جواب حاضر ہے

July 27, 2020

ہمارے قابلِ احترام دوست اور ہمارے مرشد و مربی مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے صاحبزادے سید حسین فاروق مودودی نے اپنے مضمون ’’منور حسن کچھ حقائق کچھ یادیں‘‘ میں منور حسن مرحوم کے بارے میں محض چند سطور لکھنے کے بعد جماعت اسلامی کے نظام انتخابات کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اسی سلسلہ میں چند وضاحتیں پیش خدمت ہیں۔

محترم حسین فاروق سے زیادہ کون اس امر سے آگاہ ہے کہ بولے اور لکھے گئے ایک ایک لفظ کی جواب دہی ہے۔ بالخصوص بدگمانی اور الزام تراشی کو قرآن پاک نے گناہ قرار دیا ہے۔ حسین فاروق مودودی نے سید منور حسن کے دوبارہ امیر منتخب نہ ہونے کو بیرونی دبائو کا نتیجہ قرار دیا۔ اس سلسلے میں 5ہزار بیلٹ پیپرز کے استعمال نہ ہونے کو ایسے بیان کیا جیسے کسی نے کسی حکم شاہی پر یہ بیلٹ پیپر گم کردیے اور اس طرح منور حسن صاحب کو دوبارہ امیر بننے نہ دیا۔ جماعت اسلامی کے طریق انتخاب سے مکمل آگاہی کے باوجود حسین فاروق نے جان بوجھ کر یہ ابہام ڈالا،یہ ایسا کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں تھا۔ ہر انتخاب میں ایک تعداد اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کر پاتی اور اس کی وجہ بعض ارکان جماعت کی بیرون ملک یا بیرون ضلع منتقلی، بیماری، معذوری، استثنیٰ، دور دراز علاقے میں رہائش ہوتی ہے۔ اسی طرح خواتین ووٹر کی بھی ایک تعداد ہے ہر انتخاب میں 10سے 15فیصد لوگ ووٹ استعمال نہیں کر پاتے ملکی انتخابات کی شرح ووٹ کے مقابلے میں جماعت اسلامی میں ووٹ استعمال کرنے والوں کی شرح 85فیصدسے زیادہ ہے جو بہت اچھی ہے۔

اب ارکان جماعت کی تعداد 40ہزار کے قریب ہے۔ 1982میں 4326ارکان میں 553ووٹ استعمال نہ کرپائے۔ 1999میں 13256ارکان میں سے177۔ 2004میں 17188میں سے 2596 اور اب 2019میں 8299ووٹ استعمال نہ کر سکے۔ گویا کہ یہ شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کی کوئی خارجی وجہ نہیں ہر انتخاب کے بعد ناظم انتخاب یا امیر جماعت ارکان جماعت کو توجہ دلاتا ہے۔ منور حسن نے بھی یہ توجہ دلائی تھی کسی سازش کی نشاندہی نہیں کی تھی۔ ووٹ استعمال نہ کرنے والوں کے نوٹس کی۔ ناظم انتخاب راشد نسیم کی سربراہی میں کمیٹی بنی اور نوٹس لیا گیا حسین فاروق کے مطابق عبدالحفیظ احمد کو 2014میں ان کے اس غیرمعمولی کارنامہ پر بطور انعام اسلامک پبلی کیشنز کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ حسین فاروق اور قارئین کے علم کے لئے یہ تین سال پہلے یعنی 2011سے اسلامک پبلی کیشنز کے ڈائریکٹر تھے۔ اور یہ انعام نہیں عبدالحفیظ احمد کا ایثار تھا کہ انہوں نے اپنے ذاتی اشاعتی ادارے البدر پبلی کیشنز کے کاروبار کو اللہ کے حوالہ کرکے امیر جماعت کے حکم پر یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ حسین فاروق کے مطابق ذہنی دبائو کی وجہ سے وہ ایک ہفتہ بعد ہی انتقال کر گئے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ انتخاب مارچ 2014میں ہوا اور ان کا انتقال جون 2015میں ہوا یعنی ایک سال 2ماہ بعد، دل کا عارضہ ان کا قدیم تھا، آپریشن ہو چکا تھا۔ حسین فاروق نے یہ انکشاف کیا کہ عبدالحفیظ نے اپنے دکھ کا اظہار عبدالوحید سلمانی مرحوم سے کیا۔ تینوں افراد مرحوم ہیں۔ اب ان سے تصدیق حسین فاروق ہی کر سکتے ہیں۔ عبدالوحید سلمانی تو جماعت میں بھی نہ تھے۔ اب حسین فاروق کی یہ اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ یہ بیرونی دبائو کس نے کس پر ڈالا ہے؟

یہ سید مودودی کی اس جماعت کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے جس نے ایوبی آمریت کے مقابلے میں مادر ملت کا ساتھ دیا۔ گولیاں کھائیں پابندیاں قبول کیں۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن ہر سول و ملٹری آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بنگلہ دیش میں پھانسی کو چوما۔ ضیاء الحق کی فوجی حکومت میں طلبہ یونینز اور سیاسی یونین پر پابندیاں کراچی بلدیہ پر شب خون، جماعت کے مقابلے کے لئے ایم کیو ایم کو قائم کرنے جیسے اقدامات برداشت کئے لیکن کوئی دبائو کسی صورت قبول نہ کیا۔ الحمدللہ ابھی کسی میں اس قدر جرات نہیں کہ وہ جماعت اسلامی کو دبا سکے۔ اسی طرح واضح رہے کہ جماعت اسلامی میں نائب امیر کھڈے لائن نہیں ہمارے نہایت قابلِ احترام رہنما پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر غفور احمد، چوہدری رحمت الٰہی، مولانا جان محمد عباسی، حافظ محمد ادریس نائب امیر رہے ہیں۔

آخرت میں جواب دہی اور لفظ کی حرمت کا خیال نہ ہوتو غلط فہمی ڈالنا بہت آسان ہے۔ اور یہی کام حسین فاروق نے کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ فاروق لغاری نے دو قیمتی پلاٹ دیے۔ جو لیاقت بلوچ اور ان کے دوستوں نے لے لئے، کون سے پلاٹ؟ کب دیے؟ کوئی تفصیل نہیں۔

صدر فاروق لغاری دی پنجاب اسکول میں بطور مہمان خصوصی شاید 1995میں آئے جب کہ پنجاب اسکول کا یہ پلاٹ محکمہ ہائوسنگ سے 1988میں قانونی طریقے مکمل کرکے اور کسی رعایت کے بغیر مقررہ قیمت پر مکہ فائونڈیشن کے نام سے لئے گئے۔ جس کے چیئرمین لیاقت بلوچ نہیں ڈاکٹر غلام اکبر خان نیازی تھے۔ میں ازخود یہ بات تحریر کررہا ہوں اس موقع پر صدر فاروق لغاری نے اسکول کے لئے 50لاکھ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا اور یہ ایسی کوئی سیاسی رعایت نہیں تھی۔ ہر مہمان خصوصی یہ کرتا ہے۔ اس رقم سے اسکول کی کمپیوٹر لیبارٹریز قائم کی گئیں۔

حسین فاروق مودودی کے بارےمیں میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ اپنے والد گرامی کی بنائی ہوئی جماعت اسلامی میں شامل نہ ہوئے۔ اس وقت بھی نہیں کہ جب سید مودودی ہی جماعت کے امیر تھے۔ اب وہ اگر اس جماعت کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم بےبنیاد الزامات اور بےسروپا شکوک و شبہات سے اسے نقصان تو نہ پہنچائیں۔ میں ان سے اتنا ہی عرض کروں گا۔؎

سبب کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے