناول "Crime and Punishment" ’’جُرم وسزا‘‘ اس کی مثال ہے۔ فلیش بیک میں وقت ِ گزشتہ کی کہانیاں اور رُوداد ایک پرانی اور آموزدہ تکنیک ہے، جسے ہومر کی اوڈیسی میں بھی استعمال کیا گیا۔ بیسویں صدی میں بین الاقوامی سطح کے مصنّفین اپنی تخلیقات میں وقت کی تقسیم، عارضی کجی اور سیدھی لکیر میں سفر سے انحراف کی تیکنیکس استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان میں نمایاں ترین کافکا، ورجینیا وولف، ولیم فاکنر، جیمز جوائس، نوبوکوف اور سیموئیل بیکیٹ وغیرہ ہیں۔ ٹامس مان کے ناول "The Magic Mountain" (جادوئی پہاڑ) میں سوئس پہاڑی سلسلے الپس میں ٹی۔

بی کی علاج گاہ میں مرکزی کردار کے لیے وقت تکلیف دہ حد تک سُست روی سے گزرتا ہے، تاوقتیکہ لمحات دِنوں میں اور دِن برسوں میں تیز رفتاری سے مدغم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ وقت کے تحلیل ہونے اور طلسماتی بہاؤ میں بہنے کی بہترین عکّاسی گبرئیل گارشیا مارکیز کے شہرئہ آفاق ناول "One hundred years of solitude" (تنہائی کے سَو برس) میں ہوتی ہے۔ اس سرسبز، گھنے، دَمکتے ،خیرہ کُن شاہ کار میں کئی نسلیں یوں زندگی بسر کرجاتی ہیں کہ پس منظر میں وقت کا تصوّر تحلیل ہوجاتا ہے۔ جاسوسی ادب میں وقت کی ایک تیکنیک خاصی کام یابی سے استعمال ہوتی آرہی ہے۔ کلاسیکی ادب میں عموماً ایک کردار کی خامیاں اور خطائیں اسے آخرکار ٹریجیڈی تک لے جاتی ہیں، مگر جاسوسی ناولز میں عموماً کہانی ایک وقوعے سے شروع ہوکر پیچھے کی جانب سفر کرتی ہے، جہاں اس کی وجوہ اور جڑیں تلاش کی جاتی ہیں۔ فٹز جیرلڈ نے اپنے افسانے "The Curious case of Benjamin Button" میں ایک ستّربرس کا کردار دکھایا ہے، جو جوانی، لڑکپن اور بچپن کی جانب پیچھے کو سفر کرتا ہے یہاں تک کہ ندارد ہوجاتا ہے۔

والٹ وٹمین جیسے امریکی شاعری کے سُرخیل نے اپنی شاعری میں ’’وقت‘‘ کا حیران کُن اور صوفیانہ رنگ والے تجربے کے طور پر ذکر کیا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی شاعری میں وقت کا ضمناً تذکرہ کرتے ہوئے لکھا، ’’تتلی مہینوں کو نہیں گنتی بلکہ لمحات میں زندہ رہتی ہے، سو اُس کے پاس بہت وقت ہوتا ہے‘‘۔ ’’اپنی زندگی کو وقت (عرصہ )کے کناروں پر یوں ناچنے دو جیسے شبنم کا قطرہ پتّے کی نوک پر‘‘۔ ٹی۔ایس ایلیٹ ’’چار رباعیاں‘‘ میں لکھتا ہے، ’’حاضر وقت اور گزشتہ وقت، دونوں غالباً آیندہ وقت کا حصّہ ہیں، اور آیندہ وقت گزشتہ وقت میں موجود ہے۔ اگر تمام وقت لازوال ہے، تو تمام وقت ناقابلِ تلافی ہے‘‘۔

ایک بہت دل چسپ معاملہ یہ بھی ہے کہ ہر شے ایک معینہ مدّت کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ انسان بھی ہمیشہ موت سے دوڑ ہار جاتا ہے۔ البتہ بعض مصنّفین نے انسان کے طبعی عُمر سے ’’زیادہ وقت زندہ رہ جانے کی سزا‘‘ کا تذکرہ کیا ہے۔ جے آر آر ٹالکین نے"Lord of the Rings'' کا کردار ایلوزدِکھایا ہے، جو (انسانوں کے نہ سمجھنے کے باوجود) انسان کے فانی ہونے کو نعمت سمجھتا ہے۔ راقم کو بساطِ وقت پر لمبی عُمر پانے والوں کے افسانوں میں میری شیلے اور بورخیس کی دو شان دار کہانیوں نےخاصامتاثر کیا۔ یہ دونوں کہانیاں اہم بین الاقوامی کہانیوں میں بھی شمار ہوتی ہیں۔ میری شیلے نے "The Mortal Immortal"(فانی غیر فانی) نامی کہانی 1833میں لکھی۔ ’’فانی غیر فانی‘‘ ونزی نامی ایک ایسے جوان آدمی کی کہانی ہے، جو 323برس کی عُمرپاتاہے۔ وہ کیمیا کےایک پروفیسر کے ہاں ملازمت کرتا ہے۔

