کورونا اور پچکے گال

January 17, 2021

سائنس دانوں کی ایک سالہ سر توڑ کوشش کے نتیجے میں کورونا ویکسین بن چکی ہے ۔ نئے امریکی صدر یہ ویکسین لگوا چکے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پولیو کی طرح کورونا سے جنگ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ کیا تھی؟ جواب: جہالت۔ گزشتہ ایک برس میں یادگار سازشی تھیوریز پیش کی گئیں۔ پاکستانیوں نے ان میں قابلِ قدر حصہ ڈالتے ہوئے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مارچ 2020ء میں اقوامِ متحدہ میں سابق پاکستانی مندوب عبداللہ حسین ہارون صاحب نے فرمایا کہ وائرس لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے تاکہ شام میں امریکی کیمیائی جنگ آگے بڑھائی جا سکے ۔ان کا کہنا تھا کہ سازش کروانے والوں نے یہ وائرس پہلے باقاعدہ پیٹنٹ کروایا۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے ڈاکو بینک لوٹنے سے پہلے پولیس کو فون پر باقاعدہ اطلاع کر دیں کہ بینک پہنچو۔ مزید فرمایا کہ اس کی ویکسین اسرائیل میں تیار ہو رہی ہے۔ جو ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے، صرف انہیں فراہم کی جائے گی۔ کسی نے انہیں یہ تھیوری سنائی اور انہوں نے سچ جان کر آگے پیش کردی۔بغیر کسی سائنس دان سے مشورہ کیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اگر ایسا وائرس اپنی لیبارٹریز میں تیار کریں تو جو سائنس دان چین، جاپان ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور روس میں بیٹھے ہیں ، وہ کیا بیٹھے بغلیں بجاتے رہیں گے یا ان کی یہ سازش بے نقاب کریں گے ؟

سفیر صاحب تو خیر اپنی طرف سے نیک نیتی کے ساتھ یہ وڈیو نشر کر رہے تھے، میڈیکل سائنس کے ساتھ کھلواڑ پاکستانیوں کا طرئہ امتیاز بن چکا ہے۔ ایک مشہور صحافی نے محض اپنی ایک وڈیو کی اچھی ریٹنگ کیلئے یہ جھوٹ گھڑ کر پھیلایا کہ اگر روزانہ دس لٹر پانی پیا جائے تو موٹاپا دنوں میں کم ہوتا ہے ۔ اس کے نتیجے میںبے شمار افراد کے پیٹ مشکیزوں کی شکل اختیار کر گئے اور وہ بیت الخلا میں بیٹھے اس کی جان کو روتے رہے ۔وزن تواس طرح کم ہو ہی نہیں سکتا تھا، نہ جانے کتنے بدہضمی کا شکار ہوئے اور گردے کے کتنے مریض ﷲ کو پیارے ہوئے۔ روپیہ جب انسان کی واحد ترجیح بن جائے تو اس کے درجات چار ٹانگوں والے جانوروں سے بڑھ جاتے ہیں۔

ایک مذہبی مفکر ہیں، جنہوں نے اس ایک سال میں سازشی تھیوریوں کو کارِ ثواب سمجھ کر نشر کیا۔کہیں سے ایک طبیب پکڑ لائے ۔اس کی بہت ساری خصوصیات بیان کیں ، جنہیں سنتے ہوئے یہ محسوس ہوا کہ ملکہ برطانیہ اور موت کے درمیان فقط یہ طبیب ہی حائل ہے ۔ ماضی میں اس مفکر کے بیان کردہ زریں اقوال میں سے کچھ یہ ہیں 1۔ ٹیکنالوجی ایک بت ہے۔ اسی بت کے بنائے ہوئے کیمرے کے سامنے روز اپنا رخ ِ روشن رکھ کر خطاب فرماتے ہیں۔ روز گاڑی میں سفر کرتے ہیں ۔2۔ کرنسی نوٹ ایک دھوکہ ہے۔ سونے کی اشرفیاں استعمال کی جانی چاہئیں۔ 3۔ تاریخی طور پر کوئی پاسپورٹ اور سرحدیں نہ ہوا کرتی تھیں چنانچہ انہیں ختم کر دینا چاہئے۔ اس پسِ منظر میں ، میرا دل دھک دھک کر رہا تھا کہ ان کا دریافت کردہ یہ نابغہ آج میڈیکل سائنس کے ساتھ پتہ نہیں کیا کر جائے۔

