اگر نواز شریف اسٹیٹ لیس ہوئے؟

January 10, 2021

16فروری کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کا پاسپورٹ ایکسپائرڈ ہو جائے گا جبکہ وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ان کے بعد ان کا پاسپورٹ کینسل کر دیا جائے گا اور نیا پاسپورٹ بھی نہیں بنایا جائے گا، لیکن انہوں نے یا دیگر حکومتی وزراء نے یہ نہیں بتایا کہ اگر نواز شریف کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ نہیں ہو گا تو وہ وطن واپس کیسے آئیں گے؟ گزشتہ سال دسمبر میں برطانیہ کا ایک خصوصی طیارہ غیر قانونی طور پر یو کے میں رہ رہے پاکستانیوں کو لیکر اسلام آباد پہنچا تو حکام نے اس طیارے کو لینڈ کرنے سے انکار کرتے ہوئے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ نواز شریف ایک سزا یافتہ مجرم ہیں پہلے برطانیہ انہیں پاکستان کے حوالے کرے، گو کہ بعدازں مذکورہ طیارے کو لینڈکرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ میرے سورسز کے مطابق اس واقعہ کے چند روز بعد برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل اور فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس کے وزیر برائے جنوبی ایشیا لارڈ طارق احمد کے درمیان ہونے والی’’ کوبرا میٹنگ ‘‘میں پاکستان کے اس مطالبہ پر گفتگو ہوئی تھی لیکن کیونکہ لندن میں رہتے ہوئے نواز شریف تمام قسم کے قانونی تقاضے پورے کر رہے ہیں اور پاکستان و برطانیہ کے مابین ملزموں کی حوالگی کا معاہدہ بھی انہیں ہے اس لئے انہیں زبردستی واپس جانے کا کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی حوالے کیا جا سکتا ہے چنانچہ اگر حکومت پاکستان نواز شریف کا پاسپورٹ کینسل کرکے انہیں سٹیٹ لیس کرتی ہے تو بات کلیتاً نواز شریف کے حق میں جائیگی ان کا برطانیہ میں قیام مزید آسان ہو جائے گا لیکن نقصان اگر ہو گا بطور ایک ریاست پاکستان کا ہو گا اور اقوام عالم میں پاکستان کی شدید سبکی ہو گی کہ یہ کس قسم کا ملک و قوم ہے کہ جس شخص نے تین دفعہ ایک ریاست کو ہیڈ کیا ہو سیاسی انتقام میں یہ لوگ کس حد تک جا سکتے ہیں یہ بات بھی پاکستان کے اثرانداز ہونے والے اداروں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ میں سٹیٹ لیس پرسن کیلئے باقاعدہ قانون موجود ہے اور نواز شریف اس قانون سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہوں گے ۔

قبل ازیں بھی میں انہی کالموں میں عرض کر چکا ہوں کہ سٹیٹ بزنس اس طرح نہیں چلایا جاتا کہ سبھی کچھ نواز شریف کے گرد گھوم رہا ہے حکومتی مشیر شہزاد اکبر یا تو انتہائی ناتجربہ کار ہیں یا عوام کو گمراہ کرکے سچ بتانا نہیں چاہتے کہ حکومت لاکھ کوشش کرے نواز شریف کو برطانیہ سے واپس نہیں لیجایا جا سکتا ،اگلے روز برطانیہ کے سرکردہ قانون دان بیرسٹر امجد ملک ایک انٹرویو میں بھی یہی گفتگو کر رہے تھے کہ برطانیہ میں میرا 20سالہ تجربہ کہتا ہے کہ نواز شریف جب بھی پاکستان گئے تو وہ اپنی مرضی سے جائیں گے!! حکومت پاکستان کے پاس نواز شریف کو پاکستان لیجانے کے دو طریقے ہیں لیکن حکومت یہ دونوں طریقے استعمال نہیں کرتی کیونکہ شائد اسے اچھی طرح علم ہے کہ پھر کیا ہو گا مثلاًاگر حکومت برطانیہ کے ساتھ EXTRADITION TREATYکرتی ہے تو پھر اس ضمن میں عالمی طور پر یا برطانوی قوانین کے مطابق پاکستان میں قانون و انصاف کے طریقہ کار کے تمام حسابات فراہم کرنا ہوں گے اور ثبوت دینا ہوں گے کہ ہمارے ہاں پولیس، عدالت اور تمام ریاستی ادارے کسی قسم کے سیاسی دبائو کے بغیر مبنی بر انصاف فیصلے کرنے میں آزاد و خود مختار ہیں، ہمارے ہاں سیاسی یا ذاتی انتقام نہیں لئے جاتے اور نہ ہی وچ ہنٹنگ کی جاتی ہے تو کیا ہم برطانوی حکومت کو یہ ثبوت دے سکتے ہیں ؟

