کورونا... عالمی سیاحت کو لے بیٹھا

July 12, 2020

’’دنیا بھر کے سیّاحتی، تفریحی مقامات، تاریخی عمارات اور آثارِ قدیمہ آج کل چُھٹیوں پر ہیں۔ وہ آرام اور سُکھ کا سانس لے رہے ہیں، جو شاید اُنہیں 60۔70سال بعد پہلی مرتبہ نصیب ہوا ہے۔‘‘شعبۂ سیّاحت کے ماہرین نے یہ دِل چسپ تجزیہ مناظرِ فطرت اور سیّاحت پر کورونا وائرس کے منڈلاتے بادلوں کے پس منظر میں کیا ہے۔ دنیا بھر کے تفریحی اور سیّاحتی مقامات، جو سارا سال سیّاحوں کے نرغے میں رہتے تھے، آج کل سیّاحوں کی آمدورفت تقریباً ختم ہو جانے کے باعث وقفے اور سکون کی حالت میں ہیں، لیکن کروڑوں سیّاحوں کے بوجھ سے آزادی کا جو خمیازہ بین الاقوامی ٹورازم انڈسٹری کو بھگتنا پڑا ہے، اُس کے بارے میں فی الحال صرف قیاس اور گمان ہی کیا جا سکتا ہے کہ اگر اعدادو شمار اور حساب کتاب کی روشنی میں پرکھا جائے، تو شاید کیلکولیٹر کو بھی مشکل پیش آئے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے، ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن، امریکن ٹریول انڈسٹری کے ترجمان اور بین الاقوامی سیّاحت کی کاؤنسل کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق، کورونا کے باعث عالمی سیّاحت کو ایک سال میں 300بلین سے 500بلین ڈالرز تک کا نقصان ہوگا۔(پاکستانی کرنسی میں یہ رقم کھربوں سے بھی تجاوز کر جاتی ہے)۔ ماہرین کے مطابق’’1950ء کے بعد، جب عالمی سیّاحت کا رجحان شروع ہوا، سیّاحت کی صنعت پر اس سے بُرا وقت پہلے کبھی نہیں آیا۔‘‘ 2020ء کے آغاز پر، جب دنیا نئے سال کے استقبال میں مصروف تھی اور سیّاحوں کی آمدورفت کا سلسلہ اپنے عروج پر تھا، کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ صرف چند ماہ بعد ہی ایسا وقت آئے گا کہ سیّاحتی مقامات ویران اور تاریخی مقامات سنسان ہو جائیں گے، جب کہ آثارِ قدیمہ عبرت کی داستانیں سُنانے کے لیے سیّاحوں کی راہ دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘

پاکستان میں بھی خطرے کی گھنٹیاں

عالمی سیّاحت کا جائزہ لینے سے قبل پاکستان میں سیّاحت پر نظر ڈالی جائے، تو یہاں بھی کورونا نے پُر فضا سیّاحتی مقامات اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 2019ء میں شمالی علاقوں کے حالات اور ذرائع آمدورفت بہتر ہونے کی وجہ سے سیّاحت کے ایک بین الاقوامی ادارے نے پاکستان کو چُھٹیاں گزارنے اور سیّاحت کے لیے دنیا کا پُرکشش ترین مُلک قرار دیا تھا۔ نیز، برطانوی شہزادے ولیم اور اُن کی اہلیہ کے شمالی علاقے کے دورے اور پھر کرتار پور راہ داری نے دنیا کے سامنے پاکستان کا ایک مثبت امیج پیش کیا۔

علاوہ ازیں، شمالی علاقوں میں بودھ مت کی 6ہزار سے زاید یادگاروں نے بھی مشرقِ بعید کے سیّاحوں کو اپنی طرف متوجّہ کیا، تاہم کورونا نے سارے منصوبے خاک میں ملا دیے۔ خوف کی فضا اور سفری پابندیوں نے سیّاحوں کو گھروں تک محدود کر دیا۔ صوبہ خیبر پختون خوا اچھے دنوں میں سیّاحت سے 50لاکھ ڈالرز سالانہ کما رہا تھا اور اس شعبے سے 8ہزار سے زاید لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ 2019ء میں عید کے موقعے پر تقریباً 20لاکھ لوگوں نے شمالی علاقوں کا رُخ کیا تھا۔ پھر جب وزیرِ اعظم، عمران خان نے سیّاحت کے فروغ کے لیے ائیرپورٹ پر ویزے کی سہولت کا اعلان کیا، تو اس سے بھی سیّاحت نے انگڑائی لی۔

