گزرا سال، کفارہ اور 2021 کا چیلنج

January 02, 2021

وقت، بشکل کیلنڈر کے مخصوص ایام، ماہ اور سال انسانی تاریخ کا اہم ترین فیچر ہے، جو مخصوص اقوام، ملکوں، خطوں اور کل عالم میں آنے والی نسلوں کے زیر مطالعہ تاریخ کا بڑا حوالہ بنتا ہے۔ جیسے 14 اگست اور 1947 پاکستانی تاریخ کا سب سے اہم دن اور سال ہیں، جو اپنی اہمیت آنے والی نسلوں میں یکساں درجے پر برقرار رکھیں گے۔ 11/9 دنیا خصوصاً امریکہ میں بڑی واقعاتی تبدیلیاں برپا ہونے کے حوالے سے عالمی اور امریکی تاریخ کا بہت اہم حوالہ بنا ہے۔ جسے آنے والی نسلیں اپنے تجزیوں، آرا اور مطالعے میں بلند درجے کی اہمیت دیں گی۔ وقوعہ پذیری اور حالات حاضرہ میں بحیثیت مجموعی انسانی معاشرے کی گہری دلچسپی فطرت انسانی کے بڑے خاصوں میں سے ایک خاصا ہے۔ اسی انسانی تجسس سے اعلیٰ ترین روحانی صلاحیت، دانش، دور بینی، علم یا پیشے سے مستقبل میں ہونے والے واقعات کی پیشگوئی کی تفصیلات سے آگہی میں انسانوں کی دلچسپی ثابت شدہ انسانی خاصہ ہے۔ گزرے کی رخصتی اور نئے سال کی آمد پر ذرائع ابلاغ عامہ، روحانی شخصیات اور ماہرین نجوم و فلکیات کی پیش گوئیاں نشر و شائع کرنا اس دلچسپی کی تصدیق کرتا ہے۔ ان میں سے پیش گوئیوں کاایک بڑے یا محدود فیصد میں پورا ہونا بھی ثابت ہو چکا ہے۔

اس پس منظر میں گزرا سال 2020 تشکیل پذیری عالمی تاریخ کا ایسا سال بنا ہے کہ اس سال میں پھیلی کورونا کی عالمی وبا (جس کا آغاز تو 2019 کے اختتام میں چین سے ہوا) نے بین الاقوامی سیاست ، اقتصادیات، سماج اور اس کا طرز زندگی اس قدر بدل دیا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں، پورے عالمی معاشرے کو اتنے مختصر عرصے میں اتنی وسیع تر غیر مطلوب تبدیلی کا سامنا نہیں ہوا۔ ایک ہی وقت میں دنیا کی سطح پر اتنی بڑی کثیر الجہت تبدیلی نے انسانی نفسیات، جبلت، ترقی و تہذیب کے ہی نہیں بلکہ اصل حقیقت کے پردے چاک کردیے ہیں۔ کوویڈ19 سے دنوں میں دیکھتے دیکھتے غالب ہونے والی اور انسان کو شدت سے غیر مطلوب تبدیلی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وبا سے دنیا میں ہلاکت کے اعداد و شمار آنے والی خوفزدہ تبدیلی کے غلبے کے سامنے ہیچ ہوگئے ہیں۔ ہلاکت سے زیادہ ہلاکتِ عامہ اور انسانی تہذیب و تمدن کے حاصل کی تباہی و بربادی کے خوف، عملاً اس کے واضح اشاروں و امکانات نے چند ہی ہفتوں و مہینوں میں پورے عالمی معاشرے کو خوفزدہ اور مسلسل عدم تحفظ میں شدت سے مبتلا کردیا۔

