یوم پیدائش پر خصوصی مضمون ’’کرشن چندر‘‘

November 23, 2020

کرشن چندر کا شمار اردو کے صفِ اول کے تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں، ناولوں اور رپورتاژوںکے ذریعے اپنے جس بے کنار تخلیقی وفور کا مظاہرہ کیا اور اردو ادب کو جو بلنگ پایہ شاہکار عطا کیے اُن کے طفیل ادب کے قارئین ان کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔کرشن چندر نے بہت لکھا اور بہت زیادہ لکھنے والوں کے ساتھ ہمیشہ یہ مسئلہ بھی درپیش رہا ہے کہ ان کے لیے اپنا ایک معیار برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے ۔کرشن چندر پر بھی بالعموم یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے بہت معیاری تحریروں کے ساتھ ساتھ ایسی تحریریں بھی سپردِ قلم کیں جو ان کے معیار سے کم تر درجے کی تھیں۔اس سلسلے میں جواز بھی پیش کیے جاسکتے ہیں ۔

مثلاً یہی کہ لکھنا لکھانا ان کا مشغلہ ہی نہیں ، پیشہ اور روزگار بھی تھا سو جہاں بہت کچھ گرمی ٔ ِ شوق اور تخلیق کے کرب نے لکھوایا وہیں بے شمار تحریریں شکم کی آگ نے لکھوائیں۔اور یہ بھی ہے کہ کرشن چندر تاریخِ ادب کے کوئی پہلے زود نویس نہیں تھے ۔ہر زمانے اور ہر ادب میں ایسے بے شمار تخلیق کار مل جاتے ہیں جو اپنے پیچھے تخلیقات کا پورا انبار چھوڑ کر گئے ۔البتہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ایسے لکھنے والوں نے جو اچھا لکھا اور جوان کی نمائندہ تخلیقات قرار پائیں ، وہ کتنی اچھی اور کس معیار کی حامل تھیں۔ اس نظر سے دیکھیں تو کرشن چندر کی بھی ایسی تحریروں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی ۔

کرشن چندر ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے ۔ا ن کا آبائی وطن پنجاب کا شہر وزیرآباد تھا۔ مگر کم سنی اور بچپن کا کافی حصہ چونکہ انہوں نے کشمیر میں بسر کیا لہٰذا کشمیر ان کے رگ و ریشے میں اتر گیا اور کشمیر کی گہری یادیں تمام عمر ان کی رفیق رہیں۔کشمیرہی نے اُن کے کئی افسانوںاور ناولوں کا تناظر اور لوکیل فراہم کیا۔۸ مارچ۱۹۷۷ء کو کرشن چندر نے جب بمبئی میں رحلت پائی تو ان گنت لازوال کہانیوں اور ڈراموں،رپورتاژوں اور دوسری تخلیقات کا ایک ایسا بڑا سرمایہ وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر گئے جس میں وہ شاہکار بھی شامل تھے جنہوں نے پڑھنے والوں کی اگلی نسلوں کو بھی اپنی طرف متوجہ رکھا۔کرشن چندر کی ان لافانی تخلیقات نے اُن کے اور اُن کے قارئین کے درمیان ایک ایسا محکم رشتہ قائم کردیا جو بڑے ادیبوں کی تخلیقات ہی سے قائم ہوتا ہے ۔

کرشن چندر کی تخلیقات کے نمایاں پہلوئوں پر سرسری نظر ڈالنے سے پہلے نامناسب نہیں ہوگا کہ ان کی چند نمائندہ ترین تحریروں کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے ۔محققین کے مطابق کرشن چندر کا پہلا افسانہ تو ’یرقان‘ تھا جو لاہور کے، اپنے زمانے کے معروف رسالے ’ادبی دنیا ‘ میں شایع ہوا جبکہ پہلا ڈرامہ ’حجامت ‘ جو روسی مصنف اندریف کے ڈرامے سے ماخوذ تھا،۱۹۳۷ء میں شایع ہوا ۔ انہوں نے افسانوں ، ناولوں ،سفرناموں اور ڈراموں کے علاوہ فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں ۔ان کے افسانوں کے مشہورمجموعے ’آدھے گھنٹے کا خدا ‘ ، ’اجنتا سے آگے ‘ ،’ پھول کی تنہائی‘، ’ٹوٹے ہوئے تارے ‘، ’زندگی کے موڑ پر ‘ ، ’ طلسمِ خیال ‘ ، ’ ہم وحشی ہیں ‘ ، ’ نغمے کی موت‘ وغیرہ ہیں۔ان کے کچھ افسانے دائمی اہمیت کے حامل بن چکے ہیں ۔’مہا لکشمی کا پُل ‘،’ ٹوٹے ہوئے تارے‘،’پشاور ایکسپریس‘، ایک طوائف کا خط، پنڈت جواہرلال نہرو اور قائداعظم محمد علی جناح کے نام ‘ ، ’ دو فرلانگ لمبی سڑک‘، ’جہلم میں نائو پر ‘ ، ’پانچ روپے کی آزادی ‘ ہمیشہ زندہ رہنے والے افسانے ہیں ۔ان کے ناولٹ اور ناول نسبتاً بڑے کینوس پر بڑی کہانیوں کو سموتے ہیں ۔’ آسمان روشن ہے ‘، ’ایک وائلن سمندر کے کنارے‘،’جب کھیت جاگے‘، ’دادر پُل کے بچے‘،’آسمان روشن ہے ‘، ’دل کی وادیاں سوگئیں‘، ’غدار‘، اور ’شکست‘ ان کے نمائندہ ناول ہیں ۔کرشن چندر نے رپورتاژ کم لکھے لیکن ان کا ایک ابتدائی رپورتاژ ’پودے‘ جو انجمن ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں شمولیت کے لیے جانے اورواپس آنے ،نیزکانفرنس کی روداد پر مشتمل ہے ،ایک عرصہ ادبی حلقوں میں زیر بحث رہا اور بارہا اس کا بعد میں آنے والوں نے اپنی تحریروں میں حوالہ بھی دیا۔

کرشن چندر کی تحریروں کے موضوعات بہت متنوع ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں اسلوب کے تجربات بھی بہت کیے ہیں ۔ان تخلیقات پر مختلف زاویوں سے گفتگو ہوسکتی ہے لیکن ایک مختصر مضمون میں ہم صرف دو پہلوئوں تک کرشن چندر سے متعلق اپنی گفتگو کو محدود رکھیں گے۔ ان میں ایک تو ان کی کہانیوں کی عمومی رومان پرورفضا ہے اور دوسرا ان کا بنیادی نقطہ نظر اور مسلک جو انسان دوستی کی فکر سے اپنی آبیاری کرتا ہے۔

کرشن چندر کی کہانیوں کی فضااور ان کا لوکیل بالعموم فطرت کے مناظر سے فراہم ہوتا ہے۔یہی نہیں بلکہ فطرت ان کے نظامِ فکر میں بھی ایک اہم مقام رکھتی ہے۔سورج کا طلوع و غروب، شام کا سکوت اور رات کی سیاہی،سرسبز وادیاں اور خوبصورت جھرنے،کھیتوں کی سرسبزی،پہاڑوں کی بلندی اور سمندر کی وسعت، یہ سب کرشن چندر کے لیے محض فطرت کے مناظر نہیں تھے_ان مناظر کے بیان میں انہیں یدِ طولیٰ بھی حاصل تھا، مگر یہ مناظرِ فطرت جب ان کے یہاں انسانی صورت حال کے ساتھ آمیز ہوتے ہیں تو ان کا فلسفۂ حیات اجاگر ہوتا ہے ۔

ایک تو فطرت کے اندر موجود ترتیب اور آہنگ اُن کو انسانی حیات کے اندر مقصد کی تلاش اور حقیقت نگاری پر مائل کرتا ہے ۔پھر انسانی صورت حال کی بے بضاعتی بھی ان پر اس وقت زیادہ واضح ہوتی ہے جب وہ فطرت کے حسنِ ترتیب اور انسانی معاشرے کی اونچ نیچ اور تضادات کا موازنہ کرتے ہیں ۔ایک موقع پر خود انہوں نے کہا کہ__’واقعیت اور حقیقت نگاری کا پہلا درس بھی مجھے ایک طرح سے فطرت نے ہی دیا۔کشمیر میں رہنے والوں کی مجبوری، بے چارگی اور غربت کا تضاد اس قدر واضح اور شدید تھا کہ میں سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ ایسا کیوں ہے ۔‘ایک موقع پر میکسم گورکی سے اپنے متاثر ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کرشن چندر نے لکھا کہ__’میری زندگی میں گورکی بعد میں آئے ، فطرت کا گزر پہلے ہوا۔‘

فطرت سے قربت نے کرشن چندر کو زندگی اور انسانیت سے قریب کرنے میںاہم کردار ادا کیا اور جب ایسا ہوا تو فطرت اور اس سے پھوٹنے والا احساسِ جمال ان کے لیے کوئی خیالی چیز بن کر نہیں رہ گیابلکہ اس نے فطرت کے رنگوں میں زندگی کی بدرنگی دیکھنی شروع کردی۔’طلسم ِ خیال‘ کی عورتیں خوبصورت ہیں مگر کرشن چندر ان کرداروں کو ان کی غربت سے الگ کرکے کوئی خیالی رومان پرور کردار تخلیق نہیں کرتے۔’ٹوٹے ہوئے تارے‘کی عورتیں افلاس کے ہاتھوں خود کو ڈاک بنگلوں میں استراحت کے لیے آنے والے مردوں کے سپرد کرتی ہیںتو مناظر کا سارا حسن عورت کی بے چارگی اور افلاس کی حقیقت میں تحلیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ڈاکٹر قمر رئیس نے کرشن چندر کے بارے میں کتنا درست لکھا_’ایسا جادوگر جو ذہین سے ذہین قاری کو بھی حسن و عشق کی رنگینیوں اور فطرت کی رعنائیوں کی سیاحت کراتا ہوا چپکے سے زندگی کی المناک حقیقتوںکے دہانے پر لاکھڑا کرتا ہو۔جس کی رواں دواں حقیقتوں میںحریر واطلس کی نرمی اورتیرو نشتر کی تیزی ہو۔‘