دنیا بھر کے 20کوہ پیمائوں نے پاکستان میں واقع بلند پہاڑوں کی کوہ پیمائی کی درخواستیں دیں، لیکن کورونا کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ فضائی مسافر کم ہو جانے سے پاکستان سِول ایوی ایشن کو مارچ میں 18ملین ڈالرز کا نقصان ہوا، جب کہ سیّاحت میں کمی سے خیبر پختون خوا کی آمدنی میں دو کروڑ ڈالرز کی کمی ہوئی۔ مجموعی طور پر اس انڈسٹری سے تقریباً دو لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ پاکستان ہوٹل انڈسٹری کو بھی صرف فروری 2020ء میں 10کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔گو کہ پاکستان میں منصوبہ بندی کے ماہرین نے 2025ء تک سیّاحت سے ایک کھرب روپے آمدنی کی پیش گوئی کی ہے، لیکن یہ ایک ایسا خواب ہے، جو شاید اب کورونا کے خاتمے پر بھی پورا نہ ہونے پائے۔

عالمی سیّاحت کا زوال

2020ءسے پہلے دنیا ایک گلوبل ویلیج تھی۔ صبح کراچی میں ہیں، تو رات برطانیہ اور اگلی صبح امریکا میں ناشتا کیا جا رہا ہے، لیکن جب کورونا کے خوف کے باعث فضائی سفر محدود، بلکہ تقریباً بند ہو گیا، تو عام مسافروں کے علاوہ دنیا بھر میں گھومنے پِھرنے والے بھی اپنے گھروں میں بند ہو کر رہ گئے۔ یوں گلوبل ویلیج کا نعرہ خوف اور ڈر کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کورونا سے قبل سیّاحتی صنعت اپنے عروج پر تھی اور 2018ء میں اس کا عالمی معیشت میں 8.8ٹریلین (کھرب) ڈالرز حصّہ تھا، جو دنیا بھر کی مجموعی قومی پیداوار کا 10.4فی صد بنتا ہے، جب کہ 30کروڑ سے زاید افراد اس شعبے سے وابستہ تھے۔ ملٹی ملین ڈالرز کا یہ شعبہ فضائی سفر آسان ہونے کے سبب دن بدن پھیل رہا تھا۔

دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں، جن کی آمدنی کا بڑا ذریعہ سیّاحت ہی پر تھا اور اب بھی ہے۔ 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق تھائی لینڈ 22فی صد، فلپائن 21فی صد، میکسیکو8 فی صد، اسپین 15 فی صد، اٹلی 13فی صد، تُرکی 11.6فی صد، چائنا 11فی صد، آسٹریلیا 11فی صد،جرمنی 10.7 فی صد، برطانیہ 10.5فی صد ، ارجنٹائن 10.2 فی صد، بھارت 9.4فی صد، سعودی عرب 9فی صد، امریکا 7.8فی صد، جاپان 6.8فی صد، کینیڈا 6.5فی صد، روس 5فی صد اور جنوبی کوریا کی 4.7فی صد آمدنی سیّاحت ہی کی مرہونِ منّت تھی۔ سیّاحت کے زوال کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ متذکرہ ممالک میں کورونا کی تباہ کاریاں بھی زیادہ ہیں۔

اگر سیّاحت سے ہونے والی آمدنی پر نظر ڈالیں، تو یہ بھی حیران کُن ہے۔ مثلاً امریکا کو 2018ء میں سیّاحت سے 214بلین ڈالرز کی آمدنی ہوئی۔ اسپین 81ارب ڈالرز، تھائی لینڈ 63ارب ڈالرز، برطانیہ 52ارب ڈالرز، اٹلی49 ارب ڈالرز، بھارت28 ارب ڈالرز، تُرکی25 ارب ڈالرز اور عرب امارات نے سیّاحت سے 21ارب ڈالرز کمائے۔ بحرالکاہل کے درجنوں جزائر ایسے ہیں، جہاں دنیا بھر سے سیّاح ساحلِ سمندر اور دھوپ کا لُطف اٹھانے جاتے تھے،مگر اب وہاں سیّاحوں کی آمد پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ان جزائر میں مالدیپ، بہاماس، میکائو، بارباڈوس، فجی، آئس لینڈ، ماریشس، مالٹا، جارجیا، جمیکا وغیرہ شامل ہیں ۔

