زکوٰۃ اور چاندی کے نصاب کی تفصیل

September 11, 2020

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال :۔ اگر کسی کے پاس صرف پیسے ہوں تو چاندی کونصاب بنانے کی کیا دلیل ہے؟براہِ مہربانی قرآن وحدیث کے حوالے سے جواب عنایت فرما دیں۔ زیادہ تر علماء چاندی کونصاب بنانے کا کہتے ہیں ،کیوںکہ اس میں غریب کا فائدہ ہے ۔ اگر اس تصورکو دیکھا جائے تو ایک آدمی کے پاس اگر ایک تولہ سونا ہو اور ساتھ میں صرف ایک روپیہ تو ان کا مجموعہ تقریباً50,001 بن جاتا ہے(جس میں 50,000 سونے کا کر لیں) تو زکوٰ ۃ واجب ہو جاتی ہے؟ دوسرا مسئلہ اس میں یہ پیش آتا ہےکہ آج کل کوئی صاحب ایسے نہیں ملتے جن کی سیونگ ، چاندی کے نصاب (تقریباً40,000)کے برابرنہ ہو۔ ظاہر ہےایسا آدمی زکوٰۃ نہیں لے سکتا، تو پھر یہ زکوٰۃ کس کو دے ؟

جواب: زکوٰۃ کے نصاب کی تفصیل یہ ہے: اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو توساڑھے باون تولہ چاندی یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی یا سامانِ تجارت ہو یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو۔سونے کی زکوٰۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ اس وقت ہے، جب کہ سونے کے ساتھ کوئی اور قابلِ زکوٰۃ مال (چاندی، رقم، مالِ تجارت) موجود نہ ہو، لہٰذا اگر کسی کے پاس صرف سوا سات تولہ سونا موجود ہو اورنقد رقم، مالِ تجارت یا چاندی کچھ بھی موجود نہ ہو، تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، لیکن اگر سونے کے ساتھ کوئی اور قابلِ زکوٰۃ مال موجود ہو،تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا،بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، اسی طرح مال تجارت اور کرنسی میں بھی چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا۔

ایک سے زیادہ مال جمع ہونے کی صورت میں چاندی کے نصاب کا اعتبار اس لیے کیا گیا کہ زکوٰۃ کے وجوب میں فقراء کی حاجت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جس میں فقراء کا فائدہ ہو فقہائے کرام نے اسے اختیار کیا ہے، اور موجودہ دور میں چاندی کا نصاب کم ہے، لہٰذا زکوٰۃ واجب ہونے کی صورت میں فقراء کا فائدہ ہوگا۔سونا چاندی اور اموالِ تجارت کے نصاب کی طرح چرنے والے مویشیوں پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، اور بھیڑ بکری ، گائے، بھینس اور اونٹ سب کے الگ الگ نصاب ہیں، لیکن چرنے والے مویشی کو عرف اور فقہِ اسلامی میں سونا، چاندی، نقد رقم اور اموالِ تجارت سے حکم اور معنی دونوں میں جدا اورمستقل مال شمار کیا گیاہے، لہٰذا یہ نصاب ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ملائے جائیں گے، جب کہ سونا، چاندی، رقم اور مالِ تجارت ایک نوعیت کے اور معنیٰ متحد اموال ہیں۔

سونا، چاندی اور رقم کی خلقت اور وضع ہی مال کے طور پر ہے، اور ثمنیت کے اعتبار سے یہ تینوں اموالِ تجارت ہیں، دیگر اموالِ تجارت کی لین دین بھی انہی کے ذریعے انجام پاتی ہے۔خلاصہ یہ کہ مذکورہ چاروں اموال ایک جنس کے اموال ہیں، اسی لیے ان چاروں اموال میں زکوٰۃ کی واجب ہونے والی مقدار ڈھائی فی صد یعنی چالیسواں حصہ ہے۔ جب کہ چرنے والے مویشی بالکل جدا نوع ہیں، اس میں واجب ہونے والی مقدار چالیسواں حصہ نہیں ہے، بلکہ ہر ایک میں الگ مقدار واجب ہوتی ہے، اس لیے اس کے نصاب کو سونے چاندی یا رقم کے نصاب کے ساتھ نہیں ملایا جاتا۔

فقہائےکرام کا سونے چاندی اور رقم کو ایک طرح کے اموال کی فہرست میں شامل کرنا اپنی طرف سے نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل ہے، چناں چہ اس بارے میں صاحبِ بدائع الصنائع علامہ کاسانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ’’بکیر بن عبد اللہ بن الاشج سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں،رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کا طریقہ سونے کو چاندی کے ساتھ ملا کر اور چاندی کو سونے کے ساتھ ملاکر زکوٰۃ نکالنے کا تھا‘‘۔ لہٰذا ان میں سے ہر ایک یعنی سونا چاندی ، نقدرقم اور سامان تجارت کو نصاب سے کم ہونے کی صورت میں ایک ساتھ ملاکر نصاب پورا کیا جائے گا، اور جانور اور مویشی چوں کہ حکماً اور معنیً بھی الگ الگ ہیں ، اس لیے انہیں آپس میں نہیں ملایا جائے گا۔یہ کہنا کہ ایسے لوگ جن کے پاس تقریباً چالیس ہزار کی بچت نہ ہو،ملتے نہیں ہیں ،بالفاظ دیگر اکثر لوگوں پر خود ہی زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہوتی ہے۔

میرے نزدیک یہ خیال درست نہیں ہے۔مشاہدہ یہ ہے کہ غریب لوگ ہمیشہ تعداد میں زیادہ رہے ہیں اور آج بھی ایسے لوگ سیکڑوں اور ہزاروں میں نہیں، بلکہ لاکھو ں اور کروڑوں میں ہیں۔ہرشخص کے پڑوس اور خاندان میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو موجودہ معیار کے مطابق صاحب نصاب نہیں ہوتے ۔اگر قریب میں ایسے مستحقین نہ ہوں توذرادور کے فقراء کو یا دورعلاقوں میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ بے شمار ایسے ادارے ہیں، جو مستحقین پر خرچ کا اہتمام کرتے ہیں اورمسلمان انہیں زکوٰۃ ادا کرکے فریضے سے سبکدوش ہوتے ہیں۔(بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (2/ 19 )