علامہ اقبال کی نظموں میں اخلاقی سبق

November 08, 2020

عثمان میر

پیارے ساتھیو! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے قومی شاعرعلا مہ اقبال ہیں۔ ان کی آفا قی شاعری اگر ایک طر ف انفرادی کر دار کے تعمیر و تشکیل پر زور دیتی ہے تو دوسری طرف قوم کی تقد یر کو بدلنے کے لیے جدوجہد پر آمادہ کر تی ہے،ساتھ ہی انہوں نے بچوں کے حسا س ذہن کو بھی نہایت دل نشین پیرا ئے میں مخاطب کیا ۔ بچوں کی نظموں میں احترام انسانیت ، خدمت خلق، بھلائی و خیر خواہی وقت کی قدر ، خوداری اور سیدھی راہ پر چلنے کا درس جا بجا ملتا ہے۔

ان نظموں میں سرفہرست ’’بچے کی دعا‘‘ہے۔ علم سے محبت، وطن کی خد مت ،بڑوں کا احترام اور کمزوروں اور ناداروں کی مدد کرنا وہ اوصاف حمیدہ ہیں، جن کو اگر طالب علمی کے زمانے ہی سے اپنالیا جائے تو یہ تاحیا ت کام آتے ہیں ۔

نظم ’’ہمدردی کا تو مضمون ہی اول تا آخر مصیبت کے وقت دوسروں کے کام آنا ہے۔ نیز اس نظم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ صلاحیتوں کو انسانیت کی بھلائی کے لیے وقف کر نے کا پیغام ملتا ہے۔

اس نظم میں ایک بلبل سارا دن اڑنے اور دانہ چگنے میں مصروف رہتا ہے۔ اتنے میں شام ہو جاتی ہے اورا ندھیر اچھا جا نے کی وجہ سے واپسی کی راہم گم کر بیٹھتا ہے۔ اسی پر یشانی میں وہ شاخ پر بیٹھا ہو تا ہے کہ ایک جگنو اس کی اداسی کا سبب جان کر اپنی خد ما ت پیش کر تا ہے۔

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے

کیڑا ہوں اگر چہ میںذرا سا

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری

میں راہ میں روشنی کر وں گا

اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل

چمکا کے مجھے دیا بنایا

اس طرح اللہ تعالیٰ نے جگنو کو چمکنے کی جو صلاحیت دی ہے اس کی روشنی میں وہ بلبل کو اس آشیانے تک پہنچا دیتا ہے۔

نظم ایک پہاڑ اور گلہری میں علا مہ اقبال ؒ پہاڑ اور گلہری کے درمیان مکالمے کے ذریعے سے غرور اور تکبر سے بچنے کا درس دیتے ہیں۔ اس نظم میں پہاڑ متکبر انہ انداز میں گلہری کو مخاطب کر تے ہوئے کہتا ہے:

تری بساط ہے کیا میر ی شان ے آگے

زمین ہے پست میری آن بان کے آگے

جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہےنصیب کہاں

بھلا پہاڑ کہاں ، جا نور غریب کہاں

اس کے جواب میں گلہری کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو مختلف صلاحیتوں سے نواز ا ہے اور یہ اس کی حکمت ہے کہ کسی کو بڑا اور کسی کو چھوٹا بنا دیا ہے اور اس پر گھمنڈ کر نا ٹھیک نہیں ہے

کہا یہ سن کر گلہری نے منہ سنبھال ذرا

یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا

نہیں ہے تو بھی تو آخر مر ی طرح چھوٹا

غرور اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے۔ بچے معاشرتی اونچ نیچ سے نا بلد ہو تے ہیں اس وجہ سے بسا اوقات وہ اپنے ساتھیوں کے سامنے کسی فطری بر تری پر اتر انا شروع کر دیتے ہیں اس نظم میں اس خا می کو دور کر نے کا درس ملتا ہے۔