طبی نابغے نے مایوس نہیں کیا۔ چھٹتے ہی فرمایا: اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ہم ہی تمہیں کھلاتے ہیں، ہم ہی تمہیں پلاتے ہیں اور ہم ہی تمہیں شفا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی علاج ہوگا، وہ فقط غذا سے ہوگا، دوا سے نہیں۔ فرمایا: قرآن میں کسی ویکسین کا ذکر نہیں، کسی انسولین کا ذکر نہیں، کسی کیمو کا ذکر نہیں۔ میں سوچنے لگا کہ قرآن میں تو موبائل فون کا ذکر بھی نہیں ۔ اللہ نے کبھی نہیں کہا کہ قرآن ایجادات کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔ یہ جو چند صدیوں میں انسانی آبادی 7.8ارب تک جا پہنچی ہے تو یہ میڈیکل سائنس اور بالخصوص ویکسی نیشن ہی کا نتیجہ ہے۔ نابغے کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ جب پولیو وائرس جسم میں داخل ہو جاتاہے تو پھر کہانی ختم ہو جاتی ہے ۔ پھر آپ ساری زندگی جتنی بھی اچھی غذائیں کھاتے رہیں ، سینٹرل نروس سسٹم کبھی بحال نہیں ہو سکتا۔

مفکر صاحب اچانک وجد میں آکر چلائے ’’یہ جو ویکسین مافیا ہے۔۔۔۔‘‘ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ مفکر اور نابغہ دونوں ویکسینیٹڈ ہیں۔ ان کی اولادیں ویکسینیٹڈ ہیں۔ ویکسینیشن سے پہلے دس میں سے صرف چار بچّے سنِ بلوغت تک پہنچ پاتے تھے۔

پاکستان میں کورونا سے متعلق درج ذیل افواہیں پھیلائی گئیں 1۔ کورونا امریکہ نے چین کو تباہ کرنے کے لیے ایجاد کیا۔ 2۔(جب چین نے قابو پالیا) کورونا چینیوں نے امریکیوں کو تباہ کرنے کے لیے ایجاد کیا۔ 3۔ کوروناہے ہی نہیں ، ہمیں تو کچھ نہیں ہو رہا۔ (ان میں بہت سے لوگ کورونا کا شکار ہو کر ٹھیک بھی ہو چکے تھے اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا)۔ 4۔ ڈاکٹر اچھے بھلے صحت مند لوگوں کو زہر کے انجیکشن لگا کر مار رہے ہیں۔ انہیں اس کے عوض فی قتل امریکہ سے تین لاکھ روپے ملتے ہیں۔ (اور جو چار لاکھ امریکی کورونا سے ہلاک ہوئے، انہیں غالباً یوگنڈا سے معاوضہ ملا)۔ یہ سازشی تھیوریز آپس میں متصادم تھیں ۔

ایک عبرت ناک واقعہ پیش آیا۔ایک ان پڑھ دوست کو ہیپاٹائٹس لاحق تھا۔ مقامی طبیب سے علاج کرواتا رہا۔ ایک دن خون کی قے کرتا ہوا بے ہوش ہو گیا۔ اسے اٹھا کر ہسپتال لایا گیا۔ ڈاکٹرز نے بھرپور کوشش کی اور اللہ نے اسے ایک نئی زندگی دی۔ کورونا پھیلنے کے بعد اس شخص نے میرے کان میں سرگوشی کی:ہسپتالوں میں ڈاکٹر لوگوں کو زہر کے انجکشن لگا کر مار رہے ہیں۔ یہ وہی شخص تھا، جسے ابھی چند ماہ قبل انہی ڈاکٹرز نے موت کے منہ سے باہر نکالاتھا۔

اس ساری داستان سے مجھے پچکے ہوئے گال یاد آئے، جو ایک انتہائی دلچسپ طبی داستان ہے۔ اسکے علاوہ نبض سے دانتوں کا علاج بھی۔ (جاری ہے)