بلوائیوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے گھر پر قیامت ڈھادی

August 09, 2020

قیامِ پاکستان کے لیے برّصغیر کے مسلمانوں نے جو قربانیاں دیں، وہ ہماری ملّی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔ ایک نئے وطن کے لیے ہجرت کے دَوران مَردوں، عورتوں اور بچّوں نے اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کیا۔ یوں تو ہجرت کرنے والے ہر اِک خاندان کا سفر جاں گسل جدوجہد اور اپنے پیاروں کی قربانی کا مظہر ہے، لیکن برّصغیر کے معروف ادیب، شاعر اور ماہرِ تعلیم، پروفیسر مشکور حسین یاد (مرحوم) کے اہلِ خانہ نے آزادی کے اِس خونچکاں سفر میں ایسے نئے عنوان مرتّب کیے، جو 73برس بعد بھی ہمیں مِن حیث القوم یہ یاد دِلاتے ہیں کہ حصولِ پاکستان ہرگز کوئی آسان امر نہ تھا۔

قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد اور قربانیوں پر بے شمار کُتب لکھی گئی ہیں، جن میں پروفیسر مشکور حسین یاد کی کتاب ’’آزادی کے چراغ‘‘ کو اِس لیے زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ اس میں تحریکِ آزادی کا ایک ایسا باب موجود ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں خون کے کتنے سمندر پار کیے گئے۔ آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا یہ رقّت آمیز احوال، اُن سے ملاقاتوں اور اُن کی کتاب میں بیان کردہ واقعات پر مشتمل ہے۔

مشکور حسین یاد 1925ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع حصار کے شہر، دبوالی میں پیدا ہوئے۔ والد پولیس میں ملازم تھے۔1943ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ جون 1947ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ ضلع حصار کے ایک اسکول میں بطور مدرّس خدمات انجام دے رہے تھے۔ جون، جولائی میں حالات خراب ہونے پر والدین کے پاس آ گئے، لیکن پھر اُن کے اصرار کے باوجود منڈی ڈبوالی چلے گئے، جہاں اُن کا اسکول تھا۔ یہ 20؍ اگست کا ذکر ہے، جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہو چُکا تھا اور مسلمان اپنی بستیوں میں بلوائیوں کا نشانہ بن رہے تھے یا پھر نئے وطن کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ مشکور حسین فسادات کے اِن ابتدائی دنوں کے بارے میں لکھتے ہیں ’’منڈی ڈبوالی، ضلع حصار میں ایک مسلمان کو لاری میں قتل کر دیا گیا۔

ہم والدہ کے ماموں، سیّد عنایت حسین کے گھر مقیم تھے، جو پولیس چوکی کے انچارج تھے۔ ہر مذہب اور ملّت کے لوگ اُن کا احترام کیا کرتے تھے۔ اِس قتل کی واردات کے بعد مسلمانوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔ حملہ ہوا تو ہم لوگ ایک گھر میں جمع ہو گئے، جہاں مسلمان پولیس اہل کاروں کے دو تین گھرانے بھی آگئے۔ ہم مکان کی چھت پر کھڑے تھے اور چاروں طرف سے لرزہ خیز چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔ جیسے ہی کوئی بچّہ یا شخص ہمارے گھر کی طرف پناہ لینے کے لیے بڑھتا، ظالم اُسے برچھیوں سے ہلاک کر دیتے۔ وہ چھوٹے چھوٹے بچّوں کو نیزوں میں پرو کر ناچنے لگتے۔مَیں 22سال کا نوجوان تھا، اِس لیے خون جوش مارتا، مگر چُپ رہنے کے سوا اور کیا کر سکتا تھا۔ جب وہاں سے مسلمانوں کا صفایا ہو چُکا، تو ہندو پولیس اہل کار ہمارے گھر آئے۔

سیّد عنایت حسین اور دوسرے دو پولیس والوں سے مخاطب ہو کر کہا’’ آپ صرف اپنے آدمی اِس گھرسے نکال لیں۔ ہم آپ کو محفوظ مقام تک پہنچا دیتے ہیں، لیکن کوئی اور ساتھ نہ نکلے۔‘‘یہ منظر کس قدر تکلیف دہ تھا، جب ہم اُس گھر سے نکل رہے تھے اور چھوٹے چھوٹے بچّے، گھبرائی عورتیں اور مَرد ہمیں حسرت سے الوداع کہہ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جیسے ہی ہم وہاں سے نکلیں گے، ظالم ہندو گھر میں گھس کر اُن کا خاتمہ کر دیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ہم گھر سے نکلے ہی تھے کہ قاتلوں کی منتظر ٹولی اُن پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑی۔ معصوم بچّوں اور عورتوں کی چیخیں دُور تک ہمارا پیچھا کرتی رہیں‘‘۔ مشکور حسین کے بقول’’ دو دن ڈبوالی تھانے میں پڑے رہے۔ 27؍ اگست 1947ء کی شام ایک پولیس افسر کی مدد سے موٹر کے ذریعے حصار پہنچے۔ والدہ مجھے صحیح سلامت دیکھ کر آب دیدہ ہوگئیں۔

میری بیوی، خدیجہ نے بھی اپنی بچّی کے ساتھ مُسکراہٹ سے میرا خیرمقدم کیا۔ ہم نے حصار ریلوے اسٹیشن کے پاس محلّہ، جوتی پورہ میں ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے رکھا تھا۔ ایک دو گھروں کو چھوڑ کر باقی تمام آبادی ہندوئوں کی تھی۔ 15، 20عزیز تو میرے ساتھ ڈبوالی سے آئے تھے اور اگلے روز دوپہر کو میری خالہ کا گھرانا بھی آ گیا۔ یہ 6افراد تھے۔ خالہ، خالو اور اُن کا ایک بیٹا۔ ایک بیٹی، خالہ کی بھتیجی اور ایک اُن کی ملازمہ۔ میرے خالو، سیّد فقیر حسین پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔ اُنہیں تھانے سے پولیس لائن بلوا لیا گیا تھا۔ یوں ہمارے چھوٹے سے گھر میں 30،35افراد جمع ہو گئے تھے۔ 29؍ اگست کی صبح ہی سے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ ہمارے قریب کے ایک دو مسلم گھرانے شہر جا چُکے تھے۔

مشکور حسین یاد

اِسی دَوران حصار کے مشہور بیرسٹر، حلال الدّین قریشی پر فائرنگ ہوئی ، مگر وہ بال بال بچ گئے، جس پر علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گھر میں پانی ختم ہو چُکا تھا۔ میرا حقیقی بھائی، اظفر حسین اور خالہ زاد ظہیر جب مکان کے پچھواڑے کنویں سے پانی لینے لگے، تو اُنہیں فائرنگ کر کے زخمی کر دیا گیا۔ اسی دَوران برابر والے دو منزلہ مکان سے بھی فائرنگ ہونے لگی۔بلوائی ہمارے گھروں کی چَھتوں کو کھود کر آگ لگا رہے تھے۔ برآمدے کی چھت کو کھودا جانے لگا، تو ظہیر یکایک اُٹھ کر صحن سے باہر آ گیا۔ اُس کا صحن میں آنا تھا کہ ایک گولی اس کے چوڑے چکلے سینے میں پیوست ہو گئی۔ نفیس بانو چیختی ہوئی باہر نکلی اور بھائی کا سَر اپنے زانو پر رکھ لیا۔ ظہیر بہن سے کہہ رہا تھا ’’نفیس! تمہارا کیا بنے گا؟‘‘ نفیس بانو نے نہایت اطمینان سے جواب دیا’’ بھیّا! آپ اطمینان سے اللہ کے حضور جائیں۔

اِس سے قبل کہ کوئی میری طرف اپنے ناپاک ہاتھ بڑھائے، میں خود کو ختم کرلوں گی۔‘‘ بہن کے یہ الفاظ سُن کر ظہیر نے صرف’’ اچھا‘‘ کہا اور پھر ہمیشہ کی نیند سو گیا۔خالو، صغیر حسین برآمدے میں میرے پاس چُپ چاپ کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ پھر اچانک اُٹھے، جیسے اُنہوں نے کوئی فیصلہ کر لیا ہو۔ حُسنیٰ بھی اُن کے پاس بُت بنی کھڑی تھی۔ حُسنیٰ کی شادی ظہیر سے چند ہی روز بعد ہونے والی تھی۔ خالو، حسنی کو گلے سے لگا کر بولے ’’میری بیٹی! میری حُسنیٰ! میرے گھر کی رونق! چلو ظہیر کے پاس۔ مَیں ایک بار تمہیں دُلہن بنا لوں۔‘‘ حُسنیٰ خاموشی سے ظہیر کے پاس آئی، تو خالو نے اُس پر پستول سے فائر کر دیا۔ گولی اُس کی دائیں کنپٹی پر لگی۔ پھر خالو مجھ سے کہنے لگے’’ دیکھو مشکور! حُسنیٰ بیٹی کے سَر پر کیسے سُرخ پھولوں کا سہرا بندھا ہے۔

لو بھئی! مَیں ایک بڑے فرض سے سبک دوش ہو گیا۔‘‘مشکور حسین یاد کے مطابق، بعدازاں اُن کے خالو نے نفیس بانو کو بھی ہندوئوں کے وحشت ناک عزائم سے بچانے کے لیے گولیاں ماریں، لیکن ہر بار نشانہ خطا گیا۔ اِسی دَوران بلوائیوں نے اسلحہ دینے کی شرط پر چھوڑنے کا وعدہ کیا۔ مشکور کا چھوٹا بھائی، اظفر جب بندوق اور پستول لے کر باہر گیا، تو بلوائیوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اُسے گولی مار دی۔ والدہ ’’ظالموں نے میرا بیٹا مار دیا‘‘ کہتے ہوئے باہر کی طرف دوڑ پڑیں۔مشکور لکھتے ہیں’’ جب مَیں والدہ کے پیچھے جانے لگا، تو میری بیوی خدیجہ بولی’’فرمایئے! میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ مَیں نے جواب دیا’’ تم بھی باہر چلو۔‘‘ اُس وقت میری معصوم بچّی مسرور بانو اُس کی گود میں تھی۔ مَیں ظہیر کی لاش کے قریب آیا اور دروازے سے باہر دیکھا۔ بلوائی نیزے اور برچھیاں لیے ہمارے گھر سے نکلنے والوں پر حملہ کر رہے تھے۔

مَیں اپنی دانست میں عقل مندی سے کام لیتے ہوئے ظہیر کی لاش کے قریب لیٹ گیا۔ مجھ پر فائر کیا گیا، لیکن محفوظ رہا۔ مَیں زمین پر ظہیر اور نفیس بانو کے درمیان پڑا تھا اور سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ خالہ ابھی تک پکارے جا رہی تھیں ’’ایک گولی مجھے بھی مار دو‘‘۔ اِتنے میں مجھے محسوس ہوا کہ کوئی ٹھنڈی چیز ہم پر پھینکی جا رہی ہے، جس کے چند لمحوں بعد ہمارے جسموں میں آگ لگ گئی۔ خالو ظہیر کے بلند نعرۂ تکبیر نے مجھے چونکا دیا۔ وہ ہر گولی پر’’ اللہ اکبر‘‘ کہہ رہے تھے‘‘۔

گھر سے باہر نکلتے وقت مشکور حسین یاد کی بچّی مسرور، اُن کی بیوی کی گود میں تھی۔ وہ لکھتے ہیں’’ میری بیٹی کے بھورے بھورے بال پریشان تھے۔ چلتے وقت اُس نے مجھے ایسی نگاہ سے دیکھا، جس میں ہزار معنی پوشیدہ تھے۔ جیسے وہ مجھ سے کہہ رہی ہو’’لیجیے بابا جان! ہم تو چلے، آپ کو یہ زندگی مبارک ہو‘‘۔ خدیجہ نے چلتے وقت نہ صرف اپنے لیے اجازت چاہی، بلکہ مسرور کے بارے میں بھی پوچھا تھا کہ’’ اس امانت کو آپ اپنے پاس رکھیں گے یا مَیں گود میں سنبھالے رہوں۔‘‘ غالباً مَیں نے نہایت غیر ذمّے داری کا ثبوت دیتے ہوئے اور اپنی جان کی فکر کرتے ہوئے خدیجہ کو یہی جواب دیا کہ ’’مسرور کو تم ہی اپنے پاس رکھو‘‘۔ اس وفا شعار نے سَرِ تسلیمِ خم کیا اور قدم آگے بڑھا دیئے۔

بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہندوئوں نے خدیجہ پر حملہ کیا، تو معصوم بچّی کو بچانے کی غرض سے میری والدہ نے اُسے اپنی گود میں لے لیا اور جب امّی پر حملہ ہوا، تو مسرور اپنی ماں کی گود میں آ گئی۔ دونوں نے بچّی کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان کا خاتمہ کر لیا۔

جب حملہ آور چلے گئے اور آگ بھی قریباً بجھ گئی،تو مَیں نے مسرور کی آواز سُنی، وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ماں اور دادی کو بلا رہی تھی۔ مَیں اس کے قریب جانے کا موقع تلاش کر رہا تھا کہ ایک ہندو سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا’’ ارے تُو ابھی زندہ ہے !!‘‘اس فقرے کے ختم ہوتے ہی مسرور کی چیخ سُنائی دی اور پھر مجھے کچھ پتا نہ چل سکا کہ کیا ہوا؟ صبح کو جب مَیں لاشوں سے نکل کر بھاگا، تو دیکھا کہ مسرور اپنی ماں اور دادی کی لاشوں کے درمیان پڑی تھی۔ میں نے چلتے وقت اپنی ڈیڑھ سالہ لاڈلی کو دیکھا، تو یقین کیجیے، اس کے چہرے پر ایک خوب صورت مُسکراہٹ کھیل رہی تھی، ہلکی ہلکی ہوا میں اُس کے بال اُڑ رہے تھے۔

ایک بزرگ نے بعد میں بتایا کہ جب ہمارے گھر کی لاشیں ایک ٹرک میں لاد کر مُردہ خانے لائی گئیں، تو وہ اُس وقت وہاں موجود تھے۔ جب میری ماں کی لاش اُتاری گئی، تو اس کے سینے پر مسرور کی لاش بھی رکھی ہوئی تھی۔ واضح رہے، ان لاشوں کو کفن وغیرہ نہیں دیا گیا۔ ہندو پولیس نے انہیں ایک گڑھے میں دفن کر دیا۔ ایک اور اتفاق یہ ہوا کہ میری شادی بمبئی میں ہوئی تھی، لہٰذا ہم آٹھ دس عزیزوں ہی کو بارات میں لے جا سکے تھے، خدیجہ کی لاش کے آس پاس بھی اُنہی آٹھ دس عزیزوں کی لاشیں پڑی تھیں، جو میری مختصر بارات میں شامل تھے۔

کبھی ذہن میں آتا کہ خدیجہ زندہ ہے، کیوں کہ مَیں نے اُس کی لاش تو نہیں دیکھی۔ مَیں جب اس روحانی کرب میں مبتلا تھا، تو خدیجہ بار بار میرے تصوّر میں آتی۔ اسی طرح خاموش اور غم گین۔ وہ بار بار مجھے سمجھاتی کہ’’ میری شہادت میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، جو عورت آپ کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھے، اُس کی غیرت کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ ایسے حالات میں زندہ رہتی۔‘‘مشکور حسین لکھتے ہیں’’ پاکستان پہنچ کر پورے سات سال خدیجہ کا انتظار کیا، پھر 1955ء میں دوسری شادی کرلی۔

مشکور حسین یاد ابھی لاشوں کے درمیان پڑے تھے کہ صبح کو محلّے کے ہندو نوجوانوں نے بچا کھچا سامان لُوٹنا شروع کر دیا۔اسی دوران مشکور حسین کے والد، سیّد افضال حسین بھی آگئے جو اُس رات گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے بچ گئے تھے۔ اُنہوں نے بَھرے گھر میں صرف لاشوں کو دیکھا، تو بے ہوش ہونے لگے۔افضال حسین کا اخلاق اِتنا اچھا تھا کہ بلوائی اُن پر حملہ کرتے ہوئے کتراتے تھے، لیکن اس دوران جب ایک بلوائی نے مشکور حسین پر حملہ کرنا چاہا، تو ان کے ایک ہندو محلّے دار نے بھاگ جانے کو کہا، یوں وہ اپنے محلّے کی تنگ گلیوں سے نکل کر ریلوے اسٹیشن پہنچے، جہاں ایک گاڑی کھڑی تھی، یہاں سے وہ پولیس لائنز پہنچے، جہاں اُن کے والد صاحب سکتے کے عالم میں گم صُم بیٹھے تھے۔

