ڈائمنڈ جوبلی۔ پاکستانیت کے احیا کے لئے

October 08, 2020

ایک آوازیہ (Audio) گردش میں ہے، کوئی صاحب بہت ٹھہر ٹھہر کے بات کررہے ہیں۔ کراچی کے بلکہ ملک بھر کے صف اوّل کے صنعت کاروں، سرمایہ داروں کے ایک اکٹھ کے حوالے سے انہیں خدشہ ہورہا ہے کہ کوئی خفیہ طاقت پھر ملک لوٹنے والوں کو بر سر اقتدار لانا چاہتی ہے۔ اسلئے یہ سیٹھ لوگ اب پاکستان میںسرمایہ نہیں لگائیں گے۔میں تو ویسے ہی اس آوازیے پر یقین نہیں کررہا تھا ۔ کچھ جیّد صنعت کاروں سے تصدیق چاہی۔ انہوں نے بھی ایسی کسی میٹنگ سے لا علمی ظاہر کی۔حالات یقیناً پریشان کن ہیں۔لیکن ایسی بے بسی نہیں ہے جو اس آوازیے میں بتائی جارہی ہے۔ ہمیں سرمایہ داروں سے بہت شکایتیں رہی ہیںمگر سٹیزن فائونڈیشن، انڈس اسپتال، ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمت گاہ ایس آئی یو ٹی جیسے قابلِ تحسین ادارے بھی انہی صنعت کاروں کے جذبۂ خیرخواہی سے چل رہے ہیں۔

ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ملک میں اب تک وہ مثالی دَور نہیں لاسکے جہاں آئین کی مکمل پاسداری ہو۔ جہاں ملک کےعوام کو زندگی کی آسانیاں اور تحفظ میسر ہو۔ بلوچستان میں نوجوان مطمئن ہوں۔ سندھ میں کسی کو کسی سے شکایت نہ ہو۔ لسانی اور نسلی تعصبات میرٹ پر غالب نہ ہوں۔ پنجاب۔ جنوبی پنجاب باہم شیر و شکر ہوں۔ کے پی میں صرف نام نہیں، حالات بھی بدلیں۔ گلگت بلتستان اپنی شناخت کے لیے سرگرداں نہ ہو۔ آزاد جموں و کشمیر احتیاج کے احساس سے بھی آزاد ہو۔ یہ منزل جمہوری عمل کے تسلسل سے نصیب ہوتی ہے۔ جمہوری تسلسل کے لیے غیر سیاسی مداخلتوں کا دروازہ بند ہونا اور جمہوری عمل کے بنیادی ستونوں یعنی قومی سیاسی پارٹیوں میں بھی جمہوری ڈھانچےملک گیر ہونا ضروری ہیں۔

اپنوں کی لغزشوں دشمنوں کی یورشوںاور دوستوں کی سازشوں کے باوجود پاکستان 73واں سال گزار رہا ہے۔ دو سال بعد 2022 میں 75سال ہوجائیں گے۔ میں جو پاکستان کا ہم عمر ہوں۔ میں نے تجویز دی ہے کہ 2022 میں ہم ڈائمنڈ جوبلی پورے جوش و جذبے سے منائیں۔ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کریں۔ جہاں جہاں کامیابیاں حاصل کرسکے ہیں، ان کو نمایاں کریں۔ میرے لاتعداد ہم وطنوں نے اس تجویز کی بھرپور تائید کی ہے۔ بہت سے ادارے دو سالہ پروگرام تشکیل دے رہے ہیں۔ کچھ ایک سال کی تقریبات کا اہتمام کررہے ہیں۔