حکومت انٹرپول سے بھی رابطہ کر سکتی ہے کہ نواز شریف کو ہماری عدالتوں نے سزائیں سنائی ہیں لیکن یہاں بھی ویسے ہی سوالات ہوں گے اسی قسم کے ثبوت فراہم کرنا پڑیں گے اس لئے حکومت یہ راستہ بھی اختیار نہیں کرتی، حکومت پاکستان کے پاس ایک اور راستہ موجود ہے کہ وہ لندن ہائیکورٹ میں مقدمہ دائر کر دے لیکن حکومت یہ آپشن بھی استعمال نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اسے پتا ہے کہ اگر ایسا کیا تو برطانوی عدالتوں میں نواز شریف کے وکلاء اس کا (حکومت کا )کیا حشر کریں گے، برطانوی عدالتیں اور برطانوی میڈیا مل کر حکومت پاکستان اور دیگر ریاستی اداروں پر وہ گند اچھالیں گے ’’ایسے ایسے گندے کپڑے دھوئے جائیں گے کہ الامان الحفیظ، نواز شریف کے وکلاء پاکستان میں عدالتی نظام پر انگلی اٹھائیں گے، ججوں پر دبائو کی بات کریں گے، اور اندازہ کریں اگر وہ جج ارشد ملک کی ویڈیو لندن ہائیکورٹ میں لے آئے ، اگر نواز شریف نے پانامہ کی بجائے اقامہ پر نکالے جانے کا ذکر کیا، اگر یہ ثابت کیا کہ میری پوری فیملی اور پارٹی کے سبھی سرکردہ لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ اگر ’’نیب‘‘ کی حراست میں بریگیڈیئر اسد منیر کی خودکشی کا ذکر ہوا تو کیا ہوگا اور عدالت کیا فیصلہ کریگی شائد حکومت پاکستان کو آگاہی ہے اس لئے حکومت یہ تین آپشن لینے کی بجائے میڈیا پر ’’نواز شریف کو واپس لائیں گے ‘‘ کا غوغا مچا کر قوم کو سچ بتانے سے گریزاں ہے، برطانوی عدالت چند سال قبل شائد یہ جنرل پرویز مشرف حکومت کے خاتمہ کے بعد کی بات ہے جب برطانیہ میں چند پاکستانی طلبہ کو القاعدہ کے ساتھ تعلق کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ان طلبہ کا مقدمہ بھی بیرسٹر امجد ملک نے لڑا تھا، ان طلبہ کو برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے گرفتار کیا تھا۔ بعدازاں انہیں بیگناہ قرار دیتے ہوئے ہائیکورٹ کے جج مسٹرمنگ نے اپنے طویل فیصلہ کے ایک پیرا گراف میں یہ بھی لکھا کہ ’’ اب ان پاکستانی طلبہ کو پاکستان ڈی پورٹ اس لئے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ پاکستانی ادارے ان پر مقدمہ بنا سکتے ہیں۔‘‘

حالات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک لیجانے کی بجائے حکومت کا فرض یہ نہیں ہے کہ ’’شوکت عزیز ٹائپ ‘‘ کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت کی طرف جائےاور الیکشن ریفارمز کے بعد نئے انتخابات کروا کے دنیا میں پاکستان سے متعلق منفی رجحان کے خاتمہ کیلئے کوئی منصوبہ بندی کرے۔ کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ساری انرجی نواز شریف اور دیگر اپوزیشن پر لعن طعن کرنے پر ضائع کرنے کی بجائے عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کچھ کریں؟