کرشن چندرطبقاتی امتیازات کے خلاف لکھتے رہے ۔انہوں نے ایک طرف اپنے کرداروں کے ذریعے سرمایہ داروں کی دولت پرستی اور استحصالی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا وہیں دوسری طرف انہوں نے محنت کشوں اور عسرت میں زندگی گزارنے والوںکے شب و روز کی حقیقی تصویر یں بھی پیش کیں۔ ’مہالکشمی کا پُل‘ طبقاتی تقسیم کو بڑی فنکارانہ مہارت سے پیش کرتا ہے ۔پُل کے دائیں طرف کے جنگلے پرامیروں کے بنگلے میں رہنے والی خواتین کی ساڑھیاں سوکھ رہی ہیں جب کہ دوسری طرف غریب بستیوں کی چھہ عورتوں نے خود اپنی ساڑھیاں سوکھنے کے لیے ڈال رکھی ہیں۔پُل کے نیچے سے ابھی ابھی وزیراعظم کی ٹرین گزری ہے۔افسانے میں کہانی کار نے چھہ کی چھہ غریب عورتوں کے کوائف درج کیے ہیں ۔ افسانہ نگار کا آخر میں صرف یہ کہنا کافی ہوتا ہے اور اسی پر افسانے کا اختتام ہوتا ہے کہ__’دیکھیے! میں آپ سے اشتراکی بننے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں، میں آپ کو جماعتی جنگ کی تلقین بھی نہیں کررہا ہوں، میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ مہالکشمی کے پُل کے دائیں طرف ہیں یا بائیں طرف۔‘

کرشن چندر کی انسان دوستی اُس وقت اور کھُل کر سامنے آئی جب انہوں نے تقسیم ہند کے وقت پھوٹ پڑنے والے فسادات پر افسانے لکھنے شروع کیے۔ان کے افسانے ’پشاور ایکسپریس‘، ’ایک طوائف کا خط‘، ’امرتسر آزادی سے پہلے امرتسر آزادی کے بعد‘،’جانور ‘ اور ’جیکسن‘ ، اور ان کا ناول ’غدار‘ ایسی تخلیقات ہیں جو فسادات کی منظر کشی بھی کرتی ہیں اورانتہائی سفاک صورت حال میں انسان اور انسانیت کی موجودگی کی اطلاع بھی دیتی ہیں۔اور پھر یہ بھی کہ یہ تخلیقات خود فسادات کی تاریخ نویسی کے لیے بھی ایک اہم ماخذ کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔ دنیا کی زندہ جامعات کے تاریخ کے شعبے فسادات کی تاریخ پڑھاتے ہوئے سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی اور راجندر سنگھ بیدی کے ساتھ کرشن چندر کے افسانوں اور ناولوں کوبھی شاملِ نصاب رکھتے ہیں۔

کرشن چندر پر بعض نقادوں نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں منظر کشی کا ایسا جادو جگاتے ہیں کہ کہانی یا تو بن ہی نہیں پاتی یا پھر آگے نہیں بڑھتی۔کرشن چندرکی جادو اثر تحریر اور خاص طورسے مناظر فطرت کی اُن کی پُرشغف پیشکش سے تو کوئی انکار نہیں، بلکہ یہ تو ان کا ایک اہم وصف ہے ۔لیکن یہ کہنا کہ وہ کہانی پر ضروری توجہ نہیں دیتے قرینِ انصاف نہیں ۔ ضروری نہیں کہ ان کی کہانیاں ڈرامائی موڑوں سے آراستہ ہوں لیکن وہ انسانی صورت حال کو کہانی بناتے ہوئے اس کے لوازمات سے بہرحال پہلو تہی نہیں کرتے۔پھر وہ بعض اوقات کرداروں کو مکالموں کے بجائے اپنے بیانیے کے ذریعے تعمیر کرتے ہیں۔’کالو بھنگی‘ تو ایسا منفرد کردار ہے جو افسانے میں بولتا ہی نہیں مگر افسانہ نگار اُس سے یک طرفہ مکالمہ جاری رکھتا ہے اور افسانے کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ’کالو بھنگی‘ کا سارا سراپا، سارا کردار سامنے آچکا ہوتا ہے۔

کرشن چندر کی یہ سب تحریریں تحیّر اور روشن خیالی کا جہان آباد رکھیں گی۔اردو ادب ہمیشہ اُن پر ناز کرتا رہے گا۔