ہمارا واحد گروپ ہے، جس نے تعمیرات میں ’ہول سیل ماڈل‘ کو اپنایا ہے

January 10, 2021

جنگ: حکومت نے تعمیراتی صنعت کے لیے مراعاتی پیکیج میں توسیع کردی ہے، جس کا مطالبہ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز (ABAD)کی جانب سے بھی کیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر اس مراعاتی پیکیج سے متعلق آپ کیا خیالات رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر طلحہ: بہت شکریہ۔ تعمیراتی صنعت کے لیے مراعاتی پیکیج کے دو نمایاں حصے ہیں۔ ایک فکسڈ ٹیکس ریجیم (FTR)اور دوسرا انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 111سے استثنیٰ۔ اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایف ٹی آر میں 31دسمبر 2021ء اور انکم ٹیکس والی شق سے استثنیٰ میں 30جون 2021ء تک توسیع کردی گئی ہے۔ بظاہر یہ ایک اچھی اسکیم ہے، جس سے تعمیراتی سرگرمیوں میں یقیناً اضافہ بھی ہوگا لیکن اس میں کئی ایک نکات ایسے ہیں، جن پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔

مثلاً ملک کے تینوں بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے لیے 125روپے فی مربع فٹ کا یکساں نرخ مقرر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایف ٹی آر میں ان تینوں شہروں کو ایک ہی علاقہ تصور کیا گیا ہے۔ ایف ٹی آر میں یہ سب سے بڑی غلطی کی گئی ہے۔ تین شہروں کی بات تو ہم بعد میں کریں، اگر ہم ایک ہی شہرِ کراچی کی بات کریں تو یہاں کلفٹن میں ایک اپارٹمنٹ جو چھ، سات کروڑ میں دستیاب ہے، اسی رقبہ کا اپارٹمنٹ اسکیم 33میں ایک کروڑ میں مل جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کروڑ روپے والا جو ٹیکس دے، سات کروڑ روپے والا بھی وہی ٹیکس دے۔

پاکستان میں گزشتہ 70سال سے ہم نے یہی دیکھا ہے کہ امیر طبقے پر ان کی آمدنی کے تناسب سے ٹیکس کا کوئی نظام نہیں لایا جاسکا، ٹیکسوں کا پورا بوجھ متوسط اور تنخواہ دار طبقے پر ہی ڈالا جاتا رہا ہے۔ تعمیراتی صنعت کے لیے متعارف کرائی گئی ایف ٹی آر اسکیم میں بھی اسی طبقے کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ اس کے لیے ہر شہر کو چار زونز میں تقسیم کرنا چاہیے اور ٹیکس کی شرح اسی تناسب سے مقرر کی جانی چاہیے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں تمام ٹیکس تین سال میں ادا کرنے کا کہا گیا ہے (اب اس میں ایک سال کا اضافہ کردیا گیا ہے)، جب کہ ایک تعمیراتی منصوبہ عمومی طور پر پانچ، چھ سال میں مکمل ہوتا ہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ ٹیکس وصولی کا دورانیہ کم از کم پانچ سال ہو اور جیسے جیسے پروجیکٹ مکمل ہوتا جائے اقساط میں ادائیگی ہو تو بلڈرز کے لیے آسانی ہوگی۔

جب میں اپنا پروجیکٹ ایف ٹی آر کے تحت رجسٹر کروانے کے لیے ایف بی آر گیا تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ 25فی صد ایڈوانس ٹیکس جمع کروانے کے لیے کہا جارہا ہے، میری اتنی استعداد نہیں ہے کہ میں 25فیصد ٹیکس ایڈوانس جمع کرواسکوں۔ اس نقطہ نظر سے بہت سارے بلڈرز اس اسکیم سے فائدہ نہیں اُٹھا پائیں گے۔ اب اگر ایک بلڈر ہی اپنا پروجیکٹ اس اسکیم میں نہیں لے جائے گا تو بہت سارے وہ حضرات جن کے پاس سفید آمدن نہیں ہے، وہ اگر میرے پاس یا مجھ جیسے دیگر بلڈرز کے پاس پراپرٹی بُک نہیں کروائیںگےتو وہ اس اسکیم کے باوجود ٹیکس دائرہ کار سے باہر رہیںگے۔

