زندگی کی گود سے... (آخری قسط)

September 27, 2020

ماضی قریب میں لوگوں کو اپنے ہاتھ سے ڈائری لکھنے کی عام عادت تھی۔ خطوط کے بغیر تو زندگی کا تصوّر محال تھا۔ محقّقین کے مطابق لکھنے کے دوران دماغ، آنکھیں اور فن کارانہ انداز میں الفاظ بناتے ہاتھ آپس میں یوں باہمی ربط میں آجاتے ہیں کہ یہ ایک طرح کا تخلیقی عمل بن جاتا ہے، جیسے مصوّری یا خطّاطی۔ اس طرح ہاتھ سے لکھنے سے کتھارسس ہوتا ہے، جس سے دماغی سُکون حاصل ہوتا ہے۔ ’’تحریر سے علاج‘‘written exposed therapy ایک ایسا طریقۂ علاج ہے، جس میں کسی پریشان کُن یاد کے بارے میں لکھ کر اُس کا علاج کیا جاتا ہے۔

بنیادی طور پر انسان برُی یاد سے نظریں چراتا ہے، مگر یہ تحت الشعور کا حصّہ بن کر رہتی ہے۔ اگراس یاد کو لکھ لیا جائے، تو انسان اپنے جذبات کو ایک شکل دے کر اُس کی تکلیف میں یا تو کمی کرسکتا ہے یا اُس سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ دنیا میں بےشمارلوگ اپنے انوکھے اوریادگار تجربات قبر میں لے کر چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات صحافیوں اور ادیبوں کی بہ نسبت عام لوگوں کے پاس بیش بہا منفرد خیالات، تجربات، مشاہدات اور تجزیات ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان تجربات کو لکھتے رہیں تو نہ صرف انسانی تہذیب زیادہ مالا مال ہوجائے گی، ہم اپنے باپ دادا کی زندگیوں کے بارے میں اور ہمارے بچّے، پوتے، پڑپوتے، نواسے وغیرہ ہمارے بارے میں زیادہ بہتر جان سکیں گے اور یہ عمل لکھنے والے لوگوں کے لیے کتھارسس کا باعث بھی بنے گا۔ ہاتھ سےلکھےخطوط اور ڈائری، نایاب قلمی نسخے ہی تو ہوتے تھے۔

ان کی جگہ اب برقیاتی مواصلات نے لے لی ہے، جس کے ناقابلِ تردید فوائد ہیں، مگر ان میں تحریر کے تخلیقی دوام کے عناصر عنقا ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ سینے سے قہقہہ لگانے والے اور درختوں، پودوں اور جان وَروں سے محبت کرنے والے لوگ عموماً رحم دل اور عالی ظرف ہوتے ہیں۔ پالتو جان وَر سے گھر میں رونق اور رفاقت آجاتی ہے۔ میٹھی زبان دُہرانے والا توتا ہو، گود میں بیٹھتی مخملیں پرشیئن بلی ہو، چہچہاتے پرندے ہوں، رنگین ربڑ کی گیندوں کی مانند اُچھلتے کُودتے چوزے ہوں، زقند بھرتےخرگوش ہوں، رنگین پرَ پھیلائے مور ہوں یامخلص ترین انسان دوست کتّے ہوں، یہ سب ہمارے ازلی ساتھی اوردوست ہیں۔

کتّوں نے تو اپنی وفاداری کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔ جاپان کا پروفیسر اونو کا کتا ہاچکو ہو، جو نوبرس تک ریلوے اسٹیشن پر اپنے اُس مالک کا انتظار کرتا رہا، جو اپنی جائے ملازمت پر فوت ہوچکا تھا یا ایڈنبرا، برطانیہ کا کتّا، بوبی جو چودہ سال تک اپنے مالک کی قبر پربیٹھا رہا اور فوت ہوگیا، بےشمار وفادار کتّوں میں سے فقط دو مثالیں ہیں۔ ان دونوں کے مجسّمے متعلقہ مقامات پر نصب ہیں۔ وہ لوگ جو مذہبی وجوہ کی بنا پر کُتوں سے احتراز کرتے ہوں، اورگھر میں دیگر پالتو جان وَروں کی موجودی ان کے مزاج پر گراں گزرتی ہو، وہ کٹوریوں میں پانی اور دانے دُنکے کا پیاسے اور بھوکے پرندوں کے لیے انتظام کرکے تسکینِ قلب حاصل کرسکتے ہیں۔ مشاغل کے انسانی زندگی اور کارکردگی پر اثرات کے حوالے سےترقی یافتہ ممالک میں خاصی تحقیق ہوئی ہے۔

