دورہ انگلینڈ میں کس کا مفاد پوشیدہ ہے؟

July 15, 2020

پاکستان کر کٹ ٹیم 3 ٹیسٹ اور 3 ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کے لئے کر کٹ کی جنم بھو می انگلینڈ میں موجود ہے، قومی ٹیم کے انگلینڈ میں قیام کو تین ہفتے ہونے کو ہیں، البتہ ابھی معاملہ تربیتی مشقوں اور پریکٹس تک ہی محدود ہے، وجہ سیدھی سی ہے، کوویڈ 19 پینڈمک۔ جس کے دوران آئی سی سی ایونٹس کے انعقاد کا ابھی کوئی فیصلہ نہ ہوا۔

البتہ پی سی بی نے انگلینڈ اینڈ ویلز کر کٹ بورڈ کیساتھ اپنے دیرینہ تعلق کو مضبوط کر نے کے لئے 29 کرکٹرز اور 14 آفیشلز کو خصوصی طیارے کے زریعے دیار غیر روانہ کر نے کی حامی بھر لی۔

اگرچہ کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر خصوصی طیارے میں کئی کر کٹرز نہ جاسکے، البتہ اس جہاز میں چئیرمین پی سی بی احسا ن مانی اور ان کی اہلیہ کو نشست مل گئی۔ یاد رہےکہ پاکستان کر کٹ ٹیم کر کٹ کھیلنے اس انگلش سرزمین پر موجود ہے، جہاں کے کر کٹ بورڈ کو سیزن نہ ہو نے پر 300 ملین پاونڈز کے خسارے کا سامنا تھا، جس انگلینڈ اینڈ ویلز کر کٹ بورڈ کو 61 ملین پاؤنڈ کے امدادی پیکیج کی جانب دیکھنا پڑا تھا۔

جس بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ٹام ہیریسن نے رضا کارانہ طور پر اپنی تنخواہ سے 25 فی صد کٹوتی کرا نے کا فیصلہ کیا، پاکستان سے پہلے ویسٹ انڈیز کی ٹیم 3 ٹیسٹ کی سیریز کے لئے انگلینڈ میں قدم رکھ چکی تھی، البتہ اس دورے سے قبل اس خبر نے تہلکہ مچا دیا کہ ویسٹ انڈین بورڈ نے انگلینڈ کے دورے سے قبل انگلینڈ اینڈ ویلز کر کٹ بورڈ سے 3 ملین ڈالرز کی رقم لی ہے۔

تاہم بعدازاں ویسٹ انڈین بورڈ کے عہدیدار نے وضاحت کی کہ مالی مشکلات اور مسائل کے سبب انگلش بورڈ سے 3 ملین ڈالرز دورے کے عوض نہیں، بطور ادھار لئے گئے ہیں۔

لیکن ایک بات تو یہاں طے تھی کہ ویسٹ انڈیز اور پاکستان ٹیم کا دورہ انگلینڈ انگلش بورڈ کے لئے مالی اعتبار سے اہمیت کا حا مل ہے، جس کے لئے انگلینڈ اینڈ ویلز کر کٹ بورڈ نے خصوصی طیارے کیساتھ بائیو سیکور ماحول کی شرائط کو پورا کیا، جو وقت کی بھی اہم ضرورت تھی۔

البتہ سیریز شروع ہونے سے ایک ماہ قبل انگلینڈ پہنچنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کے حوالے سے اگر یہ کہا جا ئے کہ قید تنہائی میں ہیں، تو غلط نہ ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ دورہ انگلینڈ جہاں محض ایک درجن مقامی صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر نے کی اجازت ہے، جہاں تماشائیوں کو اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت نہیں ہے، مطلب کر کٹ ہو گی، البتہ بند دروازوں میں کہا جا ئے تو غلط نہ ہوگا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کر کٹ کی بحالی اور انگلش بورڈ کی مدد اصل مقصد تھا تو کچھ چیزوں کو مناسب انداز میں لے کر چلا جاسکتا تھا، جس میں فی الحال تو کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی، ماضی میں اگر پی سی بی زمبابوے اور ورلڈ الیون کو پاکستان میں کر کٹ کی بحالی کے لئے مدعو کر نے پر ڈالرز کی برسات کر سکتا تھا، تو اس بار پی سی بی نے انگلینڈ اینڈ ویلز کر کٹ بورڈ کو آئندہ سال پاکستان کا دورہ کرنے کی یقین دہانی کرانے کو اس دورے کے جواب میں کیوں نہ کر نے کو کہی؟

اس بارے میں چیف ایگزیکٹو وسیم خان جو خود انگلینڈ سے آئے ہیں، انھوں نے برملا کہا کہ ایسی باتوں کا یہ وقت نہیں ہے۔ اطلاعات ہیں کہ دورے کے 150 ڈالر ڈیلی الاؤنس میں 88 ڈالر کا حصہ پی سی بی نے لفا فے میں رکھ کر پورے دورے کے حساب سے کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں لاہور ہی میں تھما دیا تھا۔