اس لیے ٹیکس کو پانچ سال تک اقساط میں وصول کرناچاہیے اور اس عرصے کے دوران شروع ہونے والے ہر تعمیراتی منصوبے پر خود بخود یہ ریجیم لاگو ہونی چاہیے۔ اس کا ایک سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران جو کوئی بھی تعمیراتی نقشہ منظور ہواس کے ساتھ ہی اس کا ٹیکس ادائیگی کا چالان جاری ہونا چاہیے۔ اگر ان تجاویز پر عمل کرلیا جائے تو میرا خیال ہے کہ پاکستان میں آج پراپرٹی پر جتنا ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے، اس میں شاید 10گنا اضافہ ہوجائے۔

اگر کرنے والے کرنا چاہیںتو یہ ایک بہت اچھی اسکیم ثابت ہوسکتی ہے اور بہت اچھا کام ہوسکتا ہے، پراپرٹی میں آنے والا سارا پیسہ سفید ہوسکتا ہے اور معیشت کا حجم قابلِ ذکر حد تک بڑھ سکتا ہے۔ حکومت چاہے تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔

مختصراً میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایف ٹی آر ایک اچھی اسکیم ہے لیکن اس میں جس بڑے پیمانے پر کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔

جنگ: آمدنی کے ذرائع نہ پوچھنے والی جو سہولت ہے، وہ ایک صارف کے لیے کیسی ہے؟

ڈاکٹر طلحہ: صارف کے لیے یہ ایک اچھی سہولت ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ اس سہولت سے جب ایک بلڈر ہی پوری طرح فائدہ نہیں اُٹھا پائے گا تو اس کے پاس پراپرٹی کی بکنگ کروانے کے لیے آنے والے کو بھی اس اسکیم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

جنگ: بحریہ ٹاؤن کراچی میں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟

ڈاکٹر طلحہ: بحریہ ٹاؤن کراچی میں بہت سارے سرمایہ کاروں اور عام لوگوں کے پیسے پھنسے ہوئے ہیں، جن کو پلاٹ نہیں مل سکے۔ مثلاً اگر کسی کے 100روپے پھنسے ہوئے ہیں تو بہت ساری جگہوںپر وہاں کے بروکر اس کے 60روپے ایڈجسٹ کررہے ہیں۔

ہم بحریہ ٹاؤن میں کچھ ایسا کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس کے 100روپے پھنسے ہوئے ہیں، اس کے پورے پیسے ایڈجسٹ ہوجائیں۔ ہم بحریہ ٹاؤن میں کسی کاروبار کے لیے نہیں بلکہ محض اپنی برانڈنگ کے لیے جانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جن کے پیسے پھنسے ہوئے ہیں، ان کے نقصان کا کسی طرح 100فیصد ازالہ کرسکیں۔

جنگ: حکومت کا دوسرا بڑاتعمیراتی منصوبہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم ہے۔ اس حوالے سے کیا پیشرفت ہے اور آپ ہمارے قارئین کو کیا بتا سکتے ہیں؟

ڈاکٹر طلحہ: نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم پر پنجاب میں تو کام ہورہا ہے لیکن سندھ میں ابھی تک اس حوالے سے کوئی بڑی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت ایک پیج پر نہیں ہیں۔ زمینوں کا سارا انتظام صوبائی حکومت کے پاس ہے اور وہ اس منصوبے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔

مجھے یہ بھی کہنے دیں کہ وفاقی حکومت کی اپنی توجہ بھی سندھ پر زیادہ نہیں ہے۔ تاہم، میرا خیال ہے کہ یہاں بھی نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت کچھ منصوبے ضرور شروع ہوں گے اور ایسا دور دراز علاقوں میں پرائیویٹ لوگوں کے پاس زمینوں کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں شامل کرنے سے ممکن ہوگا۔ حکومت کی یہ خواہش پوری ہونا مشکل لگتا ہے کہ وہ پرائیویٹ بلڈرز کو زمینیں دے اور وہ حکومت کو کم لاگت رہائشی منصوبے بناکر دیں۔

اگر حکومت تمام تر مسائل کے باوجود، اس اسکیم کے تحت پانچ سال میں دو، چار لاکھ سستے گھر بناکر غریبوں کو فراہم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ اس حکومت کے لیے ایک گیم چینجر منصوبہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک غریب خاندان کو 35-30لاکھ میں بنابنایا گھر مل جائے اور اس میں رہتے ہوئے اقساط ادا کرنی ہوں تو اسے اور کیا چاہیے۔ یہاں تو بے شمار ایسی اسکیمیں ہیں، جہاں لوگوں نے فائلیں لے کر رکھ لیں اور جب 10سال بعد ضرورت پڑنے پر فائل نکال کر اسے بیچنے کا ارادہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کا تو مالک ہی بدل چکا ہے۔ اس کے علاوہ ہر بلڈر تو چور نہیں ہوتا۔

این او سی کے باوجود جب سرکار وہاں بجلی، گیس، پانی اور دیگر سہولیات نہ پہنچا پائے تو پھر بلڈر کیا کرے گا۔ بلڈر تو وہاں یہ چیزیں مہیا نہیں کرے گا۔ ناردرن بائی پاس پر 2002ء سے لے کر 2006ء کے درمیان ڈیڑھ، دو لاکھ پلاٹ فروخت ہوئے تھے لیکن وہاں پر آج تک کوئی یوٹیلٹی نہیں پہنچ سکی۔ تیسر ٹاؤن میں سڑک ضرور بن گئی ہے لیکن وہاں بھی یوٹیلٹیز نہیںہیں۔ ایسی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اگر حکومت ناردرن بائی پاس، سپرہائی وے اور نیشنل ہائی وے پر ان اسکیموں تک یوٹیلٹیز پہنچا کر انھیں آباد کردے تو شہر میں آبادی کا دباؤ کم ہوسکتا ہے۔

جنگ: حکومت نے بینکوں کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ صارفین کو گھروں کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ قرضے فراہم کریں۔ اس حوالے سے کچھ بتائیں؟

ڈاکٹر طلحہ: جی بالکل۔ حکومت نے بینکوں کو پابند بنایا ہے کہ وہ اپنے مجموعی قرضہ جات کا پانچ فیصد تعمیراتی شعبہ کو جاری کریں۔ اس سے تعمیراتی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور پہلے جو گھر پانچ سال میں مکمل ہوتا تھا، آج بینکوں سے قرض کی سہولت کی وجہ سے دو، ڈھائی سال میں مکمل ہوجائے گا۔

اس وجہ سے تعمیراتی سرگرمیوں میں تیزی آجائے گی اور ساتھ ہی ریئل اسٹیٹ کی قیمتیں بھی بڑھ جائیںگی۔ کیونکہ جب تعمیراتی سرگرمیاں بڑھتی ہیں تو اسے خام یا تیار مال فراہم کرنے والے ذیلی شعبے اپنی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں؛ اسٹیل اور سیمنٹ اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔

جنگ: نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے آپ کوئی پروجیکٹ کررہے ہیں؟

ڈاکٹر طلحہ: نہیں، میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے کوئی پروجیکٹ نہیں کررہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک شرط ہے کہ آپ نے اپنی زمین نیا پاکستان ہاؤسنگ کے نام منتقل کرنی ہوگی۔ اگر میں زمین ایک حکومتی ادارے کے نام کردوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں نے اپنے ہاتھ پاؤں کٹوا دیے۔ وہاں حکام تبدیل ہوتے رہیں گے، جن کی ان کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور تباہی ایسے منصوبے کا مقدر بنے گی۔

