نہیں سوچا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی میں دس ہزار رنز کر لوں گا، شعیب ملک

October 11, 2020

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور آل راؤنڈر شعیب ملک کا کہنا ہے کہ کبھی سوچا نہ تھا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں دس ہزار رنز کریں گے، کیریئر میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے جس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، 2007 میں کپتانی قبول کرنے کا افسوس ہے۔

جیو نیوز کو انٹرویو میں شعیب ملک نے اپنے کیرئیر کے اتار چڑھاؤ، تجربات، یادگار لمحات اور مستقبل کے ارادوں پر کھل کر بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ اسٹیپ بائی اسٹیپ کرکٹ کھیل کر آتے ہیں تو کافی ساری چیزیں سیکھتے ہیں اور جب تجربہ کار ساتھی کرکٹرز کو فالو کریں اور یہ سیکھنے کی کوشش کریں کہ ان کی کارکردگی میں اتنا تسلسل کیسے ہے تو اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

سابق کپتان کا کہنا تھا کہ جب آپ بلندی پر ہوتے ہیں تو سب کچھ اچھا لگتا ہے لیکن برا وقت آپ کو بہت کچھ سکھاتا ہے کہ برے دن میں کیسے فائٹ کرنا ہے اور ان حالات سے کیسے نکلنا ہے، خود کو مثبت کیسے رکھنا۔ یہ سب کچھ بہت اہم ہے۔ ہمارے کلچر میں منفی باتیں زیادہ ہوجاتی ہیں، ایسے میں مثبت رہنا کافی ضروری ہوتا ہے۔

شعیب ملک نے کہا کہ کرکٹ ہمیشہ ان کا جنون رہا اور پاکستان ٹیم کی نمائندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ 2010 سے 2015 میں دنیا بھر میں کرکٹ لیگز کھیلی، جب آپ کو لگتا ہے کہ آپ پاکستان ٹیم کے لیے کھیل سکتے ہیں لیکن موقع نہیں ملے تو فرسٹریشن ہوتی ہے۔

سابق کپتان کا کہنا تھا کہ لیگز کھیل کر مجھے اس فرسٹریشن سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کافی مدد ملی۔ یہی سیکھا کہ جو کنٹرول میں ہے اسکو اچھے سے اچھا کرو اور جو کنٹرول میں نہیں ہو اس کی فکر نہ کرو۔ کرکٹ کھیل کر میں نے زندگی کے بہت سے سبق سیکھے۔

شعیب ملک نے پی سی بی کو مشورہ دیا کہ جب بھی کسی کھلاڑی کو لیگ کھیلنے کا موقع ملے اور ٹیم کی مصروفیات نہیں تو اس پلیئر کو جا کر کھیلنے کی اجازت ضرور دیں کیونکہ وہ جتنا زیادہ کھیلیں گے اتنا زیادہ سیکھیں گے، کیمپس میں جتنی ٹریننگ کریں گے اس سے اتنا فرق نہیں پڑے گا جتنا لیگ کے میچز کھیل کر سیکھنے کو ملے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2023 کے ورلڈ کپ کے لیے کھلاڑیوں کا پول ابھی سے تیار کرلیا جائے اور ان کو لے کر آگے بڑھا جائے تاکہ جب تک ورلڈ کپ آئے ان پلیئرز کے پاس اچھا خاصہ تجربہ ہو اور وہ مضبوط اعصاب کے ساتھ میدان میں اتریں۔

شعیب ملک نے حال ہی میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اپنے دس ہزار رنز مکمل کیے، وہ یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے ایشین کرکٹر ہیں۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ سفر اتنا آسان نہ تھا، ٹی ٹوئنٹی میں بہت محدود مواقع ملتے ہیں، پہلے تین بیٹسمین کے پاس تو رنز کرنے کا موقع ہوتا ہے، لیکن مڈل آرڈر بیٹسمین کے لیے دس ہزار رنز کر جانا بہت بڑی چیز ہے۔

سابق کپتان کہتے ہیں کہ وہ یہ سوچ کر مطمئن نہیں ہونا چاہتے کہ بس اب تو دس ہزار رنز ہوگئے، ان کا کہنا تھا کہ ابھی بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 2015 میں جب ٹیم میں نام نہیں آیا تو انہوں نے سوچا تھا کہ انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑ کر بس لیگز پر فوکس کریں، اس دوران ان کے پاس ٹی وی کے کنٹریکٹس تھے، لیکن ایسے میں انضمام الحق اور محمد اکرم نے حوصلہ بڑھایا اور کرکٹ جاری رکھنے کو کہا۔

شیب ملک نے مزید کہا کہ ایک چیز کا انہیں افسوس ہے اور وہ ہے 2007 میں کپتانی قبول کرنے کا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ بہتر ہوتا کہ میں اس وقت کپتانی قبول نہیں کرتا، کیونکہ اس وقت کافی چیزیں ایسی ہوئیں جو نہیں ہونی چاہیں تھیں، اس وجہ سے پلیئرز کے ساتھ پرابلمز بھی ہوئے اگر اندازہ ہوتا کہ کلچر میں چیزیں کیسے ہینڈل کی جانی ہے تو شاید میں قبول نہیں کرتا، بطور کپتان آپ سب کو خوش نہیں رکھ سکتے۔

شعیب ملک نے کہا کہ انہیں بعض چیزوں نے بہت پریشان کیا تھا اور اس پر انہوں نے ساتھی کرکٹرز سے معذرت بھی کی تھی۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی پہلے سے زیادہ فٹ محسوس کر رہے ہیں اور فی الحال ریٹائرمنٹ کا کوئی ارادہ نہیں۔

انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ وہ جونیئر کرکٹرز سے اپنا تجربہ بھی شیئر کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو آگے مدد ملے۔

شعیب ملک نے موجودہ ڈومیسٹک سسٹم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کرکٹ کی بہتری کے لیے اچھا ہے لیکن ضروری ہے کہ نچلی سطح پر چیزوں کو بھی بہتر کیا جائے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسکول کرکٹ، کلب کرکٹ کو بہتر کرنا ہے اور وہاں وسائل اور مراعات بھی ایسے ہونے چاہِیئں کہ پلیئرز کے پاس مکمل موقع ہو کہ وہ بالکل تیار ہو یہ نہ ہو کہ وہ قومی ٹیم میں آکر ساری چیزیں سیکھ رہا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پلیئرز کی فلاح کے لیے پلیئرز ایسوسی ایشن کا قیام ہوسکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس میں ایسے لوگ آئیں جو غیر جانبدار ہوں تاکہ پی سی بی اور پلیِئرز کے درمیان رابطے کا فقدان نہ رہے، اس سے دونوں کو فائدہ ہوگا۔