ٹریفک جام میں پھنسے لیڈر

October 15, 2020

کوئی پہیہ بھی حرکت نہیں کر سکتا، تاریخ کا نہ جغرافیے کا۔

بدترین قسم کا ٹریفک جام ہے۔ یہ آج پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔ تاریخ میں کئی بار ہو چکا ہے۔ سب ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں سارے قوانین، ضابطے توڑ دیتے ہیں۔ پھر اسی موڑ پر پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ دونوں طرف یہی حال ہے۔ جیسے پچھلے زمانوں میں بادشاہ اپنی اپنی فوجیں لے کر آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے تھے۔ وہاں لڑنے یا پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔ یہاں بھی وہی حال ہے۔ پیچھے ہٹنے کا راستہ بھی نہیں ہے کیونکہ سب آگے جانا چاہتے ہیں۔ بھاری ٹریفک بھی ہے، ٹرالر بھی، ٹینکر بھی، ڈبل کیبن، قیمتی گاڑیاں، سرکاری نمبر کی جیپیں، عام کاریں، رکشوں، موٹر سائیکلوں نے تو اور زیادہ راستے مسدود کردیے ہیں۔ اِن پر جیالے، متوالے، پروانے، دیوانے سوار ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ اُنہیں کِک مارکر آوازیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔

اِس بھیڑ میں تنہا لوگ بھی ہیں، اہل خانہ بھی۔

یہ ٹریفک جام از خود ہو گیا ہے یا کسی نے کروایا ہے۔ خفیہ طاقتوں کا کیا دھرا ہے یا کوئی بین الاقوامی سازش ہے لیکن یہ حقیقت ہے، بڑے بڑے حکمران بھی اِس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اُن کے پائلٹوں کے سائرن، ہوٹر بھی کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر بھی جوشِ جمہور میں آکر اِس ٹریفک جام کا حصّہ بن گئے ہیں۔ دور دور تک کوئی ٹریفک سارجنٹ یا کانسٹیبل نظر نہیں آرہا ہے۔ آئے بھی تو کیا کرلے گا۔ کوئی گاڑی کوئی ٹرالر اپنی قطار میں نہیں ہے۔ سب ٹیڑھے میڑھے راستہ روک رہے ہیں۔ لیڈر لوگ یہیں سے اپنے بیان داغ رہے ہیں۔ چینلوں کے کیمرہ مین، رپورٹر، نیوز ریڈر اور اینکر پرسن یہیں پہنچ گئے ہیں۔ وہ اِس صورت حال سے خوش ہیں۔ ریٹنگ بڑھ رہی ہے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ٹریفک جام کون کرواتا ہے۔ ہمیں علم ہے کہ پوری قوم بھی اس ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہ اُن دونوں سیاسی جماعتوں کی ملک دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ موٹروے کسی قوم کی تقدیر نہیں سنوار سکتے۔ اصل مسئلہ کرپشن کا ہے۔ ہم اس کا خاتمہ کرکے رہیں گے۔ کتنا ہی سخت ٹریفک جام ہو جائے۔ ہم کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔

اب کیمرہ مین، رپورٹر گاڑیاں، رکشے پھلانگتے ایک اور ڈبل کیبن کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ وہاں سے کہا جارہا ہے حکمراں بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔ ایک سڑک تو کھلوا نہیں سکتے۔ یہ سلیکٹڈ لوگ کسی کو این آر او دینے کی پوزشن میں ہی نہیں ہیں۔ ہم نے کبھی این آر او نہیں مانگا۔ ہم اِس نا اہل حکومت کو گرا کر ہی دم لیں گے۔ رکشوں، چنگچیوں میں بیٹھے بزرگ، نوجوان، مائیں، بہنیں، بچے سب تالیاں بجارہے ہیں۔ بھول چکے ہیں کہ وہ ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مزدوروں کو کارخانے جانے میں دیر ہورہی ہے۔ یونیفارموں میں بچے اسکول سے لیٹ ہورہے ہیں۔ بیان بازی نے اُن کو اصل مسئلے سے دور کردیا ہے۔ ایڈہاک ازم زوروں پر ہے۔ لمحۂ موجود ہی سب کچھ ہے۔