اُسے وہاں ملازمت کرنا پسند نہیں لیکن وہ اپنی بچپن کی محبّت برتھا کی خاطر نوکری قبول کرلیتا ہے۔ اسے اُمید ہوتی ہے کہ نوکری سے ہونے والی یافت اتنی خاطر خواہ ہوگی، جس سے وہ برتھا کو ایک آرام دہ زندگی دے سکے گا۔ پروفیسر کافی عرصےسے ایک امرت کی تیاری میں مصروف ہوتا ہے۔ ایک روز ونزی کو شک ہوتا ہے کہ برتھا اسے چھوڑ کر ایک اور شخص سے تعلقات استوار کر رہی ہے۔ گو اسے امرت کی نوعیت کا علم نہیں ہوتا، مگر ونزی سمجھتا ہے کہ وہ امرت اسے غم سے نجات دلا دے گا۔ یہ سوچ کر وہ اُسے پی جاتا ہے۔ اگلی صبح وہ تازہ دَم اُٹھتاہے اوراس پرمنکشف ہوتا ہے کہ برتھا اب تک اُس سے باوفا ہے۔ پروفیسر جب کام پر لوٹتا ہے تو یہ دیکھ کر مایوس ہوجاتا ہے کہ وہاں امرت موجود نہیں۔

درحقیقت ونزی آدھا امرت پی چُکا ہوتا ہے اور بقیہ آدھا اس سے گِرجاتا ہے۔ پانچ برس بعد پروفیسر بسترِمرگ پر امرت کی حقیقت ونزی پر آشکار کرتا ہے۔ حالات یوں کروٹ لیتےہیں کہ برتھا ادھیڑ عُمری اور بڑھاپے کی جانب بڑھتی جاتی ہے، جب کہ ونزی بیس برس کا خُوب رُو نوجوان رہتا ہے۔ برتھا اس کی نوجوانی دیکھ کر تذبذب کا شکار رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اُسے حقیقت بتا دیتا ہے۔ وہ دونوں جنوبی فرانس منتقل ہوجاتے ہیں تاکہ ان کے آبائی شہر کے لوگ ان کے متعلق باتیں نہ بنائیں۔ وہاں وہ برتھا کو موت کی جانب آہستہ آہستہ بڑھتےدیکھتا ہے اور برتھا مر جاتی ہے۔

ونزی کی زندگی میں ایک خوف ناک خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ جان جاتا ہے کہ اب وہ کسی عورت سے اس طرح سچّی اور شدیدمحبت نہیں کرسکے گا، جیسی وہ برتھا سے کرتا تھا۔ سَو اُس کی زندگی مایوسی اور دُکھ میں گزرتی جاتی ہے۔ بظاہر وہ جوان ہوتا ہے، جب کہ اندرونی طور پروہ بوڑھا ہوتا رہتا ہے۔اُسے ہمیشہ جینے کی سزا دے دی جاتی ہے۔ بورخیس کی تحریر کردہ کہانی ’’لافانی‘‘ فرانسس بیکن کے قول سے شروع ہوتی ہے’’(حضرت) سلیمان ؑنے کہا، ’’اس دنیا میں کوئی شے نئی شے نہیں۔ جیسا کہ افلاطون کے ہاں تخیّل تھا۔ تمام علم کچھ بھی نہیں، سوائے ماضی کو دہرانے کے، چناں چہ (حضرت) سلیمان ؑ نے فیصلہ سُنا دیا، ہر انوکھی بات بالآخر فراموش ہوجانے کے لیے ہے۔‘‘ لندن میں شہزادی لوسنج کو نایاب کتابوں کا ایک دکان دار، الیگزینڈر پوپ کے گھر سے ملنے والی ہومر کی رزمیہ داستان ’’الیڈ‘‘ کی چھے جِلدیں دیتا ہے۔ اس کی آخری جِلد کے پانچ ابواب میں ایک سرگزشت رقم ہوتی ہے۔ یہ ایک رومی کمان دار مارکس ملیمینیس روفس کی رُوداد ہے۔

