قیدیوں، سمدھیوں کے بعد پردیسیوں کی حکومت

July 23, 2020

آپ اور ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ بڑے بڑے ارب پتی، سیٹھ، کاروباری امریکہ، یورپ، سنگاپور میں اپنے آرام دہ شاندار اپارٹمنٹ، بنگلے چھوڑ کر ہماری خدمت کے لیے اسلام آباد پہنچے ہوئے ہیں۔ پہلے جنرلوں کی حکومت تھی پھر قیدیوں اور مشقتیوں کی حکومت دیکھی۔ بعد ازاں سمدھیوں اور بھائیوں کا راج ہمارا مقدر رہا۔ اب پردیسیوں کی حکومت میں شیر بکری ایک گھاٹ میں پانی پی رہے ہیں۔ اب فخر سے کہا جا سکتا ہے کہ ہم سمندر پار پاکستانیوں کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ یہ سب کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب ہماری کابینہ انٹرنیشنل ہو گئی ہے۔

گزشتہ تحریر میں ذات پات، قبیلے، علاقائیت پر میں نے جس درد کا اظہار کیا میرے دل کو سکون ملا کہ آپ نے اسے دل سے پسند کیا۔ اور سب نے دُعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک قوم بنا دے۔ ہم پاکستانی ہونے پر فخر کر سکیں اور ہمارے سب مسائل اس حوالے سے حل ہو سکیں۔ ہم پارلیمانی طرز حکومت کو قبول کر چکے ہیں۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ ہماری اشرافیہ، جاگیرداروں، سرداروں اور آج کی اصطلاح میں Electableکو یہ نظام اس لیے پسند ہے کہ اس میں ان کی اجارہ داری رہتی ہے لیکن عوام کو نظام کیوں اچھا لگتا ہے، یہ کبھی میرے علم میں نہیں آسکا۔ پارلیمنٹ غریب مڈل کلاس کے لیے ممنوعہ علاقہ رہتی ہے۔ ہم ملامتیوں کا یہ گلہ شکوہ اپنی جگہ لیکن پارلیمانی نظام کے جو آداب، اصول اور قواعد ہیں وہ تو ہمارے پورے نہیں کیے جاتے اس لیے نظام کے ثمرات عام ووٹرز تک نہیں پہنچتے۔پارلیمانی نظام میں میعاد کی تکمیل غیریقینی ہوتی ہے۔ کسی وقت بھی وسط مدتی انتخابات ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اس طرز حکومت میں ایک متبادل حکومت ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ آپ اسے متبادل کہہ لیں یا منتظر انتظامیہ۔ ہر حکمران کا ایک فطری متبادل ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ نعم البدل ہو۔ متبادل اور نعم البدل میں وہی فرق ہے جو انتخاب اور حسن انتخاب میں ہے۔ ہم متبادل کی آرزو میں رہتے ہیں۔ متبادل کی تلاش بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب یہ تحقیق طلب ہے کہ کورونا نے عالمی قوتوں کو اور بالخصوص امریکہ کو جس طرح بےبس کردیا ہے اب واشنگٹن عالمی دارُالحکومت رہا ہے یا نہیں۔ اقتصادی طور پر تو اب بھی اسے یہ درجہ حاصل ہوگا کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹر وہیں ہیں لیکن سیاسی طور پر اب عالمی سربراہی وائٹ ہائوس کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے اور اس کا سہرا تاریخی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے سر رہے گا۔ ان کے حریف جوبائیڈن کے امکانات زیادہ بتائے جارہے ہیں اور ہم مسلمان جوبائیڈن کے بعض انتخابی وعدوں پر مرے بھی جارہے ہیں۔ مجھے جوبائیڈن کے بارے میں ٹائم میگزین کا یہ جملہ کبھی نہیں بھولتا۔ یہ اس وقت کہا گیا تھا جب وہ امریکہ کے نائب صدر تھے۔ تاریخی جملہ یہ تھا کہ ’’بائیڈن کی زبان دماغ سے پہلے چل پڑتی ہے‘‘۔ ہمارے ہاں تو اکثر حکمرانوں کی زبان ہی چلتی ہے۔ دماغ کو چلنے کا موقع وہ کم ہی دیتے ہیں۔ آج کل ہمارا سیٹھ چین ہے۔کیا وہ متبادل ڈھونڈنے کے جھنجھٹ میں پڑتا ہے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ وہ جو آجائے اسے قبول کر لیتا ہے۔