3 ماہ میں 80 ارب ڈالرز کا نقصان

ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کے مطابق’’ کورونا کے باعث بین الاقوامی سیّاحت میں مجموعی طور پر 60سے 80فی صد کمی واقع ہوسکتی ہے۔ رواں سال کے ابتدائی دو، تین ماہ میں سیّاحوں میں 70لاکھ کی کمی نوٹ کی گئی، جس سے 80ارب ڈالرز کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ 2020ء کے پہلے چار ماہ میں بین الاقوامی سیّاحوں میں 22فی صد کمی واقع ہوئی۔اگر حالات ٹھیک ہوئے، تو سب سے پہلے افریقا اور مِڈل ایسٹ میں صُورتِ حال بہتر ہوگی ،جب کہ یورپ اور ایشیا میں ملے جُلے رجحانات دیکھنے کو ملیں گے۔‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ شعبۂ سیّاحت کو سنبھلنے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔‘‘

بے روزگاری کا طوفان

سیّاحت کے ساتھ ایئر لائنز انڈسٹری کو پہنچنے والا نقصان بھی ناقابلِ تلافی ہے کہ ڈیڑھ سو سے زائد مُمالک نے فضائی سفر پر مکمل یا جزوی پابندیاں عاید کر رکھی ہیں، جنہیں اب بتدریج نرم کیا جا رہا ہے۔ کورونا کے ابتدائی چند ماہ میں 97مُمالک نے اپنی فضائی سروس مکمل طور پر بند کی، جب کہ 65ممالک نے جزوی پابندیاں عاید کیں۔ کمرشل فلائٹس میں جنوری اور فروری میں اوسطاً روزانہ ایک لاکھ سے زائد افراد سفر کرتے تھے، اُن کی تعداد مارچ میں 78ہزار اور اپریل میں صرف 30ہزار رہ گئی۔ امریکا، سنگا پور اور کئی یورپی فضائی کمپنیز دیوالیہ ہو چُکی ہیں، کیوں کہ 2019ء کے مقابلے میں اُن کی آمدنی میں 55فی صد کمی واقع ہوئی۔

امریکی کانگریس نے دیوالیہ ہونے والی فضائی کمپنیز کو سہارا دینے کے لیے اربوں ڈالرز کی گرانٹ کی منظوری دی ہے۔ اِس وقت دنیا کا ایک بڑا مسئلہ شعبۂ سیّاحت اور ایئر لائنز سے وابستہ افراد کی بے روزگاری کا بھی ہے۔ کورونا کے سبب پُرتعیش مسافر بردار کروز شپس کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔ ورلڈ ٹریول اینڈ ٹور ازم کاؤنسل کے مطابق، سیّاحت کے شعبے میں 10کروڑ افراد کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے، حالاں کہ کورونا سے قبل شعبۂ سیاحت میں روزگار کا یہ عالم تھا کہ دنیا میں جتنی بھی نئی جابز نکلتیں، اُن میں سے ہر چوتھی نوکری کا تعلق بلواسطہ یا بلاواسطہ شعبۂ سیّاحت ہی سے ہوتا۔ سیّاحت کے زوال پذیر ہونے سے دنیا کی مجموعی پیداوار میں 2.7کھرب ڈالرز کی کمی واقع ہوگی۔

