جواب کی تلاش ہے (2)

May 16, 2013

تقریباً گیارہ بجے صبح تک بہت سے جواب سنے لیکن ایک بھی جواب تسلی بخش نہیں تھا۔ کچھ نے کہا کہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال لوگ باقی دنیا سے جینیاتی طور پر برتر ہیں۔ چند قارئین کا خیال تھا کہ موسموں کا رول اہم ہوگا، بہت سے لوگوں نے مخصوص ملکوں کے معاشی، معاشرتی، نفسیا تی و مذہبی ماحول کی اہمیت پر روشنی ڈالی، نوجوانوں نے ایجوکیشن سے بھی کہیں زیادہ ”کوالٹی آف ایجوکیشن“ کو بار آوری اور بانجھ پن کا فرق قرار دیا تو حقیقت یہ ہے کہ میں ان تمام پہلوؤں اور جوابوں پر پہلے ہی غور کر کے انہیں کلی یا جزوی طور پر مسترد کر چکا تھا مثلاً مذہبی انتہا پسندی جب اپنی انتہا پر تھی تب بھی لوگوں نے بڑے بڑے عقدے حل کیے اور پاپائیت کے عقائد کو سائنسی دلیلوں سے روند کر رکھ دیا۔ رہ گئے موسم اور دیگر حالات تو ان میں بھی گہری مماثلت کے باوجود یورپی ممالک کی پرفارمنس یکساں نہیں بلکہ بہت نمایاں فرق ہے۔ البتہ ایک پہلو ایسا ضرور تھا جس کی طرف میرا دھیان نہ تھا کہ ”موجد“ ملکوں کی آبادی بھی غیر موجد ملکوں سے کہیں کم تھی اور ہے۔ اس نکتے کے بعد اس سوال کی گھمبیرتا میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے کہ تخلیقی و فکری حوالوں سے دھرتی کے کچھ حصے بہت ہی خوشحال جبکہ باقی ساری دنیا اس قدر کنگال کیوں ہے؟ فکری طور پر کنگال !
خوشی اس بات کی ہے کہ اور کچھ نہ سہی اس انتہائی اہم بنیادی اور نازک سوال کے جواب میں کم از کم مل جل کر ہلکی پھلکی برین سٹارمنگ تو شروع ہوئی کیونکہ اس مصرعہ میں خاصا دم ہے کہ ”چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ“ ورنہ ہمیں تو برباد معیشت ، تباہ حال امن و امان، بدترین مہنگائی، خونخوار دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ، کرپشن جیسے منحوس موضوعات سے ہی فرصت نہیں … بہرحال آج چند مزید فیصلہ کن دریافتوں کو دلیل کی مضبوطی کیلئے زیر بحث لاتے ہیں جن کے بغیر انسانیت آج بھی بے بسی سے اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہی ہوتی۔
انسانی زندگی کی بقاء کیلئے کوئی دوسرا نظام اتنا اہم نہیں جتنا اہم نظام دوران خون (CIRCULATORY SYSTEM) ہے جس کے بارے میں ایسے ایسے احمقانہ مفروضے تھے کہ الامان الحفیظ۔ 1578ء میں برطانیہ کے اندر جنم لینے والے ولیم ہاروے نے پہلی بار نظام دوران خون کے بنیادی ارکان یعنی دل، پھیپھڑوں، شریانوں اور وریدوں کے حقیقی افعال کو دریافت کیا۔ ہاروے کی 1628ء میں لکھی گئی کتاب ماڈرن فزیالوجی کے آغاز کی نمائندگی کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاروے کو چرچ کی طرف سے خطرہ تھا کیونکہ چرچ نے یہ ”سائنسی سچ“ تسلیم کرنے سے حسب عادت انکار کردیا تھا۔ یہ بات ان کے خالی سروں کے اوپر سے گذر گئی کہ انسانی دل … روح اور ضمیر کی رہائش گاہ کی بجائے فقط ایک پٹھہ و عضلاتی پمپ ہے۔ ہاروے نے اپنی اس تاریخ ساز تحقیق کو صرف اس لیے لاطینی زبان میں شائع کرایا تاکہ اس کے اپنے ملک میں کوئی اسے سمجھ نہ سکے، گالیاں نے دے سکے۔آج کون ہے جو وائرس (VIRUS) کے لفظ سے ناآشنا ہو لیکن یہ بات کتنے لوگ جانتے ہیں کہ وائرس لاکھوں سال زندہ رہ سکتا ہے اور یہ سیلز اور بیکیٹریا سے بھی کہیں زیادہ مختصر جسامت رکھتا ہے۔ یہ اس قد ر مہین ہوتے ہیں کہ کسی بھی فلٹر یا پھندے سے نکل سکتے ہیں۔ سادہ زکام سے لیکر جان لیوا زرد بخار تک کا باعث بننے والی یہ مختصر ترین اور سادہ ترین بلا 1898ء تین انسانوں کی مشترکہ کوششوں سے دریافت ہوئی جس نے طب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ان میں سے ایک بھی نہ کالا تھا، نہ بھورا نہ پیلا۔ اس سے ناواقفیت کی وجہ سے کروڑوں انسان مارے گئے جبکہ اس کی دریافت کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی۔اسی طرح توانائی کی اکائیوں (UNITS OF ENERGY) کو کیلوریز (CALORIES) کہتے ہیں۔ ممی ڈیڈی ٹائپ قسم کے برگر بچوں سے لیکر ہیلتھ کانشس ادھیڑ عمروں اور بوڑھوں تک ، جم جانے والوں سے لیکر پارکوں میں جاگنگ کرنے والوں تک سب جانتے ہیں کہ ”کیلوریز“ کیا ہوتی ہیں لیکن مجھے سو فیصد یقین ہے کہ غیر ضروری یا اضافی کیلوریز کو ”جلاتے“ وقت کسی غیور و باشعور نے کبھی جیمز جول (JAMES JOULE) جیسے محسن کو یاد نہیں کیا ہوگا جس نے پاکستان بننے سے 104 سال پہلے 1843ء میں انسانوں کو ”کیلوریز“ کی تمیز سکھائی۔ جیمز جول بھی ظاہر ہے برطانوی ہی تھا جس نے پرائیویٹ ٹیوٹر سے سائنس کی تعلیم حاصل کی تھی۔ یاد رہے کہ ایک کیلوری سے مراد توانائی کی وہ مقدار ہے جو ایک گرام پانی کا درجہ حرارت ایک ڈگری سسیائس تک بڑھانے کیلئے درکار ہوتی ہے۔چند سطریں اوپر ہی میں نے ”جاگنگ“ کا ذکر کیا تو اچانک خیال آیا کہ ہم تو وہ ہیں جو ”جاگرز“ بھی نہ بنا سکے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر سر ہنری فورڈ نے موٹر بنا لی تھی تو ہم میں سے کوئی کم از کم ”وائپر“ ہی بنا لیتا لیکن یہ بھی نصیب نہ ہوسکا۔ نت نئی چیزیں بناتے بھی وہ ہیں اور مسلسل انہیں ”اپ گریڈ“ اور ”ری فائن“ بھی وہی کرتے ہیں اور یہ کتنی عجیب و غریب، کتنی ناقابل فہم سی بات ہے کہ ائیرکنڈیشنر سے لیکر ریفریجریٹر تک بھی ان ملکوں نے متعارف کرائے جو ٹھنڈے تھے اور انہیں ان دریافتوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔میں جب بھی شوگر کے کسی ناشکرے مریض کو انسولین (INSULIN) استعمال کر کے اپنی شوگر کنٹرول کرتے دیکھتا ہوں تو اکثر سوچتا ہوں کہ اس نے کبھی فریڈرک بینٹنگ (FREDRICK BANTING) کا نام بھی نہ سنا ہوگا جس نے ہمیں 1921ء میں لبلبہ میں پیدا ہونے والے اس ہارومون کا تحفہ دیا جو خون میں شوگر کی مقدار ہموار رکھتا ہے۔ خدا جانے دنیا کی باقی قومیں فروعات و خرافات سے نجات حاصل کر کے کب اس قابل ہوں گی کہ انسانیت کی تعمیر و ترقی میں وہ بھی اپنا حصہ ڈال سکیں کہ موجودہ صورت حال تو ایسی ہی ہے جیسے ایک ایسا گھر جس میں چند افراد کما رہے ہوں، باقی سارا خاندان ہڈ حرام مشٹنڈوں پر مشتمل دندیاں نکال نکال کر ”حرام“ کھا رہا ہو یا ایک ایسا ملک جو صرف دو فیصد آبادی کے ٹیکس پر رینگ رہا ہو اور باقی رنگ رلیاں منا رہے ہوں۔مجھے ان اہل مغرب کی تحریریں پڑھ کر غصہ کم آتا ہے ندامت زیادہ محسوس ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر ملک دھرتی کا بوجھ ہیں کیونکہ دنیا کی حقیقی تعمیر و ترقی میں ان کا حصہ صفر بھی نہیں۔ چلتے چلتے اک فضول سی فرمائش کہ کبھی کچھ دیراس موضوع پر بھی سوچیں کہ صرف 500 سال بعد کی دنیا کیسی ہوگی اور ”بانجھ دنیا“ کا اس محیر العقول دنیا میں کیا مقام ہوگا؟ کیا حیثیت ہوگی؟