کیا پاکستانی عوام متبادل کی تلاش میں ہیں۔ کیا متبادل سیاسی قوتیں ایسی کوئی تیاری کر رہی ہیں۔ اے پی سی کا شور مچ رہا ہے۔ ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ پارلیمانی نظام میں اصول یہ ہوتا ہے کہ منظّم سیاسی پارٹیاں ایک متبادل کابینہ تیار رکھتی ہیں۔ یہ پارٹیاں اپنے اندر ایک متبادل جمہوری ڈھانچہ رکھتی ہیں۔ باقاعدگی سے ہر سال ضلعی کنونشن منعقد کرتی ہیں جہاں صوبائی کنونشن کے لیے مندوب منتخب کیے جاتے ہیں۔ صوبائی کنونشنوں میں قومی کنونشن کے لیے مندوب چنے جاتے ہیں۔ قومی کنونشن ملکی صورتحال پر غور کرکے پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ اسی کنونشن میں متبادل کابینہ Shadow Cabinetمنتخب کی جاتی ہے۔ ہر وزارت کے لیے ایک متبادل وزیر۔ یہ کابینہ متعلقہ محکموں کی روزانہ کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے۔ قانونی طور پر سارے محکمے اس متبادل کابینہ کو اطلاعات فراہم کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ یوں اس متبادل کابینہ کے ساتھ متعلقہ پارٹی بھی کسی وقت الیکشن کے لیے بھی تیار ہوتی ہے۔ اور حکومت سنبھالنے کے لیے بھی۔ سارے حقائق۔ مسائل اور وسائل اس کے سامنے ہوتے ہیں۔ اس لیے حلف اٹھاتے ہی وہ اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔

منتخب حکومت کی میعاد سب جگہ ہی چار سے پانچ سال ہوتی ہے۔ سب کو پتا ہوتا ہے کہ پہلے سال کیا کرنا ہے دوسرے سال کیا۔ ہمارے ہاں شیڈو کابینہ کی کوئی روایت نہیں ہے کیونکہ پارٹی سربراہ موروثی ہے۔ بادشاہ ہے۔ یا وہ کسی کا منظور نظر ہوتا ہے۔ بڑی سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ وزیر مشیر فراہم کرے۔ شیڈو کابینہ نہ ہونے کے باعث غیرمنتخب مشیروں کی ایک فوج آجاتی ہے۔ یہ متبادل حکومت واشنگٹن، لندن، برسلز اور سنگاپور میں پرورش پارہی ہوتی ہے۔ ٹھوس فیصلے غیرمنتخب کرتے ہیں۔ نام پارلیمانی لیکن عملاً صدارتی نظام ہوتا ہے۔ اب موجودہ صورتحال دیکھئے۔ متبادل پاکستان مسلم لیگ(ن) ہے۔ اس میں کیا متبادل کابینہ کام کررہی ہے۔ کہیں روزانہ حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حکومت سنبھالنے کی تیاری ہورہی ہے۔ سپریم لیڈر لندن میں ہیں۔ پارٹی کنونشن آج تک نہیں ہوا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے بھی کوئی ضلعی، صوبائی قومی کنونشن نہیں ہوئے۔ پارٹی کے بانی، تجربہ کار کارکن لیڈر، سب مقتدی ہو گئے ہیں۔ امامت موروثی ہے۔ حکومت کچھ کرتی ہے، بیان دیتی ہے تو دونوں پارٹیاں جوابی بیانات داغ دیتی ہیں۔ دونوں کی طرف سے کوئی ایسی پالیسی یا تحریک نہیں چلتی ہے جس سے حکومت بےبس دکھائی دیتی ہو۔ قومی سیاسی پارٹیاں جب تک اپنے اندر جمہوریت نہیں لائیں گی تو جمہوریت کو ’’ڈے کیئر‘‘ والے ہی پالتے رہیں گے۔