کتابوں کا حصار

October 16, 2020

جب چاروں طرف افراتفری کا راج ہو، تو مَیں اپنے اندر ڈوب کر زندگی کا سراغ پانے کی سعی کرتا اور کتابوں کے حصار میں پناہ لیتا ہوں۔ گوجرانوالہ میں عوام کے ’’غم خواروں‘‘ اور طاقت کے ’’میگ ساروں‘‘ کے درمیان بہت بڑا معرکہ بپا ہونے والا ہے جبکہ مَیں اپنے دور میں علم و تحقیق کے ایک بےمثال استاد ڈاکٹر صفدر محمود کی تازہ ترین تصنیف ’سچ تو یہ ہے‘ سبقاً سبقاً پڑھ رہا ہوں۔ یہ اپنے انداز کی ایک منفرد اور عظیم کتاب ہے جس میں اُن نام نہاد قلم کاروں اور دَانش وروں کی قائد ِاعظم کی شخصیت، پاکستان کی تخلیق اور حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال کے تصورِ نشاۃِ ثانیہ کے بارے میں پھیلائی ہوئی بدگمانیوں اور اِلزام تراشیوں کی ناقابلِ تردید تاریخی واقعات کی روشنی میں سخت گرفت کی گئی ہے اور اِن کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے سچ تک پہنچنے میں کٹھن منزلیں طے کی ہیں جس پر وہ قوم کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

وہ اناپسند لوگ جن کو پاکستان کے وجود سے کَد ہے، نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر بھر دینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ایسے ایسے افسانے تراش رکھے ہیں جن سے علامہ اقبالؒ اور قائد ِاعظمؒ کی عظیم المرتبت شخصیتوں کی حیثیت میں کمی آئے، پاکستان کا قیام خِطے کے مسلمانوں کے عظیم تر مفادات کے منافی نظر آئے۔ تاریخی صداقتوں سے بےخبر یہ دانش ور بڑے طمطراق سے جدید ذرائع ابلاغ پر پروپیگنڈا کرتے آ رہے ہیں کہ قائد ِاعظم ایک سیکولر شخص تھے، انگریزوں کے حلقہ بگوش تھے اور قراردادِ لاہور کا مسودہ چوہدری ظفراللہ خان نے وائسرائے کی ہدایت پر تیار کیا تھا۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ دستور ساز اسمبلی میں اُن کی گیارہ اگست کی تقریر پاکستان میں سیکولر نظام کے قیام کا اعلان تھا۔ وہ کسی تحقیق کے بغیر یہ بےپر کی بھی اڑاتے رہے کہ قائد ِاعظم نے جب گورنر جنرل کا حلف اٹھایا، تو قرآن کی تلاوت ہوئی نہ آدابِ محفل کا التزام کیا گیا۔ وہ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ قائد ِاعظم نے تاجِ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔ یہ فتنہ بھی اٹھایا گیا کہ پاکستان کے قیام کے وقت ریڈیو سے جگن ناتھ آزادکا ترانہ نشر ہوا۔ قائد ِاعظم پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انھوں نے ڈھاکہ میں اُردو کے حق میں جو تقریر کی تھی، وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنی۔ ہمارے قابلِ قدر محقق جناب ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی بےپناہ کاوش سے اِس گمراہ کُن پروپیگنڈے کا پردہ چاک کر دیا ہے اور علامہ اقبال اور قائد ِاعظم کا باہمی تعلق نہایت مدلل اور مؤثر انداز میں بیان کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ قائد ِاعظم نے علامہ اقبال کے خطبۂ الہ آباد کے بعد قیامِ پاکستان کا نصب العین اپنایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ ہے کہ پاکستان ارتقائی منازل طے کرتا ہوا ایک ناقابلِ شکست طاقت اور اسلام کاایک ناقابلِ تسخیر قلعہ ثابت ہو گا۔ انھوں نے حقائق تک پہنچنے میں جس جاں فشانی، عرق ریزی اور کوہ کنی سے کام لیا ہے، اِس نے ہماری تاریخ کو اعلیٰ روح کے ساتھ محفوظ کر لیا ہے۔

حُسن اتفاق سے میرے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر محمد اکرم شیخ طویل مدت کے بعد ملنے آئے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور پاکستان منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہ چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی تازہ تصنیف ’دینِ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات، قائد ِاعظم کا تصورِ پاکستان جدید اسلامی فلاحی ریاست کا قیام‘ مجھے پیش کی۔ کتاب کے طویل موضوع ہی میں اِس کی پوری عظمت اور اَفادیت سمٹ آئی ہے۔ اُن کی یہ مایہ ناز تحقیق اور تخلیق ہمارے عہد کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بڑی وضاحت سے یہ موضوعات زیرِبحث آئے ہیں کہ صراطِ مستقیم کیا ہے، اللہ تعالیٰ کو کن اوصاف کے حامل لوگ پسند اور کس قماش کے ناپسند ہیں، اسلامی ریاست کے بنیادی اصول کیا ہیں اور پاکستان ایک جدید فلاحی اور اِسلامی ریاست کیسے بن سکتا ہے۔ اِسی طرح فاضل مصنف نے قائد ِاعظم کے مختلف بیانات، پیغامات اور تقاریر سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کی تعمیر اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ انھوں نے 21؍اکتوبر 1939ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ مَیں چاہتا ہوں جب مروں، تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض اَدا کر دیا ہے۔‘‘ اسلام کا اِس قدر شیدائی کیونکر بےدین (سیکولر) ہو سکتا تھا؟

مصنف نے اپنے بارے میں لکھا ہے:’’مَیں نے اپنی پچاسی سالہ زندگی میں پاکستان کے مختلف اداروں میں کلیدی اسامیوں پر کام کیا ہے۔ مجھے زندگی کے ہر طبقے کے لوگوں سے ملاقات کے مواقع بھی میسر آئے۔ مجھے نظامِ حکومت، سیاست، عوامی مسائل اور دِیگر مشکلات کے بارے میں جاننے اور سمجھنے کا موقع ملتا رہا۔ پاکستان کے اندازِ حکمرانی کے مختلف مثبت اور منفی پہلو بھی سامنے آتے رہے۔ دوسرے ممالک بالخصوص چین کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے اُن کے سسٹم اور تیزرفتار ترقی کو سمجھنے کا موقع بھی ملا‘‘۔ اِن گراں قدر تجربات کی روشنی میں ڈاکٹر اکرم شیخ نے وزیراعظم عمران خاں کو خط لکھا ہے کہ آپ پاکستان کو ’ریاستِ مدینہ‘ کی طرز پر دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا آپ کو ایک مکمل پلان تشکیل دینا اور ایسے افراد کی ٹیم بنانا ہو گی جو اِس نیک کام کی انجام دہی میں سو فی صد مخلص، باصلاحیت اور تجربےکار ہوں۔ انھوں نے اپنی کتاب میں تفصیل کے ساتھ اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق نظامِ حکومت، نظامِ تعلیم و تربیت، نظامِ معیشت اور نظامِ سماجی عدل کے خدوخال بیان کیے ہیں جن پر دورِ جدید میں پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ وہ اِس امر پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ ضلع کچہری اور پولیس تھانے کا کلچر فوری طور پر تبدیل کرنا ہو گا کہ وہ نوآبادیاتی نظام کے عقوبت خانے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ تخلیق ہم پر درخشندہ مستقبل کے دروازے کھول سکتی ہے اور مسلمانوں کو پستی سے بلندی کی طرف سفر کا حوصلہ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