جنگ: اس کا مطلب ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ اسی صورت کامیاب ہوسکتا ہے، جب حکومت خود زمین فراہم کرے؟

ڈاکٹر طلحہ: میں نے ایک اجلاس کے دوران، آباد کی جانب سے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے سربراہ جنرل (ر) انوار حیدر کے سامنے تجویز رکھی تھی کہ اس منصوبے کے لیے صرف ان بلڈرز کو آگے آنا چاہیے جو اسے نیکی سمجھ کر حکومت کو اس کی لاگت پر کام کرکے دیں اور بلڈر کو 15فیصد منافع نہیں دینا چاہیے۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ جب ایک بلڈر اپنے پروجیکٹس سے کما رہا ہے اور حکومت کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے مفت زمین دے کر اس سے ایک پروجیکٹ بنوارہی ہے تو اس میں منافع کا کوئی پہلو نہیں ہونا چاہیے۔

میں نے ان کو پیشکش کی تھی کہ آپ مجھے سپرہائی وے پر 50ہزار ایکڑ زمین دے دیں، جہاں یوٹیلٹیز کی فراہمی بھی ان کی ذمہ داری ہو، میں آپ کو بلا منافع خالص لاگت پر گھر بنا کر دینے کو تیار ہوں، کیونکہ میرا اپنا نظام اس کے بغیر چل رہا ہے۔ میں یہ کام نیکی سمجھ کر کروں گا۔

جنگ: اس پیشکش کے بدلے میں آپ کو کیا جواب ملا؟

ڈاکٹر طلحہ: جنرل صاحب نے میری بات سے اتفاق کیا کہ ہونا تو ایسے چاہیے لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔

جنگ: مطلب جو بلڈر نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے گھر بناکر دے گا، اسے 15فیصد منافع دیا جائے گا؟

ڈاکٹر طلحہ: جی، ایسا ہی ہے۔

جنگ: جب بھی کوئی نئی ہاؤسنگ اسکیم آتی ہے تو اس کی پرچی بکنا اور سٹہ لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ کیا نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں ایسی کوئی شرط ہے کہ اس کا خریدار اپنا گھر یا فلیٹ درمیان میں بیچ کر نکل نہیں جائے گا، کیونکہ وہ حکومت سے سبسڈی لے رہا ہے؟

ڈاکٹر طلحہ: ایسا بالکل ہونا چاہیے لیکن میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں کہ اس اسکیم کے تحت گھر خریدنے والا شخص اسے ایک خاص مدت تک بیچ نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ بھی، زائد قیمت پر پرچیاں بکنے اور مارکیٹ سٹے پر سختی سے پابندی ہونی چاہیے اور حکومت کو ایسی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر انہیں روکنا چاہیے۔

کسی نے 10ہزار کا ایک فارم خریدا اور پھر وہ ایک یا دو لاکھ میں اسے بیچ کر نکل جاتا ہے تو یہ حرام کمائی کا ایک دھندہ ہوا، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایک خاص پروجیکٹ ہی پورا پاکستان نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کے بعدکوئی اور پروجیکٹ نہیں آئے گا یا اس کے بعد پاکستان کی زمین ختم ہوجائے گی۔ ہم سب ختم ہوجائیں گے، پاکستان کی زمین ختم نہیں ہوگی، ایسے میں لاکھوں روپے کے اون پر پرچیاں خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔

ہم نے اے ایس ایف ہاؤسنگ اسکیم کے لیے اے ایس ایف ٹاور کا پروجیکٹ کیا تھا۔ ہم پہلے دن جنرل سہیل خان صاحب کے ساتھ بیٹھے اور ہم نے کہا یہ چیز نہیں ہونی چاہیے، انھوں نے ہمارے ساتھ اتفاق کیا۔ آپ ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیں، 10ہزار روپے کا فارم ہم نے 11ہزار روپے میں نہیں بکنے دیا۔