ایک رات جب وہ مصر میں ہوتا ہے، تو ایک زخمی شخص اس کے کیمپ میں پناہ لیتا ہے۔ وہ مرنے سے پہلے روفس کو ایک ایسے دریا کا پتا بتا دیتا ہے، جو ’’لافانیوں کے شہر‘‘ میں ہوتا ہے اور جس میں آب ِ حیات بہتا ہے۔ اُسے پی کر انسان لافانی ہوجاتا ہے۔ روفس اس دریا کی تلاش میں افریقا کے اندرون میں اپنے فوجیوں کے ہم راہ نکل پڑتا ہے۔ شدید مشکلات کے باعث چند فوجی اُسے چھوڑ جاتے ہیں اور دیگر اُسے قتل کرنے کا ارادہ باندھتے ہیں۔ روفس بھاگ اُٹھتا ہے اور صحرا نوردی اختیار کرتا ہے۔ ایک رات وہ بھیانک خواب سے جاگتا ہے، تو اپنے آپ کو ایک پہاڑ کے پہلو میں واقع تنگ رستے میں بندھا پاتا ہے۔ وہ کسی طرح آزاد ہو کر نیچے سے گزرتی گدلے پانی کی ندی سے پانی پی کر سوجاتا ہے۔

چند روز میں اس کی صحت بحال ہوجاتی ہے۔ اُس کی تلاش جاری رہتی ہے اور وہ لافانیوں کا شہر تلاش کرلیتا ہے۔ پہاڑ پر واقع بستی کا ایک باشندہ اس کا پیچھا کرتا چلا آتا ہے۔ لافانیوں کا شہر بےشمار بھول بھلیوں، اُلٹی سیڑھیوں اور عجیب وغریب تعمیرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ روفس اس عجائب خانے سے متنفّر ہوجاتا ہے اور وہاں سے نکل جاتا ہے۔ باہر وہی باشندہ اُس کا منتظر ہوتا ہے۔ اُسے وہ آرگوس کا نام دیتا ہے اوراپنی زبان سکھاتا ہے۔ بعدازاں، آرگوس انکشاف کرتا ہے کہ درحقیقت وہ شاعر ہومر ہے۔ اصل میں پہاڑی بستی کے لوگ لافانی ہیں۔ انھوں نے ہومر کے مشورے پر ’’لافانیوں کا شہر‘‘ تباہ کرکے وہاں بھول بھلیاں اور عجیب تعمیرات قائم کردیں۔ روفس لافانیوں کے ساتھ صدیاں گزار دیتا ہے، یہاں تک کہ اُن سب کو ایک ایسے دریا کا پتا چلتا ہے، جس کا پانی انسانوں کی لافانی زندگیوں کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس دریا کی تلاش میں وہ سب دسویں صدی میں بکھر کر سرگرداں ہوجاتے ہیں۔ روفس جہاں گردی اختیار کرتا ہے۔

اس سفر میں اُس کی لڑائیاں ہوتی ہیں، وہ سندباد جہازی کے اسفار رقم کرتا ہے اور بہت سی مہمات میں شریک ہوتا ہے۔ بالآخر 1921میں بومبے جاتے ہوئے اس کا جہاز اریٹیریا کے ساحل پر لنگر انداز ہوتا ہے۔ وہاں وہ مطلوبہ لافانی زندگی کو ختم کرنے والا پانی پی لیتا ہے اور پھرمسلسل یکساں، ایک تھکا دینے والی زندگی سے اکتوبر1929 کو نجات پالیتا ہے۔ آخر میں وہ لکھتا ہے۔ ’’مَیں ’’ہومر‘‘ رہا ہوں، جلد اولیسس کی طرح میں نابود ہوجاؤں گا، جلد میں تمام لوگوں کی طرح ہوجاؤں گا، مَیں مرجاؤں گا۔‘‘ عام زندگی میں بھی لافانی زندگی کے عجائبات مل ہی جاتے ہیں۔ جیلی فش کی ایک ایسی قسم پائی جاتی ہے، جو لافانی ہے۔ یہ زیادہ تر جاپان کے گردونواح کے سمندر اور بحیرئہ روم میں پائی جاتی ہے۔ آسمانی صحائف اور ادب میں وقت میں سفر کی بےشمار داستانیں موجود ہیں۔ قرآن پاک میں سات اصحاب ِکہف اور ان کے کتّے کا تذکرہ موجود ہے۔