دنیا میں اہم ترین اور مصروف ترین عُہدوں میں سے ایک عُہدہ امریکی صدر کا ہے،مگر قریباً ہر امریکی صدر نے کوئی نہ کوئی مشغلہ پال رکھا ہوتا ہے۔ گالف کھیلنے سےگھڑسواری تک اور مطالعے سے لے کر تصنیف و تالیف تک، تمام صدور اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ان مشاغل کو توجّہ دیتے رہے ہیں۔ مسلسل کام کرتی مشین کو بھی آرام چاہیے ہوتا ہے اور لمبا سفر طے کرکے آتا گھوڑا بھی اصطبل میں سستاتا ہے۔ یہ تو ہمارے ایسے نیم خواندہ ترقی پذیرمعاشرے کی خامی ہے کہ کسی اہم اورمصروف شخص کو مشغلہ پالتے دیکھ کر، اُس کے حقیقی، مثبت اور صحت مندانہ اثرات جانچے بغیر، اُسے طنز اور تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امریکا اس وقت صنعتی، سائنسی اور علمی ترقی میں سرفہرست ہے۔ بار بار اُس کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔

ایک امریکی تحقیقی ٹیم نے امریکا کی چوٹی کی کمپنیوں اور اداروں کے سربراہان کے مشاغل کا تجزیہ کیا اور ان کے سربراہان کی کارکردگی پران کے اثرات کو جانچا۔ اس تحقیق میں معلومات کے مختلف ذرائع کے علاوہ ان کے انٹرویو بھی شامل تھے۔ بیش تر سربراہ کسی نہ کسی مشغلے کو سنجیدگی سے اپنائے ہوئے تھے۔یہ مشاغل پیچیدہ قسم کی ذمّے داریوں سے ان کی توجّہ ہٹا کر اُنھیں تازہ دَم کرتے تھے، نئے زاویوں سے معاملے کو دیکھنے پر صلاحیت بخشتے تھے اور بعض اوقات سربراہان کو باہمی شمولیت والے مشاغل میں اپنے ملازمین کی آرا بھی جاننے کا موقع ملتا تھا۔ ان میں بوئنگ، نیسدق اور میریٹ وغیرہ کے سربراہان شامل تھے۔

سفروسیاحت سے انسان جتنا کچھ سیکھتا ہے، وہ مطالعے اور میڈیا سے ممکن نہیں۔ اس سے صحیح معنوں میں انسان کو دنیا کے مختلف لوگوں اور تہذیبوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے، وسعت ِ نظر پیدا ہوتی ہے، زندگی میں زیادہ معانی پیدا ہوتے ہیں اور اپنی اصلاح کا موقع ملتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات دوست بھی اس طرح نہیں کُھلتے، جس طرح سفر کے دوران اجنبی کُھل جاتے ہیں، کیوں کہ ایسی ملاقاتوں میں توقعات اور اندیشے نہیں ہوتے۔ دَم بھر کی ملاقات اچانک ختم ہوجاتی ہے اور ہر مسافر اپنی منزل کا رُخ کرلیتاہے۔ بقول ایک ماہرِ عُمرانیات ’’ہمارے والدین ہمیں جُوں کا تُوں نہیں دیکھتے، بلکہ اُس بچّے کی شکل میں دیکھتے ہیں، جسے انھوں نے پالا پوسا ہوتا ہے، ہمارے دوست بھی ہمیں اُس شکل میں دیکھتے ہیں، جس میں وہ ہمیں ماضی میں ملتے رہے ہوتے ہیں، صرف دورانِ سفر ایک ہم سفر اجنبی ہمیں اُس طرح دیکھتا ہے، جس طرح ہم حقیقت میں ہوتے ہیں۔‘‘ سینٹ آگسٹائن جیسے دانا نے کہا تھا ’’یہ دنیا ایک کتاب کی طرح ہے او وہ لوگ جو سفروسیاحت نہیں کرتے اس کا صرف ایک صفحہ پڑھتے ہیں۔‘‘ ڈیل کارنیگی کو خُودنُمائی کا راہ نما استاد تسلیم کیا جاتا ہے۔