جنگ: وزیراعظم عمران خان کا معاشی بحالی کے لیے تعمیراتی صنعت پر بہت دارومدار ہے، اسی لیے وہ اس شعبے کو تمام مراعات فراہم کررہے ہیں۔ تعمیراتی صنعت کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

ڈاکٹر طلحہ: دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے کہ تعمیراتی صنعت چلے گی تو معیشت چلے گی، کیونکہ جب تعمیراتی صنعت کا پہیہ چلتا ہے تو اس کے ساتھ 72دیگر صنعتیں بھی چل پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شعبہ بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور یہاں اس شخص کو بھی کام مل جاتا ہے جو کوئی ہنر نہیں جانتا۔

جنگ: کنگز گروپ کے آنے والے پروجیکٹس کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

ڈاکٹر طلحہ: ہم اپنے لوگوں کو ’’وَن شاٹ پے منٹ‘‘ کا آپشن دیتے ہیں کہ آپ ہمارے پروجیکٹ میں بکنگ کروائیں، آج 100فیصد ادائیگی کریں اور چار، پانچ سال بعد اس کا قبضہ لے لیں۔ ہم خریدار کو اس کا فائدہ یہ دیتے ہیں کہ ایک اپارٹمنٹ جو 100روپے کا ہے، اسے ہم وہ 50روپے میں دے دیتے ہیں۔ اس کا فائدہ ایسے افراد اُٹھاسکتے ہیں جو اپنا گھر لینا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ ان لوگوں کو ہم یہ پیشکش کرتے ہیں کہ وہ ہم سے 50فیصد قیمت پر گھر خریدلیں۔

چار، پانچ سال بعد وہ پراپرٹی ایک روپے کے بجائے ڈیڑھ روپے، دو روپے اور ڈھائی روپے کی بھی ہوسکتی ہے۔ تو جو لوگ ہم پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم بھی انھیں فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہ اسکیم ہم نے کنگز ایکسی لینسی پروجیکٹ میں متعارف کرائی ہے، اس پر کام چل رہا ہے اور لوگوں کو ہم نے نمبرز بھی الاٹ کردیے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ تعمیرات میں ہم ہول سیل کا تصور لے کر آگئے ہیں۔ حالانکہ ہمیں اس چیز کی ضرورت نہیں ہے، ہم ایک پروجیکٹ بنائیں، اسے مکمل کرکے قبضہ دے کر اگلا پروجیکٹ شروع کردیں۔ اب اس اسکیم کی وجہ سے ہمیں بیک وقت ایک کے بجائے دو، تین پروجیکٹ شروع کرنے پڑرہے ہیں۔ اس سے خریدار کو سہولت ہورہی ہے اور زیادہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آرہے ہیں۔

جہاں تک آنے والے پروجیکٹس کا تعلق ہے تو صفورہ کے علاقہ میں کرن ہسپتال کے سامنے ملیرکینٹ سے پہلے ہمارے کئی پروجیکٹس شروع ہورہے ہیں۔ ان میں مڈل کلاس اور اَپر مڈل کلاس کے لیے بھی پروجیکٹس ہیں جبکہ ہم ڈیفنس میں واقع کریک وِسٹا کی طرز پر پانچ بیڈ روم اپارٹمنٹ کا بھی ایک پروجیکٹ بنارہے ہیں۔ ہمیں اس پروجیکٹ کا این او سی مل چکا ہے اور یہ ایچ بی ایل اسلامک کا بھی اولین منصوبہ ہے، جس کے لیے وہ فنانسنگ کررہا ہے۔ اس جیسی ہم 9عمارتیں بنائیں گے، ابھی ہم اس کا پہلا ٹاور بنارہے ہیں، اسے بناکر بیچیں گے، پھر دوسرا شروع کریں گے، اس طرح بناتے جائیں گے اور بیچتے جائیں گے۔ 20سے 25پروجیکٹس ہمارے پہلے سے زیرِ تکمیل ہیں۔