انٹرنیٹ سے ہونے والی انٹرنیشنل لیول کی سوشلائزیشن تیز ترہوئی تو کوویڈ19 کی وبا اس پر اس طرح حملہ آور ہوئی کہ ایک فیملی یونٹ کے ممبر اٹھتے بیٹھتے گھروں میں رہتے بھی مخصوص و مطلوب ’’سماجی فاصلہ‘‘ رکھنے پر مجبور ہوگئے یا ’’کر دیے گئے‘‘۔ یہ کر دیے گئے کوویڈ19 کی عالمی وبا کا سیاسی پہلو ہے، جو وبا کے ماحول میں اٹھایا گیا۔ سوال کہ ’’عالمی وبا‘‘ قدرتی یا حقیقی ہےیا ’’مین میڈ‘‘ بہت سیاسی ہے جو دو بڑے طاقت ور ممالک کے دنیا بھر میں پھیلے اقتصادی و تجارتی (یا قومی) مفادات کی کوکھ سے نکلا سوال ہے۔ اس لئے اس کا عالمی رائے عامہ میں ایک پہلا بڑا زاویہ نگاہ یہ بھی بنا کہ چین کے تیزی سے طاقت پکڑنے پر امریکہ بوکھلا گیا اور اب اس کی تجارتی رقابت جو سیاسی دشمنی میں تبدیلی ہو رہی ہے کوویڈ19 اسی کا شاخسانہ ہے۔ سو دونوں بڑی عالمی طاقتوں (بیجنگ اور واشنگٹن) میں بلیم گیم شروع ہوگئی، دونوں کی باہمی دشنام تراشی سے بیانیہ یہ بنا کہ کوویڈ19 ’’مین میڈ ہے‘‘ مکمل شیطانی شعوری کوشش سے دنیا پر اپنے غلبے اور کل عالم کو مغلوب کرنے کی گھنائونی اورانسانی شیطانی سازش ہے۔ امریکہ سے بغیر کسی واضح اور قابل قبول ایویڈینس کے چین پر یہ الزام عائد ہوا کہ کورونا وائرس چین میں پھیلا اور جانوروں کی مارکیٹ یا غیر انسانی غذا کو انسانی بنانے سے پھیلا، جسے دانستہ امریکہ میں پھیلایا گیا۔ چین نے جوابی الزام میں دعویٰ کیا کہ یہ امریکہ نے چین میں ہونے والی ’’مشترکہ وارگیمز کی آڑ میں چین میں پھیلایا اور وجہ امریکہ کی ہمارے خلاف کاروباری رقابت ہے، جس میں چین امریکہ کے مقابل آن کھڑا ہوا ہے۔ بات یہاں پر رکی نہیں، میڈیا اور سوشل میڈیا سے وہ کچھ آنے لگا کہ دنیا میں بالغ سیانی آبادی سکتے میں آگئی اور آئی ہوئی ہے۔ اکانومسٹ جیسے سیاسی حوالوں سے اقتصادیات کی سپیشلائزیشن کے حامل معتبر میگزین کے ٹائٹل معنی خیز ہوتے گئے۔ پیغام دیے گئے اور دیے جا رہے ہیں کہ دنیا پر ایک حکومت کا راج ہوگا، اقوام متحدہ میں ڈبلیو ایچ او ہی معتبر ٹھہرے گا،کوئی دوسرا دارہ نہیں۔ دنیا کی نئی ہوتی سیاسی تقسیم کی نقش نگاری کی گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ کوویڈ19 کی ہولناک آمد پر ہونے والی پیش گوئیاں بذریعہ کارٹون، فلمز اور کتنے ہی دوسرے حوالوں سے عام ہونے لگیں۔ عالمی وبا سے سب سے زیادہ متاثر دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی رائے عامہ وبا کی وجہ سے اس کے جملہ پہلوئوں، نازل ہونے کے جائے وقوعہ، سیاسی و اقتصادی اور داخلی سیاست تک حتیٰ کہ احتیاطوں اور علاج کے حوالے سے بھی دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوگئی اور تو اور امریکی سائنس دان بھی اپنی اپنی رائے میں تقسیم ہیں۔ ایک بڑا یقین یہ دلایا جا رہا ہے کہ ’’کوویڈ19 ایک حقیقت ہے، اب اس کے ساتھ ہی زندگی گزارنی پڑے گی‘‘۔ اس سعی جاری پر یہ چبھتا سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ حقیقت تو ہے لیکن اس کے پس پردہ حقیقت کیا ہے؟ اور اس ’’حقیقت‘‘ کو کس نے اور آخر کیوں تراشا ہے؟ امر واقع یہ ہے کہ عالمی سیاست، عالمی امن، انسانی تہذیب و ترقی، جمہوریت اور ممالک کی داخلی سیاست، سب ہی کچھ تو جاری عالمی وبا سے جڑ گیا ہے، جسے ختم اور کم کرنا محال ہو رہا ہے۔ (جاری ہے)