’اسماعیل گل جی‘ خطاطی اور دنیائے مصوری کا رنگین باب

October 25, 2020

تصویری آرٹ، اسلامی خطاطی اور تجریدی آرٹ کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ مصور اسماعیل گل جی کو دنیائے مصوری میں رنگوںکے استاد اور’’ گل جی‘‘ کے نام سے جاتا ہے۔ ان کا شمار دنیائے مصوری کے ان چند استادوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ گل جی کو اسلامی خطاطی اور پورٹریٹ پینٹنگ میں کمال حاصل تھا۔ انھوں نے اسلامی خطاطی کا ایک نیا انداز متعارف کروایا جبکہ ایکشن پینٹنگ میں بھی ان کا فن مصوری شاہکار مانا گیا۔

گل جی 25اکتوبر 1926ء کو خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں پیدا ہوئے۔ چونکہ ان کے والد خود ایک انجینئر تھے، لہٰذا گل جی کے لیے بھی انجینئرنگ کے شعبے کا انتخاب کیاگیا۔ گل جی نے لارنس کالج مری سے تعلیم حاصل کی اور پھر سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے علیگڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاںسے انھوں نے بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایک ذہین طالب علم تھے، لہٰذا والد کی وفات کے بعد بھی مشکل معاشی حالات ان کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ انھیں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی جانب سے اسکالر شپ سے نوازا گیا،جس کے بعد وہ امریکا چلے گئے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انھوں نے مصوری کا آغاز کیا۔

نامور مصور گل جی نے اپنی پوری زندگی مصوری کی کوئی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، ان کا شمار "Self-taught Artist"میں ہوتا ہے۔ انھوں نے مصوری کا مزاج اپنے دادا سے پایا جو کہ واٹر کلر پینٹ آرٹسٹ تھے۔ گل جی نے فطرت کی رعنائیوں اور قوس و قزح سے لطف اندوز ہونا اپنے دادا سے ہی سیکھا۔ دوران تعلیم گل جی کی توجہ کا مرکز ان کا فن اور پینٹنگ برش رہتاتھا، انھیں ایسا محسوس ہوتا کہ رات کی تاریکی کا پس منظر انھیں کسی اور دنیا میں لے جاتا ہے اور ان کا فن ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس تاریکی میں گل جی نے ایسے حیران کن فن پارے تخلیق کیے کہ پہلی نگاہ جھپکنا بھول جاتی ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد جب اسماعیل گل جی پاکستان لوٹے تو اوٹاوا کے سفارت خانے میں سیکریٹری کی حیثیت سے شمولیت اختیار کرلی۔ اس دور میں انھیں فن مصوری کے لیے درکار وقت میسر آگیا۔ 1950ء میں گل جی کے فن پاروں کی پہلی نمائش منعقد کی گئی جس کے بعد گل جی نے اس مشغلہ کو ہی اپنا پیشہ بنالیا اور یہی پیشہ دنیا بھر میں ان کی مقبولیت کی وجہ بنا ۔ افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ نے پاکستان کے دورے کے دوران کراچی میں گل جی سے ان کا پورٹریٹ بنانے کی درخواست کی۔

اس پورٹریٹ کے ذریعے وہ گل جی کے فن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھیںپورے شاہی خاندان کا پورٹریٹ بنانے کے لیے افغانستان آنے کی دعوت دے ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے پرنس کریم آغا خان چہارم، ملکہ فرح، سلطان محمد شاہ ، سعودی عرب کے شاہ فیصل، امریکی صدر رونلڈ ریگن سمیت کئی نامور شخصیات کے پورٹریٹس بھی بنائے۔

1960ء میں انھوں نے اپنے تجریدی آرٹ کی پہلی نمائش کا انعقاد کیا، جس میں 151پینٹنگ پیش کیں۔ گل جی کا اپنی تصاویر میں مختلف غیر روایتی چیزوں کا استعمال اس فن میں دوسرے فنکاروں سے انھیں خاصا مختلف بناتا ہے۔ وہ آئل پینٹنگز میں شیشہ اور سونا چاندی کے ورق استعمال کرنے کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ 1960ء کے بعد گل جی نے پینٹنگز اور اسلامی خطاطی کے ساتھ ساتھ مجسمہ سازی کی طرف بھی توجہ دی جو اِن کی پینٹنگز کی طرح اسلامی خطاطی سے متاثر نظر آتی ہے۔

تانبے میں ڈھالے گئے یہ فن پارے اسلامی خطاطی سے نہ صرف دیکھنے میں متاثر لگتے ہیں بلکہ بعض قرآنی آیات کی تشریح کے طور پر تخلیق کیے گئے ہیں۔ ان کی خطاطی اور فن پاروںکے چند نمونے آج بھی پاکستان کی مشہور فیصل مسجد اور پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کی زینت ہیں۔ فیصل مسجد کے میناروں پر آویزاں چاند بھی گل جی کے ڈیزائن کردہ ہیں۔

فنِ خطاطی کے علاوہ گل جی موزیک اسٹائل ( فیروزہ، زمرد اور سنگِ مرمر سے تیارہ کردہ ) میں قدرتی منظر اور پورٹریٹ بنانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ گل جی تجریدی آرٹ کے حوالے سے بھی جانے جاتے تھے، ان کے دیوانہ وار اسٹروک ان کی پہچان تھے جو وہ ایکشن پینٹنگ کی تیاری کے دوران لگایا کرتے تھے۔ گل جی کی پینٹنگز چمکدار اور رنگوں سے بھرپور ہوتی تھیں، جن میں ان کی حساسیت اور شدتِ جذبات کی جھلک نظر آتی ہے۔

گل جی کو ان کی بے شمار خدمات کے سبب حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انھیں عالمی سطح پر بھی کئی اعزازات ملے۔

مصوری کے ایک استاد نے گل جی کی زندگی اور ان کے فن کو خوبصورتی کے ساتھ ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا، ’’ایک ایسا مصور جسے ہزاروں کے مجمعے میں بھی پہچان لیاجائے، ایک ایسا فنکا ر جس کی تخلیقات جدت اور فن کا ایسا سنہری باب ثابت ہوںجنہیں دیکھ کر ناظر ہر بارخوشی سے جھوم اٹھے، ایک ایسا مصور جس کی تصاویر زندگی کے مثبت پہلوؤں کی تائید کرتے ہوئے اس کا عکس لیے ہوں، ایک ایسا مصور جو جانے کے بعد پرستاروں کے دلوں میں چمکدار رنگوں کی طرح ہمیشہ زندہ رہے،گل جی کچھ ایسے ہی تھے‘‘۔