شدت پسندی کانیا سلسلہ

January 08, 2021

موجودہ حالات میں وطن عزیز جس صورت حال سے گزر رہا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ایک طرف کورونا کی وبا اپنے پر پھیلا رہی ہے وہیں اس نازک صورتحال میں پی ڈی ایم کے جلسوں کا دور دورہ ہے۔ کورونا کے سبب لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے تاجر خصوصا چھوٹے خوردہ فروش ابتر مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ عوام مہنگائی کے مارے مرے جا رہے ہیں قوت خرید جواب دیتی جا رہی ہے، دیہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ پریشان ہے ۔وہ تو بے روزگاری کا شکار ہے ۔لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں، دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہر قسم کا کاروبار مندی کاشکار ہے۔ سیاسی اتحاد پی ڈی ایم نے جو ہلچل مچائی ہوئی ہے اس سے ملک میں سیاسی پارہ اپنے عروج پر پہنچ رہاہے لیکن اس کا نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکل رہا، حکومت نے بظاہر پسپائی اختیار کرلی ہے لیکن موقع کی مناسبت سے دانشمندانہ قدم اُٹھاکر قوم کو ٹکراؤ سے بچالیا اور ہوش مندی کا ثبوت دیا ۔ملتان جہاں ٹکرائو کا شدید خطرہ پیدا ہو چکا تھا، پولیس اور اپوزیشن کے کارکن اپنے جوش میں ہوش کھوتے جا رہے تھے جوپولیس اپنی طاقت کا استعمال کر کے صورتحال بگاڑرہی تھی کہ وہیں کسی ہوش مند نے بر وقت مشورہ دے کر حکومت کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا اس طرح ایک بڑا تصادم ٹل گیا۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں اور ان کےکارکن اس وقت بڑے جوش و خروش میں تھے،پی ڈی ایم کےاب تک کے تمام جلسے بھرپور انداز میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس سے اپوزیشن اس یقین میں مبتلا ہوگئی ہے کہ حکومت اب گئی تب گئی، ادھر حکومت اور حکمران وقت (سلیکٹر) اپنی جگہ مطمئن ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا، ماضی قریب میں وہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کا اسلام آباد دھرنے کا حشر نشر کر کے تجربہ کرچکے ہیں۔ اب بھی غالباً ان کا یہی خیال ہوگا کہ پی ڈی ایم اپنی توانائیاں صرف کر کےاور کوئی یقین دہانی حاصل کر کےانہیں مہلت فراہم کردے گی اور اس عرصے میں اپوزیشن کا اثربیٹھ جائے گا۔ کوئی بڑا حادثہ کوئی اہم واقعہ سب کیے کرائے پر مٹی ڈال دے گا اور گاڑی یونہی چلتی رہے گی۔

دشمن تاک میں ہے امریکا، بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ جس کی آنکھوں میں پاک چین راہداری کھٹک رہی ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کسی بھی طرح اس عظیم ترین منصوبے کو ختم کردیا جائے جب بھارت ہر قسم کی

کارروائیاں کر کے ناکام ہوگیا ہے اب اس گٹھ جوڑ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔ امریکا کی سرپرستی اور دبائو میں مسلم ممالک کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو قبول کریں اور سفارتی مراسم قائم کریں۔ بھارت اپنی سی کوشش کر رہا ہے، ہر روز ایل او سی پر اپنی من مانی کارروائیاں کر رہا ہے تاکہ پاکستان اشتعال میں آکر جوابی حملہ کرے تو اسے بڑھاچڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کرے اور جنگ کے آغاز کا الزام پاکستان پر لگا کر اس پر عالمی سطح پر دباؤ ڈالا جائے حالانکہ بھارت خود اندرونی طور پر خلفشار کا شکار رہے گا۔ ریاستوں میں علیحد گی کی تحریک چل رہی ہے، وہ اپنے اندرونی معاملات کی پردہ پوشی کیلئے پاکستان سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے۔ لیکن افواج پاکستان اور حکومت پاکستان جس صبر و تحمل سے کام لے رہے ہیں وہی وقت کی ضرورت ہے جلد بازی اور عدم برداشت کے سبب معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ کچھ حلقے اس کے برعکس عدم برداشت کا سبق پڑھانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں جو سراسر نا دانی اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

بھارت نے اپنے مذموم عزائم کے لیے بلوچستان کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے جس طرح بھارتی سازش اور مہم جوئی نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں بدل دیا، وہ ایسا غالباً بلوچستان کے ساتھ بھی کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں آئے دن کوئی نہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔ ابھی کتنے دن ہوئے ہیں کہ ہرنائی میں 26 دسمبر کو بلوچستان فرنٹیئر کور کی ایک پوسٹ کو نشانہ بنایا گیاتھا جس میں ایف سی کے سات جوان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اب ایک بار پھر مچھ میں ہزارہ برادری کے کان کنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں گیارہ کان کن شہید کردیے گئے یہ معمولی حادثہ نہیں ہے۔ یہ بڑا منصوبہ بند واقعہ ہے۔ اس میں دہشت گردپہلے مزدوروں کو اغوا کر کے پہاڑ پر لے گئے، ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھیں اور ہاتھ پیر باندھ کر گولیاں ماری گئیں۔ چار مزدور شدید زخمی حالت میں ملے، حملہ آور مزدوروں کوشناخت کے بعد الگ کر کے لے گئے، ان میں سے کئی کے گلے بھی کاٹے گئے، ان ہلاک شدگان میں سے آٹھ کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے اور 9 افغان شہری ہیں۔ اس واقعے میں اور اس سے قبل ہونے والے واقعات میں سیکورٹی کی کمی، کوتاہی ان واقعات کا سبب بنی۔ بھارت اپنی کرنے سے باز نہیں آرہا اور روز بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے میں مصروف ہے۔ ان تمام شواہد کو حکومت وقت نے اقوام متحدہ کو تمام ثبوتوں کے ساتھ پیش کردیا ہے، اقوامِ عالم شاید کچھ کرنے سے معذور ہیں۔ مچھ کا یہ سانحہ معمولی نہیں ہے، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے۔