آٹا بحران: وجوہات اور حل

October 24, 2020

قارئین کرام! گزشتہ ایک ہفتے کی حالات حاضرہ کی ملکی خبروں اور اس کی کوریج کے مجموعی انداز اور فالو اپ میں ترجیح کے تعین سے بالکل واضح ہوگیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم بہت بھٹک گئے ہیں۔ ہماری حکومت، ہماری سیاسی جماعتیں، ہمارے قومی ادارے (غرضیکہ ہم سب) جو جتنا بمطابق آئین ذمے دار، وہ اتنا ہی مطلوب سمت راہ کی مخالف سمت میں تیز تیز قدم بڑھا رہا ہے۔ بڑی تشویش یہ کہ صراط مستقیم کی مخالف سمت میں چلتے بڑھتے ہر کسی کو یقین ہے کہ ہماری راہ ہی درست ہے۔ کوئی ایک ایسا سچا پکا رہبر بھی نہیں کہ جس کے ہمسفر بن کر ہم پورے اعتماد اور ایمان سے یہ کہہ سکیں ’’قدم بڑھائو... ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کہ یہ ہمارے سیاسی ابلاغ کا کامن سلوگن ہے۔ آئیں!دعا کریں ’’کیپٹن (ر) صفدر ایشو‘‘ جس پر بڑی بڑی پگڑی والوں کی تین کمیٹیاں بن گئی ہیں، وہ جلد اپنا کام کامیابی سے مکمل کرلیں اور جو نتائج آئیں بس وہ خبر ہی نہیں، دعا ہے کہ اس کا میڈیا فالو اپ بھی مختصر ترین ہو، اور ہم حالاتِ حاضرہ کے فوری توجہ کے طالب خبری موضوعات کی طرف آ جائیں۔ جب آئیں تو ان پر میڈیاکوریج کا معیار بلند اور عوامی مفادات کا حامل ایسا فالو اپ آئے کہ روتے دھوتے کڑھتے سسکتے، بے بس، بے آسرا غرباء اور (اب) متوسط طبقے کی بھی اشک شوئی ہو جائے۔ کیا آٹا بحران بشکل آٹے کی قومی ضرورت کے مطابق عدم موجودگی، ڈسٹربڈ سپلائی چین، بڑھتی غیر قانونی اسٹوریج، ناجائز منافع خوری ، بے قابو نرخ، اس پر ہوتی سیاست اور غرباء پاکستان جو کروڑ ہا عوام الناس پر مشتمل ہیں، کی بے چینی، بے کسی انتہا کا توجہ طلب موضوع ہے۔

جتنے اخلاقی بحران میںہم مبتلا ہیں، اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ ہم پر رحم کرنے والا اور مہربان ہے۔ اس کی بڑی تصدیق جاری و عالمی وبا میں رہ جانے والی چوٹی کی محفوظ ترین پانچ سات اقوام میں ہوا۔ ہمیں بحیثیت قوم ایک دن اللہ کے حضور یومِ تشکر منانے کی توفیق تونہ ہوئی بلکہ اب جبکہ عالمی وبا کی دوسری لہر کا آغاز ہوگیا ہے اور پاکستان میں بھی گراف بڑھنا شروع ہوا ہے، ہماری قومی دھماچوکڑی تشویشناک حد تک زوروں پر ہے۔ جہاں تک تعلق جاری ’’آٹا بحران‘‘ کا ہے جو ’’کیپٹن(ر) صفدر ایشو‘‘ سےکئی گنا زیادہ سنجیدہ اور ایک جماعت، صوبائی حکومت یا حکمران پارٹی، دوسری سطح کے پارٹی لیڈر کے مقابل عوام الناس کا سب سے بنیادی (میجر ڈائٹ) مسئلہ ہے، خدا را اس پر کوئی سیاست نہ کی جائے، اگر بلیم گیم کے مطابق کوئی بھی کرپشن یا ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندازی کا مرتکب ہوا یا ہو رہا ہے، وہ اللہ سے ڈرے، اپنے انسانی رتبے کا پاس کرے اور شیطانیت کے اس لیول سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ان سیاسی اور دنیا داری کے حربوں دھندوں کو ترک کرے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ آٹا ہو یا دوسری بنیادی اشیائے خورو نوش کی مہنگائی اس کی وجوہات اپنے اپنے فیصد کے حوالے سے گورننس کے مسائل، کرپشن خصوصاً نااہلیت، بدنیتی، اسٹیٹس کو کی سیاست اور بعض باجواز قدرتی یا حالات کی مجبوری میں بٹی ہوتی ہے۔ ناچیز اپنے پیشہ ورانہ تجربے، پاکستانی سیاست کی خاصی فہم اور عوامی بے کسی و مجبوری اور حکومت و سیاست کے رویوں کے حوالے سے جاری غذائی قلت (بوجوہ) کے تجزیے کو نظر انداز کرتے ہوئے حل اور مجوزہ حکومتی اقدامات کی طرف آنا چاہتا ہے۔ اس کا تجزیہ (میرا نہیں) اور بھی حل کی طرف لانے کی بجائے حکومت و اپوزیشن کی بحث اور بلیم گیم کو بڑھائےگا۔حکومت پر تواتر سے جاری پالیسی میکنگ بمطابق نہ ہونے کی پھر نشاندہی کرتے ہوئے آٹا، چینی، دالیں، سبزیاں، گوشت، پولٹری کو گراس روٹ لیول پر باآسانی دسترس میں لانے کی تجاویز پیش کرنے سے پہلے ’’آئین نو‘‘ پھر وزیراعظم عمران خان سے اپیل اور مشاورت نہیں مطالبہ کرتا ہے کہ ہر وزارت کے امور پر پالیسی کو پالیسی میکنگ کی سائنس کے اطلاق سے تشکیل دیں، ماہرین سے پالیسی ڈاکو منٹ تیار کرکے اسمبلی میں لائیں۔ اس پر بحث کرائیں، منظور کرائیں۔ اپوزیشن نے گڑ بڑ کی تو ماری جائے گی، بشرطیکہ آپ کی پالیسی پرو پیپل ہوئی۔ پالیسی میکنگ میں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اہمیت دی جائے اور ڈاکو منٹس فائنل ہونے سے پہلے ان کی تجاویز اور مجوزہ مسودےپر لازماً رائے لی جائے۔ اب آٹا بحران کے حوالے سے کچھ تجاویز :

