نسلِ نو کی ترجیحات

October 23, 2020

اعزاز احمد

اکیسوی صدی اگرچہ اپنے ساتھ جدت لائی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اکیسوی صدی کی آمد سے ہمارے معیارات اور ترجیحات میں بھی نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ معیارات اور ترجیحات کی اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر نوجوان طبقے پر ہو ا ہے۔ نوجوان کے شب و روز کے معموالات میں کسی تخلیقی کام کے لیے کوئی جگہ نہیں بلکہ تمام تر وقت انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے بے مقصد کثرت استعمال سے ضائع کیا جا رہا ہے۔

آج کا نوجوان ملکی اور بین الاقوامی حالات سے یکسر لاعلم اور بے خبر توہے ہی لیکن حالات حاضرہ سے واقفییت حاصل کرنا اس کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہے ۔حالات حاضرہ سے اگر واسطہ پڑتا بھی ہے تو نہایت مجبوری کے عالم میں یعنی کسی مقابلے کے امتحان یا انٹرویو میں کامیابی کے لیے ایک دوکتب خرید کر لی جاتی ہیں اور ان کتب کا بھی امتحان میں یقینی کامیابی کی حد تک محدود مطالعہ کیا جاتا ہے۔

سیاست کسی دور میں نوجوانوں کا شغل سمجھا جاتا تھا اور کسی بھی تحریک کی کامیابی اور نا کامی میں نوجوانوں کو فیصلہ کن حثیت حاصل ہوتی تھی لیکن آج کے نوجوان کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ اس عدم دلچسپی نے نوجوانوں کا خبرو اخبار کے ساتھ تعلق ہی منقطع کر لیا ہے، چنانچہ اب خال خال ہی ایسے نوجوان نظر آتے ہیں جن کو باقاعدہ اخبار بینی کی عادت ہو۔ نوجوانوں کا اگر اخبار کے ساتھ کچھ تعلق موجود ہے بھی تو صرف کھیلوں اور شوبزکی خبروں والے صحفات تک ہی محدود ہے۔

اگر کسی قوم کے نوجوان اپنی ثقافت اور روایات کو پوری مضبوطی سے تھام لیں تو اس قوم کی روایات اور ثقافت کبھی مردہ نہیں ہوتیں۔ پاکستانی نوجوان نہ صرف یہ کہ اپنی روایات اور ثقافت کو فراموش کر چکے ہیں بلکہ یورپی اور مغربی روایت کا پوری خوشدلی سے اثر قبول کر رہے ہیں۔

یورپی و مغربی کلچر ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگیوں پر پوری طرح غالب آ چکا ہے، چنانچہ اب ہمارا مجموعی ریاستی ومعاشرتی نظام ہو یا انفرادی سطح پر ہمارا طرز رہن سہن، طرز لباس اور انداز گفتگو غرض یہ ’’تیرے صوفے ہیں افرنگی تیری قالیں ہے ایرانی‘‘ کے مصداق زندگی کے ہر ہر شعبے میں یورپی کلچر سے باقاعدہ رہمنائی لی جاتی ہے۔ہمارے نوجوان اپنی تمام تر صلاحتیں یورپی معیارات سے مطابقت پیدا کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔

ترجیحات اور معیارات کی اس تبدیلی نے نوجوانوں کا تاریخ وماضی کے ساتھ بھی ناطہ توڑ دیا ہے۔ زندہ اقوام کبھی اپنے ماضی سے رابطہ نہیں توڑتیں بلکہ قومی سطح پر ماضی کی تاریخ کسی بھی قوم کے لیے نصاب کی طرح ہوتی ہے، جس سے وہ قوم نہ صرف مستقبل میں راہنمائی لیتی ہے بلکہ حال کے متعلق بھی سبق حاصل کرتی ہے اور انفرادی سطح پر تاریخ کا مطالعہ ہی اسلاف اور آئیڈیل شخصیات سے تعارف کراتا ہے، چنانچہ آئیڈیل شخصیت نہ صرف انسان کے اندر ایک نیا ولولہ اور جذبہ پیدا کرتی ہے بلکہ کچھ کر گزرنے کی خواہش بھی اسی سے پیدا ہوتی ہے۔

حکومت کو چاہیے کے اخبارات، ٹی وی اور میڈیا کے دوسرے تمام ذرائع کو نوجوانوں کی تربیت اور اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے، قومی و مذہبی تقریبات میں نوجوانوں کو اپنی قومی اور مذہبی تاریخ سے روشناس کیا جائےاور اپنی ثقافت و روایات کو عملی طور پر فروغ دیا جائے۔

ہمارے اداروں میں غیر نصابی سر گرمیوں کے نام پر مختلف نوع کے کھیلوں،موسیقی اور رقص کا انتظام کیا جاتا ہے ۔لیکن نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا تی۔

کسی ملک کا تعلیمی نظام اس قوم کی کردار سازی اور ترقی اور تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حکومت کو چاہئیے کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوںکے نصاب کو ازسرِنو اس طرح مرتب کیا جائے جو نہ صرف علوم جدید پر مشتمل ہو بلکہ عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو ، اسلامی تعلیمات اور علوم کا ذخیرہ ہو، ملکی و عالمی تاریخ کے مضامین پر مشتمل ہو اور ساتھ ساتھ معلومات عامہ اور اصلاح و تربیت کا بھی ضامن ہو، مزید یہ کے ایسے تمام مضمون تمام درجوں کے طلباءکو بطور لازمی مضمون کے پڑھائے جائیں۔

نوجوانوں کی تربیت کی بڑی ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن افسوس آج والدین نہ صرف بچوں کے مغربی طرز حیات پر شاداں ہیں بلکے باقاعدہ حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔والدین کو اپنی ذمے داری کا احساس ہو جائے اور وہ اپنی ترجیحات کو درست کر لیں تو پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔

والدین بالخصوص ماؤں کا کسی معاشرے کی بہتری میں نہایت اہم کردار ہوتا ہے ،چنانچہ علامہ اقبال نے مسلم خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اے مسلم خاتوں،تو اگر حضرت فاطمہؓ جیسا کردار اختیار کر لے تو تیری گود میں حضرت حسن اور امام حسین جیسے پھول کھلیں گے۔‘‘

تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:

زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔

ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میں آپ اپنے تلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔

ہمارا پتا ہے:

’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