شاہکارِ عظمتِ انسانی

November 05, 2020

انسانی تاریخ میں عظمت کا شاہکار منظر نامہ ہمیں اُس وقت نظر آیا ہے جب حالتِ یتیمی میںاپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے، بےسروسامانی کے عالم میں رات کی تاریکی میں، اپنے گھر سے نکل جانے والے مکی مہاجر، ایک عظیم الشان فاتح اور حکمران کی حیثیت سے دس ہزار جانثار قدسیوں کے ساتھ اپنے اُسی شہر میں داخل ہو رہے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ سراقدس اونٹ کے کجاوے تک جھکا ہوا ہے۔ بدترین دشمن بھی اُس عظمت کو دیکھ کر پکار اٹھتا ہے کہ ”یہ کیسی عظیم الشان بادشاہت ہے“ مگر لِسان راستباز گویا ہوتی ہے۔ ”اے نادان! یہ بادشاہت نہیں نبوت ہے“۔ ظاہر بین نظروں والا چند ہی لمحوں بعد آوازِ نبوت سن لیتا ہے جب ایک فدائی پکارتا ہے کہ ”آج تو بدلہ لینے کا دن ہے“۔ عظیم الشان فاتح کی نگاہیں بلند ہوتی ہیں اور حکمِ رحمت صادر ہوتا ہے کہ پرچمِ سپاہ اِن سے واپس لے لیا جائے اور باضابطہ طور پر اعلان کروایا جاتا ہے کہ ”آج تو معاف کر دینے کا دن ہے“۔ اُسی مکہ میں یہ اعلان ہوتا ہے جہاں کیا کیا اذیت نہ دی گئی، عرصۂ حیات ایسا تنگ کر دیا گیا کہ مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔

یہ سید البشرؐ کسی کی اچھائی کو پرکھنے کے لئے معیار کیسا بتلاتے ہیں ”یہ دیکھو کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کتنا اچھا ہے“۔ اِس سوال کے پوچھے جانے پر کہ آپ کو دنیا کے زندہ موجود لوگوں میں سب سے پیارا کون ہے؟ بےدھڑک اپنی زوجہ محترمہ کا نام لیتے ہیں، عائشہؓ۔ پوچھنے والا شاید کسی اور کا نام سننا چاہتا ہے سو سوال: دہراتا ہے کہ ”عائشہ کے بعد کون؟“ جواب ملتا ہے ”عائشہؓ کا باپ‘‘ حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کی رفاقت اور وفا شعاری کو آپؐ کبھی فراموش نہ کر پائے۔ کسی نے ذکر وفا کیا جب تو زباں پر انہی کا نام آیا۔ ان کی یادوں میں بیٹھتے تو دل بھر آتا۔ کیا مل سکتی ہے اس دور کے پورے سماج سے وفا کی ایسی کوئی ایک مثال؟

زندگی بھر پیغمبر اسلام کا دیگر اقوام و مذاہب کے ساتھ رویہّ دلبری کا رہا یا دل شکنی کا؟ بلاشبہ آپؐ نے جہاد کیا اور تاقیامت جہاد جاری رکھنے کی ہدایت موجود ہے لیکن یہ کونسا جہاد تھا؟ کہیں یہ اپنے نفس کے خلاف اور اپنے ہم نفسوں کی اصلاح کے لئے تو نہیں تھا اور خارجی لحاظ سے یہ کن کے خلاف تھا؟ آزادیٔ فکر اور انسان نوازی کی اِس آوازِ حق کے اُن منکرین کے خلاف تو نہیں تھا جو جبر، خوف اور دہشت کے ذریعے فکری و نظری آزادی کے اِس پیغام کو روک دینا چاہتے تھے؟ کیا اہلِ مکہ سے آپ کی لڑائی اس لئے تھی کہ اسلام کیوں قبول نہیں کرتے ؟ ہرگز نہیں جو شخص ایسے کہتا ہے وہ اسلام اور پیغمبرؐ اسلام پر (معاذاللہ)بہتان باندھتا ہے، آپؐ نے تو بہت شروع میں وہیں مکہ میں ہی اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے علانیہ طور پر صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ”تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین“۔ اسلام نے تو یہ واضح کر دیا تھا کہ تبدیلی مذہب یا قبولِ اسلام کا معاملہ سراسر ضمیر کا معاملہ ہے، اگر ضمیر مانتا ہے تو اِس نئی فکر کو قبول کرو، ورنہ انکار کر دو۔ مجبوری اور مصلحت کے تحت جھوٹ موٹ مسلمان ہونے والوں کو منافقین کہا گیا اور اُن کا مقام کھلا انکار کرنے والوں سے کہیں برا بتلایا گیا، کیا قرآن میں یہ سب کچھ موجود نہیں ہے؟ قرآن نےہمیشہ کے لئے یہ اصول طے نہیں کر دیا ہے کہ ”لااکراہ فی الدین“ یعنی دین کے معاملے میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں ہے، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر جنگ کیوں لڑی تھی؟ لڑائی کیا تھی؟ جھگڑا کس بات پر تھا؟ جھگڑا اِس بات پر تھا کہ تب کے روایتی مذہبی لوگ پیغمبر اسلامؐ کو نئی فکر پھیلانے اور اپنے خیالات عامہ الناس تک پہنچانے کا بنیادی حق نہیں دے رہے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہمارے آباؤ اجداد اور اسلاف جس دین پر تھے، جو طرزِ زندگی اپنائے ہوئے تھے، اُس کے خلاف کوئی آواز اُٹھنے نہ دیں گے۔ قرآن کی زبان میں اُنہیں سمجھایا گیا کہ دیکھو اگر تمہارے بزرگ غلطی پر تھے اور حقائق سے دور تھے تو کیا اُس غلطی کو واضح نہ کیا جائے؟ لیکن قبائلی تعصب میں روایت پرستی کا اتنا زور تھا کہ اُنہوں نے اِس نئی آواز پر طرح طرح کے الزامات لگانا شروع کر دیے اور جبر کا سہارا لیتے ہوئے اُسے روکنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ پیغمبر اسلامؐ کو مدینہ منورہ کا رُخ کرنا پڑا مگر وہاں بھی وہ اُن جدید خیالات کے پھیلنے کو برداشت نہ کر پائے، ریشہ دوانیاں شروع کر دیں، اُس آبادی میں موجود آپؐ کے مخالفین سے رابطے کئے اور پھر بدر کے میدان میں مسلح جتھہ لے کر پہنچ گئے۔ اب اگر اِس کا مقابلہ نہ کیا جاتا تو کیا کیا جاتا؟ یہ ہے جہاد کا سارا پس منظر اسلام کی ”دعوتِ توحید“ کا فطری عملی مظہر ”وحدتِ انسانی“ ہے۔ شرفِ انسانی، فلاحِ انسانی اور بہبودِ انسانی جس کے لازمی تقاضے ہیں۔ پیغمبرؐ اسلام نے کھلا اعلان فرمایا کہ میں تم لوگوں پر پابندیاں لگانے نہیں پابندیاں ہٹانے آیا ہوں۔ اب آج کوئی مائی کا لعل اِس حقیقی انسانی دعوت کو لے کر اُٹھے، دیکھتے ہیں، کون ہے جو اِس کا انکار کرتا ہے؟