یہ سات افراد خدائے واحد کے ماننے والے اور عبادت گزارتھے۔ اُنھیں رومی بُتوں کو ماننے کا حکم تھا۔ سو، اپنے آپ کو ریاستی تشدّد سے بچانے کے لیے یہ غار میں جاچُھپے اور سوگئے۔ تین سو برس بعد یہ جاگے اور سمجھے کہ ایک آدھ دن ہی سوئے ہیں۔ جب یہ اپنے دَور کے چاندی کے سِکّے لے کر بازار گئے تو انکشاف ہوا کہ یہ کئی صدیاں سوتے رہے تھے۔ مسیحی روایات کے مطابق اس انکشاف کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی وفات ہوگئی۔

مبیّنہ طور پر ان کا مدفن جدید ترکی میں ہے۔ علاوہ ازیں، سورۃ البقرہ میں حضرت عزیرؑ کا تذکرہ موجود ہے۔ وہ بیت المقدس کی ایک ویران بستی سے گزرے تو حیران ہوئے کہ اللہ تعالیٰ مُردوں کو کیسے زندہ کردے گا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں مار کر ایک سوبرس بعد زندہ کردیا اور بیچ میں گزرے وقت کا پوچھا تو وہ بولے کہ’’ایک دن‘‘۔ واقعہ معراج میں اللہ تعالیٰ رسول پاکؐ کو ایک رات یوں مسجد الحرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک لے گیا کہ جب وہ لوٹے تو دروازے کی چٹخنی ہل رہی تھی اور بستر وجود ِ پاک ﷺ ؐکی حدّت سے گرم تھا۔

ایسے لوگوں کے قصّے جو کسی وجہ سے سوگئے اور عرصے بعد بیدار ہوئے ہندو ’’مہابھارت‘‘، یہودی ’’تلمود‘‘ اورجاپانی ’’نی ہونگی‘‘ میں مذکور ہیں۔ 1733میں سیموئیل میڈن نے "Memoirs of Twentieth Century" (بیسویں صدی کی یادداشتیں) نامی ناول لکھا، جس میں ایک فرشتہ مستقبل سے دستاویزات لے کر آتا ہے۔ چارلس ڈکنز جیسے استادِ ادب نے بھی وقت میں سفر کے تصوّر کو اپنی تحریروں میں آزمایا۔ واشنگٹن ارونگ، مارک ٹوئن اور دیگر ادیبوں نے فِکشن میں ایسے کرداروں کا تذکرہ کیا، جو طویل مدّت بعد مستقبل میں جاگے۔ سائنس فکشن کے سُرخیل، H.G. Wells نے The Time Machine میں باقاعدہ طور پر ایسی مادّی ٹھوس مشین کا تصوّر پیش کیا، جس میں بیٹھ کر وقت میں سفرکیاجاسکتا ہے۔

دیگر ادیبوں نے اس تصوّر سے متاثر ہوکر کئی کہانیاں، نظمیں اورناول لکھے۔ اگر حقیقی اور تیکنیکی طور پر دیکھا جائے تو آج کا انسان بھی گھنٹوں کے حساب سے ماضی یا مستقبل میں سفر کرسکتا ہے۔ پاکستان سے یکم کی رات نو بجے اُڑنے والا طیارہ، چھے سات گھنٹے بعد برطانیہ اُترے گا، تو پاکستان میں دو تاریخ ہو چُکی ہوگی، مگر لندن میں ہنوز یکم تاریخ ہوگی۔ گویا اس طیارے نے چند گھنٹوں میں ماضی کا سفر کیا۔ اردو میں داستان کی روایت بہت توانا رہی ہے۔ داستانِ امیر حمزہ میں زمان ومکان طلسماتی طور پر باہم تحلیل وخلط ملط ہوتے رہتے ہیں۔ اس میں وقت کبھی پلٹ آتا ہے، توکبھی تھم جاتا ہے اور کبھی اسپ منہ زور پر ہوا ہوجاتا ہے۔