1۔ایگریکلچر اینڈ فوڈ سکیورٹی پالیسی کو مجموعی پالیسی میکنگ میں ترجیح دی جائے۔ اس کے لئے مقامی صورتحال پر نظر رکھی جائے اور مکمل سمجھنے والے متعلقہ اعلیٰ تعلیم یافتہ زرعی و غذائی پیداوار کے ماہرین کی خدمات بلاتاخیر حاصل کی جائیں۔ ’’ فوڈ سیکورٹی‘‘ کا مکمل یقین سالانہ بنیاد پر اولین ترجیح ہونی چاہیے۔2۔حکومت بڑے چھوٹے زمینداروں (خصوصاً چھوٹوں)کو چار پانچ سال تک سپورٹ پرائس دینے کےلئے بجٹ میں فوڈ سکیورٹی کو ترجیح پر لائے۔ 3۔معیاری ایگری ان پٹس کے آسان اور مطلوب مقدار میں حصول کو فی ایکڑ پیدا وار بنانے کے لئے معیاری بیج، کھاد،ا سپرے اور پانی کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔4۔اسٹوریج کے حجم میں اضافہ ان کے ذخیرے اور سپلائی کی کڑی اور شفاف مانیٹرنگ کا نظام وضع کیا جائے اور ساتھ ساتھ اسے ویب سائٹس پر لایا جائے۔5۔ہر فصل کا موسم آنے سے قبل اس کی نیشنل نیڈ کے درست ڈیٹا کے لئے متعلقہ ادارے کو فعال کیا جائے۔ ادارہ موجود نہیں تو قائم کیا جائے ۔ اسی کے مطابق محکمہ زراعت کسانوں کو مطلوب پیداوار پوری کرنے کی ترغیب کے لئے موثر ابلاغی مہمات بروقت چلائے۔ 6۔فارم ٹو اسٹوریج ٹو منڈی اور منڈی ٹو بازار تک کی سپلائی چین کی تمام تر تفصیلات کا ریکارڈ متعلقہ ویب سائٹ پر ہفتہ یا مہینے کی بنیاد پر تیار کرے۔7۔ افغانستان اور سنٹرل ایشیا کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ان کی حکومتوں اور درآمد کنندگان سے پیشگی رابطہ کرکے ان کی مانگ سے ایڈوانس آگاہی حاصل کرکے واضح کیا جائے کہ ہماری برآمد کی سکت کتنی ہے؟ برآمدی آٹے کا شعبہ علیحدہ قائم کیا جائے اور اس کی مانیٹرنگ کا سسٹم کڑا اورشفاف ہو۔ 8۔بھارتی پنجاب کی طرز پر بجلی، پانی اور کھاد سستی فراہم کرنے کے لئے حکومت گورنمنٹ، پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بجلی و پانی کی فراہمی اور کھاد کے کارخانے نیم سرکاری نگرانی میں قائم کرے۔ 9۔فی ایکڑ پیداوار بڑھانے اور گندم، چاول اور سبزیوں کی قیمتو ں کوکم کرنے اور ان میں استحکام کے لئے توسیع زراعت (ایکسٹینشن سروس) میں توسیع اور اس کی کیپسٹی بلڈنگ کو ممکن بنایا جائے۔ 10۔ زرعی تحقیق کے اداروں، زمینداروں اور کسانوں کے دوطرفہ رابطے کو بڑھانے اور اسے نتیجہ خیز بنانے کے لئے بیمار نظام پر توجہ دی جائے اور اسے بحال کیا جائے۔