کاؤنسل کے صدر، گلوریا گیویرا کے مطابق’’ مختصر سے عرصے میں اِتنی بڑی منفی تبدیلی ہمارے فہم سے باہر اور ناقابلِ یقین ہے۔‘‘ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک بیان میں سیّاحت کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ’’ سیّاحت کے پلیٹ فارم کو کورونا وائرس کے اثرات پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ شعبہ باہمی اعتماد کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘‘، لیکن یہ محض ایک بیان ہی تھا، اِس سے قبل ورلڈ ٹور ازم آرگنائزیشن خود سیّاحت کے شعبے میں 10کروڑ ملازمتوں کے چلے جانے کا اندیشہ ظاہر کر چُکی ہے۔ آرگنائزیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ’’ اِس وقت 75فی صد ممالک نے فضائی سفر پر کسی نہ کسی قسم کی پابندیاں عاید کر رکھی ہیں، جس سے یورپ خاص طور پر متاثر ہو رہا ہے، کیوں کہ بین الاقوامی سیّاحت کا تقریباً 5فی صد یورپی ممالک سے وابستہ ہے، جب کہ خود یورپی سیّاح امریکا کو ترجیح دیتے ہیں۔ 2019ء کے اواخر میں یورپ سے ہر مہینے 9لاکھ افراد امریکا سیّاحت کے لیے جاتے تھے، اب اس میں واضح طور پر کمی آئی ہے۔‘‘سیّاحت سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ 1950ء کی دہائی سے اب تک، جب بین الاقوامی فضائی سفر آسان اور سیرو سیّاحت کا آغاز ہوا تھا، بین الاقوامی سیّاحت پر اِتنا کٹھن وقت کبھی نہیں آیا اور دِل چسپ بات یہ ہے کہ جس مُلک کے باشندے سیّاحت میں سب سے زیادہ دِل چسپی رکھتے ہیں، وہیں سے ایک ایسی وبا کا آغاز ہوا، جس نے سیروسیّاحت کی انڈسٹری کو تہہ وبالا کر دیا۔‘‘ چینی باشندے سیّاحت پر سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ 2019ء میں 18کروڑ چینی باشندوں نے اپنی سرزمین سے باہر کا سفر کیا، لیکن کورونا کے بعد سب کچھ جمود کا شکار ہو گیا۔ عالمی سیّاحت کا جمود کب ٹوٹے گا اور برف کب پگھلے گی؟ اِس کا انحصار اِس پر ہے کہ مناظرِ فطرت کی رنگینیوں پر چھائے کورونا کے سیاہ بادل کب چَھٹیں گے۔

قدیم رومیوں سے بحرالکاہل کے ساحلوں تک

آج اگر بین الاقوامی ٹریول انڈسٹری کا مالیاتی حجم ٹریلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے، تو اِس کے پیچھے صدیوں کی مسافت کارفرما ہے۔تاریخ میں قدیم ترین سیروتفریح رومیوں سے منسوب ہے، جب وہ پمپیائی جیسے روم کے بڑے شہروں میں تفریح کے لیے جاتے تھے۔ پھر کرسٹوفر کولمبس نے 1492ء میں اسپین سے امریکا کا دو ڈھائی ماہ میں سفر کرکے ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دیے۔ آج اسپین سے امریکا گھنٹوں کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ذرائع آمدورفت میں بہتری کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سیّاحت کا شوق بھی بڑھتا رہا، حتیٰ کہ 19ویں صدی میں ایک انگریز بزنس مین، تھامس کک (1898-1892)نے تاریخ میں پہلی مرتبہ بزنس ٹورز پیکجز کا اعلان کرکے دنیا کی پہلی ٹریول ایجینسی کی بنیاد رکھی۔

ہوٹلنگ، ٹرین اور بحری جہازوں میں ایک ساتھ بکنگ جیسے پیکیجز نے سیّاحت کے شوق کو تیزتر کر دیا۔ سیّاحت کا پودا آج ایک ایسا شجربن چُکا ہے، جس کی شاخیں دنیا کے 200ممالک تک پھیلی ہوئی ہیں۔ بعض لوگ سیّاحت کو جنون کی حد تک پسند کرتے ہیں، جیسا کہ الیکس ایفورڈ نامی لڑکی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے 21سال کی عُمر میں دنیا کے 196ممالک کی سیر کر لی تھی۔ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کے مطابق، یوں تو دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں، جہاں سیروسیّاحت کے دِل دادہ نہ پہنچے ہوں، بحرالکاہل کے ننّھے جزائر سے لے کر الاسکا کی برفانی چوٹیوں تک، آدھی رات کے سورج والے مُمالک سے عرب امارات کے ریگستانوں، ایمزون اور افریقا کے جنگلات اور جنگلی حیات کے پارکس تک، غرض کرّۂ ارض کا کوئی خطّہ انسان کی دست رَس سے محفوظ نہیں۔

سیّاحت کے شوقین …!!

2018ء میں ایک ارب، 40کروڑ سیّاحوں نے اپنے مُلک سے دیگر ممالک کا سفر کیا، جو کہ 2017ءکے مقابلے میں 5.4فی صد سے زیادہ تھا۔ 2018ء میں سب سے زیادہ وِزٹ کیے جانے والے 10ممالک کی درجہ بندی یوں رہی۔(1)فرانس (2) اسپین(3) امریکا (4) چین (5) اٹلی( 6) تُرکی (7) میکسیکو( 8)جرمنی (9) تھائی لینڈ (10) برطانیہ۔2017ء میں جن سیّاحوں نے برّاعظم افریقا کا رُخ کیا، اُن میں مراکش اور مِصر سرِفہرست ہیں۔