اراضی ہند، عُشری ہیں یا نہیں؟

January 08, 2021

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال :۔ہندوستان کی زمینیں عشری ہیں یا نہیں ؟ اس بارے میں ازروئے شریعت وضاحت فرمادیں ۔

جواب:۔اراضی ہند کے عُشری یا غیر عُشری ہونے کے بارے میں تفصیل’’فتاویٰ رحیمیہ‘‘ میں درج ہے، میں اسی کےذکر پر اکتفاء کرتا ہوں۔فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:مسئلہ مختلف فیہ ہے، دونوں طرف علماء کے اقوال ہیں … احتیاط اس میں ہے کہ ایسی زمینیں جو مسلمانوں کے پاس نسلاً بعد نسل وراثۃ چلی آرہی ہوں یا مسلمانوں سے خریدی ہوں یا بطورِ ہبہ ملی ہوں اور درمیان میں کسی غیر مسلم کی ملکیت ثابت نہ ہو تو ایسی زمینوں کو عشری سمجھا جائے اور عشر ادا کیا جائے، عشر میں عبادت کا پہلو غالب ہے اور اس میں مساکین کا فائدہ بھی ہے، اور جن زمینوں پر کافروں کی ملکیت ثابت ہو، وہ عشری نہیں، خراجی ہیں، اور جن زمینوں کا صحیح حال معلوم نہ ہو تو بدلیلِ استصحابِ حال ایسی زمینیں بھی عشری کہلائیں گی۔

حکومتِ وقت نے اپنے کسی قانون کے تحت جن زمینوں پر خود مالکانہ قبضہ کر لیا ہو یا زمین کسی کو دلوادی ہوتو ان زمینوں میں عشر واجب نہ ہوگا اور وہ زمینیں جو حکومتی قانون کے باوجود حسبِ سابق مسلمانوں ہی کی ملکیت میں رہی ہوں،ان زمینوں کا عشر ادا کیا جائے اور اس صورت میں حکومتی قانون کا مطلب صرف منتظمانہ قبضہ ہوگا، کما حررہ الشیخ التھانویؒ۔

مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کا فتویٰ:

(۱) مسئلہ: ہمارے یہاں کی اراضیات عشری ہیں یا خراجی ؟

(الجواب) اراضیاتِ ہند بعض عشری ہیں، بعض خراجی، فقط واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رشیدیہ ص ۵۵ ج۳)

(۲) مسئلہ: اس طرف کی زمین عشری کی کیا شناخت ہے؟

(الجواب) زمین عشری وہ ہے جو اول سے مسلمانوں کے پاس ہو اور عشری پانی سے سیراب کی جاتی ہو ، فقط۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص ۵۴ج۲)

حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(۱)اب ایک مسئلہ قابل غو ر یہ ہے کہ عشر کس زمین میں ہے؟ تو یاد رکھو کہ عشر، زمین عشری میں ہے اور وہ وہ زمین ہے کہ جب سے مسلمانوں نے فتح کیا ہے، وہ زمین کسی کافر کے قبضے میں نہ آئی ہو، اب زمین کی تین حالتیں ہوں گی۔ایک یہ کہ معلوم ہوجائے،یہ زمین مسلمانوں کے ہاتھوں میں آرہی ہے، اس میں تو عشر کا وجوب ظاہر ہے، دوسرے یہ کہ معلوم ہوجائے کہ یہ زمین کافروں کے ہاتھ سے آئی ہے، اس میں عشر نہیں ہے، تیسرے یہ کہ معلوم نہ ہو کہ یہ کافروں کے ہاتھ سے آئی ہے یا مسلمانوں کے، مگر اس وقت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، یہ بھی باستصحابِ حال قسمِ اول کے حکم میں ہے۔ ( التبلیغ وعظ ’’ العشر‘‘ ص: ۲۰)

(۲) (سوال۸۹ ) عشری زمین کے متعلق جو کچھ آپ کی تحقیق ہو ،مفصل تحریر فرمادیں۔

(الجواب) حاصل کلام یہ ہے کہ جو زمینیں اس وقت مسلمانوں کی ملک میں ہیں اور ان کے پاس مسلمانوں ہی سے پہنچی ہیں، وراثتاً وشراءً وہلم جراً، وہ زمینیں عشری ہیں اور جو درمیان میں کوئی کافر مالک ہوگیا تھا، وہ عشری نہ رہی اور جس کا حال کچھ معلوم نہ ہو ،اور اس وقت مسلمانوں کے پاس ہے یہی سمجھا جائے گا کہ مسلمان ہی سے حاصل ہوئی ہے، بدلیلِ الاستصحاب پس وہ بھی عشری ہوگی، وقدر العشر معروف، فقط ۔۱۸ محرم ۱۳۲۶ھ۔(امداد الفتاویٰ ص ۵۲ج۲، کراچی)، (جواہرا الفقہ ص ۲۶۰ج۲)

(۳) (سوال ۹۰) ہندوستان کی زمین بحالتِ وجودہ (یعنی انگریز حکومت میں) خراجی ہے یا عشری؟ جب گورنمنٹ برطانیہ نے سلطنت کی باگ اپنے قبضہ واقتدار میں لی تھی تو اس وقت اعلانِ عام کیا تھا کہ تما م اراضی ضبط کر لی گئیں اور کسی کا حق نہیں ہے، اگر صاحبِ اراضی دعویٰ کر کے ثبوت پیش کرے تو اسےحسبِ تجویزِ حاکم دی جائے گی، چناں چہ جن مالکانِ اراضی نے دعویٰ کرکے ثبوت قائم کیے ،انہیں وہی اراضی یا بعوض ان کے دیگر اراضی عطا ہوئیں اور بعض کو کسی امر کے صلے میں زمین عطا ہوئی اور مال گزاری سرکاری جو سالانہ زمین داروں سے بادشاہِ وقت لیتا ہے مقرر کر دی اور بعض کو معاف کر دی۔ (…جاری ہے…)