البتہ انگلینڈ میں کھلاڑی 62 ڈالر سے محروم رہے۔ انھیں بتایا گیا کہ بائیو سیکور ماحول میں چونکہ کھلاڑی ہوٹل سے باہر قدم نہیں رکھ سکیں گے۔ لہٰذا پورے دورے کے دروان انگلینڈ اینڈ ویلز کر کٹ بورڈ ڈنر دے گا، جس کے باعث کھلاڑیوں کو یہ رقم نہیں مل پائے گی۔

اب یہاں سوال یہ ہے کہ دورے پر جہاں انگلینڈ اینڈ ویلز کر کٹ بورڈ صرف ایک لاکھ پاؤنڈ سینیٹائزر پر خرچ کر رہا ہے، اس نے ڈنر کا بھی حساب رکھ لیا، پیسے کاٹ لئے، کتنے افسوس کی بات ہے، دورے پر جا نے والے 29 کھلاڑیوں میں سارے تو کھیل نہیں پائیں گے۔

ایسے میں ہوٹل کے کمروں میں قید ہمارے کھلاڑیوں کے لئے ڈیلی الاؤنس کی رقم بھی پوری نہ ملنا، ایسے دورے میں جہاں کوئی اضافی بونس ملنے کی بھی امید نہیں، کیا انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے۔

یاد رہے کہ جب ہماری ٹیم ووسٹر پہنچی تو انھیں کہا گیا کہ وہ گراؤنڈ کا واش روم استعمال کر نے کے مجاز نہیں ہونگے، اب ڈربی میں جس جگہ ہماری ٹیم کا قیام ہے، وہاں نہ تو سوئمنگ پول کی سہولت ہے، نہ ہی جم رہائش کی جگہ پر موجود ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کر کٹ ٹیم کیساتھ اس طرح کا سلوک؟ ضرور اس وقت مناسب لگتا جب یہ دورہ ہماری مجبور ی ہوتا، لیکن افسوس ہم دوسروں کی مدد ایسے کر رہے ہیں، جیسے ہم مجبور ہوں، کوویڈ 19 کی صورتحال میں مان لیتے ہیں، سفری سہولیات کے آگے بڑے معاملات ہیں، لیکن یہ کیسے مان لیں، بھاری تنخواہ پر انگلینڈ سے آئے ہوئے چیف ایگزیکٹو وسیم خان انگلینڈ کے ماحول اور حالات نہیں جا نتے، کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ ان معاملات کو براہ راست خود دیکھتے۔

ایسے ماحول اور قیام کے انتظامات کو قومی ٹیم کے لئے یقینی بناتے ،جہاں سوئمنگ اور جم کی سہولیات میسر ہوتیں، نا کہ یہ عذر پیش کر دیا جاتا کہ رہائش کے ساتھ منسلک گراؤنڈ میں یہ ساری سہولیات موجود ہیں۔

خیر یہ سوال وسیم خان سے تو بنتا ہی نہیں، جنھوں نے مارچ 2020ء میں پاکستان سپر لیگ کی پریس کا نفرنس میں کورونا علامت ظاہر ہو نے والے انگلش کر کٹر کا نام صیغہ راز میں رکھا۔ حالانکہ سب کی زبان پر الیکس ہیلز کا نام تھا، لیکن یہی وسیم خان تھے، جنھوں نے کوویڈ 19 ٹیسٹ مثبت آنے والے پاکستان کر کٹرز کے ناموں کا پریس کانفرنس میں نام لیتے ہوئے تین مہینے قبل اپنی ہی بات کی نفی کردی۔

پھر کوویڈ 19 ٹیسٹ مثبت آنے والے کر کٹرز کو گھر بھیج دیا گیا، اور انھیں دوسرے ٹیسٹ کے لئے گھروں سے نکل کر اسپتال جا نے کو کہا گیا، کیا پیشہ ورانہ بورڈ اس انداز میں کام کرتے ہیں؟

خصوصی طیارے میں انگلینڈ ایک گروپ کو بھیج کر کہاں تھے وسیم خان، جب کوویڈ 19 منفی آنے والے کر کٹرز نے انگلینڈ کا کمرشل فلائٹ کیساتھ سفر کیا، چلیں دوران سفر انھیں دوسری فلائٹ کے لئے ائیر پورٹ پر دیگر مسافروں کیساتھ چلنا پڑا، لیکن انگلینڈ پہنچ کر انھیں خصوصی کاؤنٹر پر امیگریشن کے مرحلے سے کیوں گزارا نہیں گیا؟

دو گھنٹے لائن میں لگنے والے کر کٹرز کو بائیو سیکور ماحول ایسے مہیا کیا جاتا ہے؟ یہ تلخ اور چیخ چیخ کر سوال کرتی حقیقتیں ہیں، جو سیدھا اور آسان سوال زبان پر لا رہی ہیں، دورہ انگلینڈ میں کس کا مفاد پوشیدہ ہے؟