1947نے ہمیں ایک آزاد ملک دیا لیکن اندوہ و غم کے ساتھ۔ لہو رلاتی قربانیوں کے ذریعے۔ پاکستان کے کونے کونے سے مجھے ان دنوں کے کرب کی کہانیاں موصول ہورہی ہیں۔ ابھی اس نسل کے کچھ بزرگ موجود ہیں، جنہوں نے بچپن میں، کچھ نے نوجوانی میں وہ ہولناک مناظر بھی دیکھے ہیں جب ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں کافروں سے اپنی عصمت بچانے کے لیے اپنی مرضی سے اپنے پیاروں کے سامنے تالابوں،کنوئوں، دریائوں میں کود گئیں۔ یہ آوازیں، یہ چیخیں اب بھی ان کی نیند اڑادیتی ہیں۔ اسلام آباد میں مقیم قابل احترام پروفیسر نیاز عرفان نے خون میں ڈوبی تحریر ارسال کی ہے۔ شور کوٹ روڈ میں آباد 94سالہ ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی نے لہو رنگ یادیں بکھیری ہیں۔ میں ان اندوہ بھری کہانیوں کے ساتھ ان خوبصورت اور مہرباں یادوں کی تلاش میں ہوں جب پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان میں اپنے گھر بار چھوڑ کر آنے والوں کو دلوں اور مکانوں میں جگہ دی گئی۔ کتنے خاندان تھے جنہوں نے اپنے بنگلوں میں کمرے خالی کردیے۔ روزانہ کھانوں کا انتظام کیا۔ پیر الٰہی بخش فائونڈیشن کے علی اصغر ایک ضخیم کتاب ’’ماٹھو مٹیادار‘‘ Maahoon Manyadarr کا تحفہ عنایت کرگئے ہیں۔ پیر الٰہی بخش نے کس طرح مہاجرین کی آبادکاری میں کسی تحفظ۔ تعصب کے بغیر مسلسل دلچسپی لی۔ پیر الٰہی بخش کالونی میںہندوستان سے آنے والے بڑے بڑے ماہرین، ادیب، شاعر اورسماجی کارکن آباد ہوئے۔ یہ کالونی تو ایک کتاب کا تقاضا کرتی ہے ۔ کراچی یونیورسٹی کو اس پر پی ایچ ڈی کروانی چاہئے۔ قاضی اسد عابد ہمارے کرم فرماہیں۔ ان کے خاندان کی سخاوت و میزبانی کی داستانیں بہت سننے میں آتی ہیں۔ ابھی سوشل میڈیا پر میں نے ایک حوالہ دیکھا کہ 23ستمبر 1950 میں حیدر آباد کے شہریوں نے مہاجروں کی مدد کا پورا ہفتہ منایا تھا۔ڈائمنڈ جوبلی کے اہتمام پر میں اس لیے زور دے رہا ہوں کہ ایسے اہم مواقع ہمیں اپنے احتساب، تجزیے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی دعوت دیتے ہیں۔ گلے شکوے بہت ہیں۔ قربانیوں کا سلسلہ 1947 کے بعد بھی جاری رہا ہے۔ اب بھی اس وطن اور اپنے حقوق کے لیے جانیں دی جارہی ہیں۔ جبر و استبداد کی قوتیں اب بھی انگریز استعمار کی تلخ یادیں تازہ کرتی ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین، مصنفین موجودہ پاکستان کے عوام کی شناخت، اس کی جفاکشی اور صبرو استقلال کو قرار دیتے ہیں۔

حکمراں طبقے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، وہ استعماری ذہن ہی رکھتے ہیں۔ ہمیں خود آگے بڑھنا ہوگا۔ یونیورسٹیاں ہر اول دستے کا کردار ادا کریں۔ ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے 75سال کی ناکامیوں، کامیابیوں، عادتوںاوررویوں پر تحقیق کریں۔ اکیسویں صدی ہے۔ ٹیکنالوجی، میڈیا، سوشل میڈیا کی دہائیاں، ہم سارے اجارہ داروںاور استحصالیوں کو اطلاعات کے سیلاب میں بہاکر لے جاسکتے ہیں۔ بے بسی کی بحثیں چھوڑیں۔ پہلے بھی ہم ان بے مقصد گلوں شکوؤں میں اپنا ایک بازو کھو چکے ہیں۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب، جنوبی پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر کے مسائل میں مبتلا عوام سوشل میڈیا سے آپس میں جڑیں۔ ایک دوسرے کے مسائل سے با خبر ہوں۔اصل ذمہ داروں کو پہچانیں۔

شہید پاکستان حکیم محمد سعید کے ادارے کو پہل کرنی چاہئے۔ دائود، آدم جی، ولیکا، رنگون والا اور اب حبیب سمیت نئے خاندانوں کو دواساز کمپنیوں، بینکوں کو دو سالہ ایک سالہ پروگرام مرتب کرنے چاہئیں۔ اس وقت جو مایوسیاں، انتشاراور ایک دوسرے کے حوالے سے بدگمانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ان کا جواب یہی ہے کہ ہم پاکستانیوں کو پاکستانیت کے احساس اور فخر سے سرشار کریں۔ ان کی صلاحیتوں کو بیدار کریں۔ میرٹ کی عظمت کو منوائیں۔ پاکستان کے ابتدائی ایام کی کہانیاں سن کر جذبۂ اگست کو محفوظ کریں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔اس نسل کے لوگ رخصت ہورہے ہیں۔ ان کی میراث نئی نسل کو منتقل کریں۔