سیلف ڈیویلپمنٹ کے موضوعات پر ہزاروں لوگوں نے کتب،مضامین تحریر کیے ہیں۔ البتہ کارنیگی کے وضع کردہ اصولوں کی تازگی (مع دل چسپ و پرُمعانی واقعات) آج بھی دیگر سے بڑھ کر ہی ہے۔ اس کی کام یاب زندگی گزارنے اور پریشانیوں سے بچنے کے علاوہ متنّوع موضوعات پر کتابیں کروڑوں کی تعداد میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئیں اور لوگوں نے ان سے بےحد فائدہ اٹھایا۔ مختصراً اُس نے کام یاب اور مطمئن زندگی کے دس اصول وضع کیے تھے۔ تنقید اور شکایت سے گریز کریں اور وہی توانائی بہتری کے لیےاستعمال کریں۔ اگر کوئی جذبہ آپ میں نہیں ہے تو اُسے اپنے اوپر طاری رکھیں، یہاں تک کہ وہ آپ میں پیدا ہوجائے گا۔ ہر ایک کے نقطہ نظر کو ہم دردی اوراس کی نظر سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

دوسروں کی تعریف کُھل کر کریں اور اس میں بُخل سے کام ہرگزنہ لیں۔ اپنی غلطیوں پر افسوس کرنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اُن سے سیکھیں۔ ہر شخص اپنے بارے میں بولنا چاہتا ہے، لوگوں کی ہمّت افزائی کریں کہ وہ اپنے بارے میں کُھل کر بولیں یوں وہ آپ کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ پیدا کرلیں گے۔ ایک وقت میں صرف ایک کام کریں، اپنے کاموں کی فہرست بنا کر سب سے پہلے اہم ترین کام کریں اور اُسے ختم کرنے کے بعد دوسرے کام پر توجّہ دیں۔ کسی کو کسی بات پر آمادہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُس کے اندر خود یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ وہ اس کام کو کرنے کی خواہش کرے۔ کام کے بغیر مسرت حاصل نہیں ہوتی،کوشش کریں کہ جو کام بھی کریں، اُس کو پوری توجّہ اور محنت سے کریں اور اس کام سے محبّت کریں، یوں وہ کام کام نہیں رہتا ایک مسرت آگیں تجربہ بن جاتا ہے۔

آخری راہ نُمابات یہ کہ پوری زندگی کو دِنوں میں تقسیم کریں، روز بہ روز جئیں، ہر دن کو صرف اُس دن کے لیے جیئیں کہ ماضی کےدُکھ، احساساتِ زیاں اور مستقبل کے اندیشےحال کو نگل نہ جائیں۔ اپنے پیر مضبوطی سے ’’آج‘‘ میں جما کر رکھیں۔ اُس نے پریشانیوں کو جانچنے کے چار اقدامات بتائے تھے۔ پہلا، کسی بھی مسئلے کے متعلق سب حقائق اکٹھے کرلیے جائیں۔ دوسرا، خُوب سوچ سمجھ کر ایک حتمی فیصلے یاحل تک پہنچ جایا جائے۔ تیسرا، فیصلے تک پہنچنے کے بعد بلا تذبذب فوری عمل کیا جائے اوراس کے نقصانات پر پریشان نہ رہا جائے اور اگر کسی پریشانی کا سامنا ہو تو یہ چار سوالات لکھ لیے جائیں۔ مسئلہ کیا ہے؟اس کی وجوہ کیا ہیں؟اس کے ممکنہ حل کیا ہیں؟اوران میں سے بہترین حل کون ساہے؟یوں کم ازکم سارا مسئلہ کُھل کر سامنے آجاتا ہے اور اس کے حل کی جانب بامعنی پیش قدمی تیز تر ہوجاتی ہے۔ وہ ایک اور نصیحت کرتا ہے ’’تم جس طرح کے بننا چاہتے ہو، اپنے آ پ کو اُس طرح کے لوگوں میں گھیر لو۔‘‘یہ بے حد اہم نصیحت ہے، شاید اہم ترین!

ماہرینِ نفسیات کے مطابق لڑکپن کی شخصیت میں جینیاتی امور اور گھریلو ماحول سے بھی بڑھ کر بعض اوقات اپنے ہم عُمر معاصرین، دوست احباب کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک انسان جس طرح کے لوگوں میں خود کو گھیر لے، کچھ عرصے بعد وہی رنگ اُس کی شخصیت پر چڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ کارنیگی کی کتب کے نچوڑ کے لیے کئی اوراق چاہئیں۔ البتہ چند اہم باتیں قابل ذکر ہیں۔’’آپ اپنا ماضی ہرگز نہیں بدل سکتے، مگراپنا مستقبل کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں۔ ماضی کی مشکلات کی پرچھائیاں مستقبل پر مت ڈالیے۔‘‘ دوسری بات یہ کہ ’’شُکر گزاری سیکھنی پڑتی ہے اور اس کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ حقیقی خُوشی اس بات سے نہیں حاصل ہوتی کہ شُکریے کی توقع کی جائے بلکہ شُکر گزاری کا اظہار کرکے کسی دوسرے انسان کو خُوشی دینے سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ ہم میں سے بہت سے لوگ کسی کے شُکرگزار ہوتے ہوئے جھجکتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری قدر میں یا تو کمی ہوگی یا اسے چاپلوسی سمجھا جائےگا۔ حقیقت میں شُکر گزاری کا اظہار کرنے کی ابتدائی جھجک دُور کرنی ہوتی ہے۔