اُنہوں نے بیٹے کو دیکھتے ہی گلے لگا لیا۔ اِتنے میں اُنہیں پتا چلا کہ اُن کے گھر سے لاشوں کا ٹرک آگیا ہے، لیکن اُنہیں لاشیں دیکھنے کی اجازت نہ ملی اور بقول مشکور حسین ’’مَیں اس وقت بالکل بے حِس ہو گیا تھا۔ مجھ میں قطعاً یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ اپنے پیاروں کا آخری دیدار کر لوں۔‘‘ اُن کے ماموں، تجمّل حسین نے پولیس افسران سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’کفن دفن کے لیے لاشیں اُن کے حوالے کر دی جائیں‘‘، لیکن اجازت نہ ملی۔ بعدازاں، مشکور حسین اپنے والد کے ساتھ جیل کی عمارت میں قائم کیمپ میں آ گئے، یہاں کھانے پینے کے سامان کی شدید قلّت تھی، بلکہ جو کچھ ملتا، سخت بدبودار ہوتا۔ باپ، بیٹا اس کیمپ میں یکم ستمبر سے یکم نومبر تک رہے۔ اسی دوران اُنہیں اور کئی رشتے داروں کے قتل ہونے کا پتا چلا۔یکم نومبر کو یہ لوگ پاکستان جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے، تو اُن کے پاس کوئی سامان نہ تھا۔

والد نے مشکور حسین سے کہا ’’بیٹا دیکھو! ہم کتنے ہلکے پُھلکے جا رہے ہیں۔‘‘ پھر بولے ’’سینہ تان کر چلو، ہندو یہ نہ سمجھیں کہ ہماری ہمّت جواب دےگئی ہے۔‘‘ ٹرین دس گیارہ بجے روانہ ہوئی اور 2نومبر 1947ء کو صبح چار بجے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئی، راستے میں ہر لمحہ حملے کا دھڑکا لگا رہا، لیکن جیسے ہی پاکستان میں داخل ہوئی، لوگوں نے نعرے بلند کیے۔ اُنہوں نے سمجھا کہ ہندوئوں نے حملہ کر دیا ہے، لیکن جب بتایا گیا کہ یہ مسلمان ہیں، تو مشکور حسین کو یوں محسوس ہوا، جیسے اُنہوں نے دوبارہ جنم لیا ہو اور اُن کی تاریخ پیدائش 2نومبر 1947ء ہو ۔

اگست 1947ء میں ایک نئے وطن کی طرف ہجرت کرتے ہوئے مشکور حسین یاد کے خاندان کو 30-35جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ یہ کسی ایک خاندان کی بہت بڑی قربانی تھی، تاہم وہ لکھتے ہیں’’قیامِ پاکستان کے وقت کے یہ واقعات آپ بیتی نہیں، جگ بیتی ہیں۔ نامعلوم کتنے گھرانے میرے عزیزوں اور پیاروں کے گھرانوں کی طرح آزادی پر قربان ہوئے۔‘‘ پاکستان آنے کے بعد مشکور حسین یاد نے مزید تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کا پیشہ اپنایا اور پھر عُمر بھر اسی سے منسلک رہے۔ وہ کئی برسوں تک گورنمنٹ کالج، لاہور میں اُردو پڑھاتے رہے۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا، جس نے اُن کے زخموں کے لیے مرہم کا کام کیا۔ شاعری، طنز ومزاح، نثر، تنقید اور دیگر موضوعات پر 50سے زاید کُتب لکھیں ۔2017ء میں انتقال کے وقت اُن کی عمر 92برس تھی اور وہ اس بات پر بے حد دل گرفتہ بھی رہتے تھے کہ جو قربانیاں دیں ،وہ ثمربار نہیں ہوئیں۔ وہ اس صُورتِ حال کی ذمّے داری تعلیم یافتہ طبقے اور اہلِ سیاست پر ڈالتے تھے۔

اُنہوں نے قیامِ پاکستان کی 50ویں سال گرہ پر چند اشعار کہے، جو اُن کے مُلک و قوم کے بارے میں فکر مندانہ جذبات کی عکّاسی کرتے ہیں۔؎یہ اپنی کم نگاہی کے عنواں 50سال…حیراں پچاس سال، پریشاں پچاس سال…ہم اپنی فکر کو نہ کوئی خوں دے سکے…پیاسے غموں نے کردیئے عریاں پچاس سال…سب کچھ تھا پاس، پھر بھی بھکاری بنے رہے…ساماں کے ساتھ بے سروساماں پچاس سال…مت پوچھ کون کون سے دَور سے گزرے ہیں…میرے وطن کے شعلہ بداماں پچاس سال…جیسے ہمارے سَر پہ کوئی آسماں نہ تھا…ہم یوں رہے ہیں داخلِ زنداں پچاس سال۔