خواجہ آصف کا ایک روزہ ریمانڈ منظور

December 30, 2020

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں خواجہ آصف کا ایک روزہ ریمانڈ منظور کرلیا، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے راہداری ریمانڈ منظور کیا ،احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے حکم دیا کہ خواجہ آصف کو آج ہی لاہور منتقل کیا جائے، ممکن ہو تو آج ورنہ کل لازمی لاہور کی متعلقہ عدالت میں پیش کریں

خواجہ آصف کو احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا گیا، جہاں نیب نے خواجہ آصف کے 2 روزہ راہداری ریمانڈ کی استدعا کی۔

خواجہ آصف کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ گراؤنڈ آف اریسٹ ہمیں ابھی تک نہیں ملے، یہ کیس دو سال سے چل رہا ہے، 4 گھنٹے لگتے ہیں، یہ 2 روز مانگ رہے ہیں۔

جج احتساب عدالت نے کہا کہ میرے پاس تو صرف راہداری ریمانڈ تک کا اختیار ہے۔

اس موقع پر نون لیگی رہنما خواجہ آصف خود روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ مجھے گرفتاری کی گراؤنڈ نہیں دی گئی، جس پر جج محمد بشیر نے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایتکی کہ انہیں گراؤنڈ آف اریسٹ دے دیں۔

اس سے قبل خواجہ آصف کو آج صبح احتساب عدالت اسلام آباد پہنچایا گیا جس کے بعد انہیں نیب پراسیکیوشن روم میں رکھا گیا جہاں مسلم لیگ نون پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ، محسن شاہنواز رانجھا، مریم اورنگزیب نے خواجہ آصف سے ملاقات کی ۔

واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے گزشتہ روز خواجہ آصف کواسلام آباد سے گرفتار کیا تھا، ان پر ناجائز اثاثوں کا الزام ہے۔

نیب لاہور کے مطابق خواجہ آصف کی گرفتاری کے وارنٹ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی جانب سے جاری کئے گئے۔

ملزم کیخلاف نیب قانون این اے او 1999کی شق (v) اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010کی سیکشن (3) کے تحت تحقیقات جاری ہیں، ملزم خواجہ آصف نے مبینہ طور پر اپنی آمدن سے زائد اثاثہ جات بنائے جبکہ اثاثہ جات کی نوعیت، ذرائع اور منتقلی کو بھی چھپایا،ملزم خواجہ آصف نے 1991 میں بطور سینیٹر عہدہ سنبھالا جو بعد ازاں مختلف ادوار میں وفاقی وزیر اور ایم این اے بھی رہے۔

عوامی عہدہ رکھنے سے قبل 1991میں ان کے مجموعی اثاثہ جات 51لاکھ روپے پر مشتمل تھے تاہم 2018تک مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد ان کے اثاثہ جات 221ملین تک پہنچ گئے جو ان کی ظاہری آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

نیب لاہور کے مطابق ملزم خواجہ آصف نے یو اے ای کی ایک فرم بنام M/S IMECO میں ملازمت سے 13 کروڑ روپے حاصل کرنیکا دعویٰ کیا تاہم دوران تفتیش وہ بطور تنخواہ اس رقم کے حصول کا کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکے۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم نے جعلی ذرائع آمدن سے اپنی حاصل شدہ رقم کو ثابت کرنا چاہا۔