آسیب کا سایہ؟

October 01, 2020

میں ذاتی زندگی میں ہرگز توہم پرست نہیں مگر وطنِ عزیز کے حالات دیکھ کر منیر نیازی کی بات درست محسوس ہوتی ہے کہ واقعی اس ملک پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔

جب بھی ملک ترقی کرنے لگتا ہے، معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوتا ہے تو یہ آسیب آدم بو آدم بو پکارتا ہمارے سروں پر منڈلانے لگتا ہے، ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے اور معیشت کی گاڑی ہچکولے کھاتی رُک جاتی ہے۔

اس بھوت کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ خوشحال ہوں گے، ان کے حالات اچھے ہوں گے تو اسے دی جارہی بھینٹ میں بھی اضافہ ہوجائے گا لیکن اس آسیب کے دو چیلے غربت اور بیروزگاری یوں دندناتے پھریں گے تو سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا۔

ہم ہر بار آسیب کے فریب میں آنے کے بعد دوست ممالک کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوتے ہیں، کبھی عرب ممالک سے امداد کی بھیک مانگتے ہیں، کبھی کشکول لیکر امریکہ جاتے ہیں تو کبھی چین کی منت سماجت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جب کسی ملک سے امداد مل جاتی ہے تو ہم لہک لہک کر دوستی کے ترانے گانے لگتے ہیں۔

اتنی سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ خیرات اور امداد کے بل بوتے پر آج تک کسی ملک نے ترقی نہیں کی۔ جب تک ہم اپنی آمدن میں اضافہ نہیں کرتے، تب تک ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

آمدن بڑھانے کا نسخہ یہ ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ یوں تو اس خطے میں ہمارے بیشمار دوست ہیں اور ہمیں ان ممالک کی دوستی پر بہت ناز بھی ہے لیکن ہم ان سے اتنی سی بات نہیں منوا سکتے کہ چھوٹی موٹی چیزیں جو آپ دیگر ممالک سے خریدتے ہیں، اگر وہ پاکستا ن سے درآمدکرلیں تو ہماری روزی روٹی چلتی رہے گی۔

چند روز پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے درآمدات و برآمدات سے متعلق ماہانہ رپورٹ جاری کی تو معلوم ہوا کہ تعلقات میں سرد مہری کے باوجود پاکستانی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار امریکہ ہے جس سے ہمیں اگست 2020میں 33کروڑ 45لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ موصول ہوا۔

دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے جس نے اس سال اگست میں 12کروڑ 91لاکھ ڈالر کی مصنوعات خریدیں۔ پاکستانی مصنوعات کی خریداری کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک جرمنی ہے جس نے اگست 2019میں 10کروڑ 47 لاکھ ڈالر کی اشیا پاکستان سے درآمد کیں مگر رواں سال اگست کے مہینے میں 6.7فیصد اضافے کے ساتھ پاکستانی مصنوعات کی خریداری کا حجم 11کروڑ 17لاکھ ڈالر ہوگیا۔

پاکستانی مصنوعات کی خریداری کے تناظر میں چین چوتھے نمبر پر ہے جس نے اگست 2019میں 12کروڑ 26لاکھ ڈالر کا سامان خریدا جبکہ اس سال پاکستانی مصنوعات کی خریداری میں 25.8فیصد کمی کیساتھ یہ حجم 9کروڑ 36لاکھ ڈالر رہا۔

پاکستانی مصنوعات کا پانچواں بڑا خریدار متحدہ عرب امارات ہے جس نے اگست 2020میں 9کروڑ 32لاکھ ڈالر کی مصنوعات خریدیں اور گزشتہ سال کی نسبت پاکستان کی برآمدات میں 6.5فیصد کمی آئی۔

اب اگر تصویر کو ایک اور رُخ سے دیکھا جائے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ کس ملک سے تجارت میں پاکستان کو کتنا خسارہ ہے تو امریکہ سے پاکستانیوں نے اگست2020میں 14کروڑ 3لاکھ ڈالر کی اشیا منگوائیں۔

گزشتہ برس اسی مہینے میں امریکہ سے درآمدات کا حجم 9کروڑ 37لاکھ ڈالر تھا۔ یعنی درآمدات وبرآمدات کا موازنہ کیا جائے تو اس سال امریکہ سے تجارت میں ہمیں 19کروڑ 42لاکھ ڈالر کا منافع ہوا۔ متحدہ عرب امارات جس نے ایک ماہ کے دوران پاکستان سے 9کروڑ 32لاکھ ڈالر کی مصنوعات خریدیں، ہم نے اس سے اگست 2020 میں 55کروڑ 95لاکھ ڈالر کا سامان منگوایا۔

یعنی متحدہ عرب امارات سے تجارت میں ہمیں ماہانہ 45کروڑ 63لاکھ ڈالر خسارے کا سامنا ہے۔

اسی طرح چین جس نے اگست2020میں پاکستان سے 9کروڑ 36لاکھ ڈالر کا سامان خریدا، اس سے ہم نے اس مہینے میں78کروڑ 33لاکھ ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں اور گزشتہ سال کی نسبت چینی درآمدات میں 1.8فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یعنی نہ صرف یہ کہ ہمیں چین کیساتھ تجارت میں ہر سال کم و بیش 69کروڑ خسارے کا سامنا ہے بلکہ درآمدات میں بتدریج اضافہ ہونے اور برآمدات میں مسلسل کمی ہونے سے تجارتی خسارہ لگاتار بڑھ رہا ہے۔

اگر دوست ممالک کی قیادت کے سامنے یہ معاملہ اُٹھایا جائے کہ ہر سال آپ سبزیاں، فروٹ، دودھ، گوشت، چاول اور اس طرح کی دیگر اشیا درآمد کرتے ہیں اگر ان درآمدات میں سے پاکستان کو 30فیصد شیئر بھی مل جائے تو ادھار تیل، قرضے اور امدادی پیکیج لینے کی ضرورت نہ پڑے۔

وہ ہمسایہ ممالک جن کی دوستی پر ہمیں بہت ناز ہے، وہ ہر سال جتنی چینی، چاول، گوشت اور ڈیری پروڈکٹس درآمد کرتے ہیں، اگر اس میں سے زیادہ نہیں صرف 20فیصد حصہ بھی پاکستان کو مل جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔

یورپی ممالک پاکستان سے جتنی مصنوعات خریدتے ہیں، اگر اسلامی ممالک اس کے مقابلے میں کچھ فراخدلی دکھائیں اور پاکستان سے خریداری کرنے لگیں تو ہم واقعی ایشین ٹائیگر بن جائیں۔

ابھی یہ سطور لکھ رہا تھا کہ خبر ملی بھارت باسمتی چاول کی مارکیٹ ہتھیانے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارت کی طرف سے یورپی یونین کی طرف سے باسمتی چاول کا ٹریڈ مارک حاصل کرنے کی درخواست دی گئی ہے۔ پاکستان ہر سال 5سے 7لاکھ ٹن چاول برآمد کرتا ہے جس میں سے زیادہ تر یورپی ممالک خریدتے ہیں۔

اگر بھارت کی یہ درخواست منظور ہوگئی تو ہمیں اس مارکیٹ سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور پھر بھارت یہ چاول ہم سے سستے داموں خرید کر اپنا ٹیگ لگا کر عالمی مارکیٹ میں فروخت کیا کرے گا اور ہم، اس آسیب سے لڑتے رہیں گے۔