داستان میں عجب نشہ آور جادو ہوتا ہے، جو چوں کہ عقل سے ماوراحیران کردینے والے واقعات دکھاتا ہے، سو ان واقعات کو اَن دیکھے دُور افتادہ مُلکوں میں وقوع پذیر ہوتا دِکھاتا ہے۔ سب کچھ ماضی میں ہوتا ہے کہ ماضی کے جادو اور مذہبی حکایات پر یقین کرنے کو انسان کا جی چاہتاہے۔ بعد کے اردو نثری ادب کے دو اساتذہ قراۃ العین حیدر اور شمس الرحمان فاروقی نے موثر انداز میں وقت کے عُنصر کو برتا ہے۔ قراۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ چندر گپت موریا کے دَور سے شروع ہو کر تقسیمِ ہند پر آکر ختم ہوتا ہے۔ گوتم نیلمبر اس کا مرکزی کردار ہے۔ ناول کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ ادوار بدھ، کبیر، برطانوی راج اورجدوجہد آزادی پر مشتمل ہیں۔ اس کے چند کردار وقت کے دھارے پر بار باراُبھرتے رہتے ہیں۔ ہندونظریۂ آواگون (جنموں کا سلسلہ) میں انسان اپنے اعمال کی بنیاد پر اچھی یا برُی حالت میں دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ قراۃ العین حیدر کے ہاں ناول میں ایسا کوئی تصور نظر نہیں آتا۔

پہلے دَور کی چمپک دوسرے دَور میں چمپاوَتی، تیسرے دَور میں چمپاجین اور چوتھے دَور میں چمپا احمد بن کر سامنے آتی ہے۔ اِسی طرح پہلے دَور کا گوتم نیلمبر دوسرے دَور میں گوتم نیلمبر دت کی صُورت ابھرتا ہے۔ گو یہ سب مختلف لوگ ہیں،پربرصغیرکی تہذیب سمجھنے کےلیے انھیں اکائی کی صُورت دیکھا جانا چاہیے۔ یوں وقت کے بہاؤ پر اُبھرنے والے چہرے ایک عظیم تہذیب کے چہرے بن جاتے ہیں، جسے قراۃ العین حیدر کے قلم نے چُھوکر سونے کا کردیا ہے۔ پریم چند نے بھی ’’پردئہ مجاز‘‘ میں کنور کو تین مختلف زمانوں میں پیدا کیا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کا ناولا ’’قبضِ زمان‘‘ ایک ایسے حیرت زدہ شخص کی کہانی ہے، جسے وقت اپنے زمانے سے آگے لا پھینکتا ہے۔ وہ ایک عجیب شہر میں زینت المسجد میں داخل ہوجاتا ہے۔ وہاں ایک قبر کے کتبے پر زینت النسالکھا ہوتا ہے۔ وہ شہنشاہ اورنگ زیب کی بیٹی کی قبر ہے۔ اُس شخص نے 1520میں سلطان ابراہیم لودھی کے دَور میں اپنی بستی چھوڑی ہوتی ہے۔ جب کہ مذکورہ قبر1707میں تیار کی گئی ہے۔ ایک مختصر سفر اُسے قریباً دو صدی آگے لے جاتا ہے۔ اس ناولا میں مصنف نے قبل از تقسیم ہندوستان میں آباد مسلمانوں کی تہذیب کو چھوا ہے۔

وقت کو ایک کردار کی طرح برتنے اور اس کی پرتوں کی طلسماتی اُلٹ پھیر اور قلابازیوں کو بطور خاص استعمال میں لانے والے فن پارے اردو اَدب میں خال خال ہیں۔ بات بڑھائی جائے، گمان کے پرندے بادلوں کے گھونسلوں میں گھر کریں، تو ہرتخلیق میں وقت کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ پر یہاں مہمل کے بجائے وضاحت کے ساتھ عُنصرِ وقت کا تذکرہ ہے۔ وگرنہ ڈھونڈنے والے کو تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ گل زارؔکا ایک برمحل مصرع ہے ؎ وقت کی آنکھ پہ پٹی باندھ کے کھیل رہے تھے۔ آنکھ مچولی ’’وقت‘‘ کا لطیف مشاہدہ و تجربہ اپنی تمام تر بو العجبیوں کے ساتھ نوعِ انسان کو درپیش رہے گا۔ حیراں و غلطاں آدم اس کے اَسرار پر یوں ہی خامہ فرسائیاں کرتا رہے گا، حیراں ہوتا اور کرتا رہے گا۔ تاوقتیکہ وہ وقت کےعظیم دھارے میں نابود ہوجائے، ایک بار پھرنمودار ہونے کی اُمیدکے ساتھ۔