پہلے بھی ٹریفک جام میں پھنسے حکمراں اور مخالف صرف سرخیوں میں رہنا چاہتے تھے۔ اگر کچھ کرتے تو یہ ٹریفک جام نہ ہوتا، متبادل راستے ہوتے، صرف یہ دو راستے نہ ہوتے۔ ایک تو کرسی پر ڈٹے رہنا، دوسرے کرسی پر بیٹھے کی چولیں ہلانا۔ نہ پارٹی کو ملک گیر سطح پر منظم کرنا، نہ کوئی طویل المیعاد پالیسیاں بنانا۔ ٹریفک جام میں پھنس کر تو صرف یہی فکر ہو سکتی ہے کہ اس سے نکلیں کیسے لیکن ٹریفک جام میں ہی اگر آپ کے بیانات، پیغامات نشر ہو سکتے ہیں پھر ٹریفک جام ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پائیداری اور دوام سے ہم خوف زدہ رہتے ہیں۔

ذہن حکمرانوں کے ہوں، عام لیڈروں کے یا عوام کی اکثریت کے، وہ ٹریفک جام کے یرغمال ہیں۔ یہ سوچ حاوی ہو گئی ہے کہ اِس طرح سڑک پر بلا ارادہ پڑے رہنا ہمارا مقدر ہے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ کچھ تنظیموں نے یہیں ٹریفک میں پھنسے غریبوں، ناداروں کو بریانی کی تھیلیاں اور پانی کی بوتلیں دینا شروع کردی ہیں۔ اکثریت کھانے پینے میں مصروف ہو گئی ہے۔ بڑی گاڑیوں والے سمجھدار ہیں۔ اُن کے پاس منرل واٹر کی بوتلیں ہیں۔ فاسٹ فوڈ آرڈر پر بھی منگوارہے ہیں۔ ایئر کنڈیشنڈ بسوں میں قائمہ کمیٹیاں تشکیل کردی گئی ہیں۔ وہ ٹریفک جام کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے رہی ہیں۔ اُن کی سفارشات کی روشنی میں طے کیا جائے تاکہ ٹریفک جام کو فوراً ختم کیا جائے یا مرحلہ وار۔ اخباروں کی سرخیوں میں رہنے والے اب چینلوں کے ٹکروں میں رہ کر خوش ہیں۔

بہت سے ادارے، یونیورسٹیاں، تجربہ گاہیں، تحقیقی ادارے جو طویل المیعاد منصوبوں کے لئے کام کررہے ہیں۔ اُن پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ کوئی بڑی دریافت ہورہی ہے، تحقیق ہورہی ہے تو اسے میڈیا نشر کرنے کے قابل نہیں سمجھتا کہ اس سے ریٹنگ نہیں ملتی۔ ریٹنگ تو اُس ٹریفک جام سے ملتی ہے، لیڈروں کے بیانات سے، ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے سے، ٹریفک جام کے مناظر دکھانے سے۔ تاریخ کے گزشتہ ادوار میں ہونے والے ٹریفک جاموں کے مناظر سے جو نیٹ پر دستیاب ہیں۔ اگر سڑک کھل گئی، ٹریفک معمول کے مطابق چلنے لگا، لوگ دفتروں، کارخانوں، گھروں پر وقت پر پہنچنے لگے، مستقبل کے منصوبے بننے لگے تو سب کچھ معمول پر آجائے گا۔ پھر اس احتجاج، بیان بازی کی ضرورت کیوں ہونے لگی، پھر ریٹنگ کیسے ملے گی۔

لیڈر شپ دونوں طرف کی ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی ہے۔ راستہ اُنہیں بھی نہیں مل رہا ہے تو وہ مسائل میں گھری قوم کو راستہ کیسے دکھائیں۔ ٹریفک جام کرنے والے ہنس رہے ہیں۔ بھیک مانگنے والوں کی چاندی ہو گئی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)