تہذیب و ترقی یافتہ دنیا میں شُکریہ ادا کرنے کی اتنی تربیت دی جاتی ہے کہ یہ حقیقی کے بجائے رسمی شُکر گزاری بن کر رہ جاتی ہے۔ البتہ اس کی شیرینی پورے معاشرے کا ماحول خوش گوار کردیتی ہے۔ شُکر گزاری فقط الفاظ سے نہیں ہوتی، عملی اقدامات اور ٹھوس اظہار اس کے موثر ذرائع ہیں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ انسانوں سے تعلق میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ’’انسان دلیل والی مخلوق سے بڑھ کر جذبات کی مخلوق ہے۔‘‘ وہ اس عمل پر زیادہ جلد آمادہ ہوتا ہے، جو اس کے دل پر اثر کرے۔ ٓخر میں کارنیگی بحث جیتنے کا کُلیہ بتاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ’’ عام زندگی میں دوست احباب یا اجنبیوں سے بحث جیتنے کا بہترین کلیہ یہ ہے کہ بحث میں مت پڑیں۔‘‘یاد رہے کہ کام یابی اپنے ساتھ اپنے مخالفین اور دشمن لے کر آتی ہے۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک کام یاب انسان کو غیر متوقع طور پر اَن جانے گوشوں اور اطراف سے مخالفت کا بےوجہ سامنا کرنا پڑتاہے۔

ایک خود پرداختہ اور سیلف میڈ انسان کو اپنے پرانے دوستوں اور گزشتہ ہم سایوں کی صفوں میں سب سے پہلے اپنے مخالفین کو تلاش کرنا چاہیے اور تلاش کے بعد معاف کرکے آگے بڑھ جانا چاہیے کہ حسد انسانی خمیر میں شامل ہے۔ پرانی رنجشیں ٹانگوں سے بندھے وہ بھاری پتھر ہیں، جو انسان کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ کارل یونگ نے خُوب گہری بات کہی تھی، ’’دوسروں کی ہر وہ شے یا عادت، جو ہمیں غصّہ دلاتی ہے، دراصل ہمیں اپنے آپ کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔‘‘ یعنی ہمارا ردِعمل ہماری ذات کا آئینہ ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے عظیم فلسفی، برٹرینڈرسل نے لکھا تھا ’’زندگی نے مجھے سکھایا کہ ہماری خامیوں سے زیادہ ہماری خُوبیوں کی وجہ سے ہمیں ناپسند کیا جاتا ہے۔‘‘ کام یابی کی قیمت مختلف شکلوں میں چُکانی پڑتی ہے۔ مادی طور پرکام یاب آدمی اندر سے تنہاہوتا چلا جاتا ہے۔ ویسے تو زیادہ علم رکھنے والے شخص کے بارے میں بھی کارل یونگ نے کہا تھا ’’اگر ایک شخص دوسروں سے زیادہ جانتا ہے، تو وہ تنہا ہو جاتا ہے۔‘‘ بعض صُورتوں میں مادی کام یابی اپنے ساتھ اداسی بھی لے کر آتی ہے۔

ڈاکٹر عمران احمد پاکستان کے چوٹی کے ماہرِنفسیات ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ کئی مرتبہ ان کے ہاں ڈیپریشن کے ایسے مریض آتے ہیں، جو محنت کے بعد فلیٹ سے بنگلے میں منتقل ہوتے ہیں مگر اپنا خواب پالینے کے بعد انھیں خُوشی کے بجائے مایوسی اوراداسی گھیرلیتی ہے۔ بہت جدوجہد کے بعد محبت کی شادی کرنے والے ایسے جوڑے بھی اُن کے پاس عام طور پر آتے ہیں، جو ہنی مون کے بعد پرُجوش خوشی پانے کی بجائے غیر متوقع طور پر اُداسی اور خلا محسوس کرتے ہیں۔ یہ دونوں معاملات نشے سے مماثل ہیں۔ زیادہ شراب کا نشہ کرنے والوں کا اگلا روز اُداسی لے کر آتا ہے، جو ہینگ اوور سے مماثل کیفیت ہے۔ اسی طرح کام یابی کے جرعے کے بعد بھی بعض اوقات اداسی آجاتی ہے۔ مادی کے ساتھ ذہنی، روحانی اورجذباتی مسرت کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔

ان کا حل کم توقعات رکھنے کی شعوری اوردانش مندانہ کوشش میں بھی ہے۔ قدیم رومن، تہذیبی نفاست کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ وہ ایسے لُطف کو جو صرف لمسی ہو اور ذائقے وغیرہ جیسے احساس کو بیدار کرکے حواس کو متاثر کرتا ہے، جیسا کہ کھانا کھانے وغیرہ کو کم تر جانتے تھے۔ وہ انسان کے دماغ کو متاثر کرنے والے لُطف جیسا کہ فلسفہ، فنون یہاں تک کہ کھیل کو اعلیٰ تصوّر کرتے تھے۔ جب کوئی تہذیب ایک زینہ اوپر چڑھتی ہے، تو وہ دانش وَرانہ معاملات کی فضیلت، اہمیت اور اس سے بڑھ کر ان کے لطف کو خُوب جان لیتی ہے۔ مادی یا ذہنی و روحانی مقاصد اور کام یابی کو پانے کی جلد بازی میں ہی ان کا رَدچھپا ہوتا ہے۔ جب قدرت پھل پھول پیدا کرنے میں اپنا وقت لیتی ہے، جس طرح انسان کا بچّہ ماں کی کوکھ میں وقت پورا کرتا ہے اور جیسے موسم اپنے وقت پر آتے ہیں، اسی طرح زندگی میں ہر شے اور نتائج اپنے وقت پر آتے ہیں۔

قبل ازوقت درخت سے توڑ لیا گیا پھل کچا ہی نکلے گا۔ ایسے میں تحمّل اور صبر، دانش مندی کی اولاد ہیں۔ برٹرینڈ رسل نے اپنی کتاب ’’فتح مسرت‘‘ میں یوں خیال آرائی کی ہے۔ ’’ایسی نسل جو بوریت نہ سہار سکے، چھوٹے آدمیوں کی نسل ہوگی۔ ایسے آدمی، جو قدرت کےبتدریج آہستہ ارتقا سےناواقفیت رکھتے ہوں، ایسے آدمی جن میں ہرناگزیر اور زندہ جذبہ یوں آہستہ آہستہ مرجھاتا جائے، جیسے وہ گل دان میں رکھے کٹے ہوئے پھول ہوں۔‘‘ عملی اور مادی طور پر کام یاب زندگی وہی ہے، جس میں ایک انسان اپنے طے کردہ مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کرے، نہ کہ وہ کسی دوسرے کے مقاصد کے حصول میں اس کا آلۂ کار بنے۔

عقل مند آدمی وہ ہوگا،جو بلاشبہ کئی لوگوں سے معاشرتی روابط رکھے، مگر جب دوست بنائے تو یہ سوچ لے کہ وہ اپنے جنازے کی پہلی صف منتخب کررہا ہے۔ ایسے دوست جن سے صرف جنازے کی پہلی صف ہی میں شرکت کی توقع نہ ہو بلکہ ان سے تدفین میں شرکت کی بھی توقع ہو۔ آدمی ایسی زندگی گزارجائے، جو صحت مند اور بھرپور ہو، اس میں اشیا سے زیادہ اہم یادیں ہوں، اس زندگی کا ہر لمحہ کارگر ہو، نہ صرف اُس کے لیے بلکہ خلقت کےلیے بھی۔ اگر ایک انسان عام انسانی عُمر کے مطابق زندگی گزار کے طبعی موت مَرے تو مطمئن ضمیر کے ساتھ موت کا منتظر ہو، اس عاجزانہ اطمینان کے ساتھ کہ اُس کی اس کرئہ ارض پر مختصر موجودی کا لوگوں کو فائدہ ہوا اور اس نے انسانی تہذیب کی ترقی اور شعور و آگہی میں اضافے کے لیے مثبت کردار ادا کیا۔ اس کی موت سے ملاقات، ایک دوست سے ملاقات ہو اور یہ رسول پاک ؐ کے دل میں اُترجانے والے آخری الفاظ کا ادنیٰ سا پرَتو ہو۔ رسولِ پاک ؐ کے آخری الفاظ تھے۔ ’’ اللّٰھُم الرفیق الاعلیٰ (اے اللہ مجھے رفیقِ اعلیٰ سے ملا دے)‘‘۔