انسان کی پہچان کیا ہے؟

May 21, 2013

فتح پائے تو دماغ خراب نہ ہو اور شکست کھا جائے تو دل چھوٹا نہ ہو۔ چھوٹے آدمی کی پہچان یہ ہے کہ اسے نہ فتح ہضم ہوتی ہے نہ وہ باوقار طریقہ سے شکست قبول کرتا ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے اب تک مجھے تو ایسا ایک الیکشن بھی یاد نہیں جس کے دوران اور بعد میں ”دھاندلی“ اور ”جھرلو“ جیسے لفظ استعمال نہ ہوئے ہوں۔ فرشتوں کے ووٹوں سے لے کر جعلی ووٹوں کی کہانیاں سنتے سنتے ہی جوان اور پھر بوڑھے ہو گئے یعنی … ”تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا“۔ مارشل لاء بھی دراصل انتخابی دھاندلی کی ہی ایک میکرو لیول شکل ہے اور پیپلز پارٹی سے ”تلوار“ کا انتخابی نشان چھیننا بھی دھاندلی تھی۔ انتخابی حلقوں کی توڑ پھوڑ بھی دھاندلی ہے اور انتخابی اخراجات کے حوالہ سے اخراجات میں تجاوز کرنا بھی دھاندلی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ”دھاندلی“ ہمارے خمیر میں شامل ہے جس کی بہت سی تاریخی وجوہات ہیں جن کا ذکر پھر کبھی کہ فی الحال تو صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے ہمارے معاشرے میں یہ کسی ”وے آف لائف“ سے کم نہیں۔ اگر اوپر آئین توڑ کر دھاندلی کی جائے گی تو نیچے ٹریفک اشارہ توڑ کر یہ ”قومی فریضہ“ سرانجام دیا جائے گا۔ جہاں حکمران سکیورٹی کی آڑ میں سڑکوں پر قبضہ اور تجاوزات کے مرتکب ہوں گے وہاں چھابڑی والا فٹ پاتھ پر قبضہ کر کے پیدل چلنے والے کا حق بھی مارے گا۔ اگر دودھ اور دوا میں ملاوٹ کی ”دھاندلی“ ہمارا کلچر ہے تو انتخابات کو دھاندلی سے پاک رکھنے کی توقع تو کوئی پاگل ہی کرے تو کرے کہ میرے نزدیک یہ اس ”پیکیج“ کا حصہ ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ کوئلوں کی دلالی ہے جس میں صورت کالی ہو نہ ہو ہاتھ ضرور کالے ہوں گے۔ میں حقیقت پسند آدمی ہوں سو مجھے دھاندلی پر قطعاً حیرت نہیں ہوتی یہ علیحدہ بات کہ اگر کبھی دھاندلی سے پاک الیکشن ہو گئے تو شاید یہ خبر سن کر میرا ہارٹ فیل ہو جائے۔
حالیہ الیکشن کے بعد بھی خیبر تا کراچی براستہ لاہور ہر جگہ دھاندلی کی قوالی جاری ہے۔ کون سی سیاسی جماعت ہے جو ”پوپ“ یا ”کلاسیکل سٹائل“ میں دھاندلی کا راگ نہیں الاپ رہی؟ صبح صبح اخباروں کا جو ”تھبہ“ آتا ہے اس کی ترتیب میری ہدایات کے مطابق ہوتی ہے۔ سرفہرست ”جنگ“ ہوتا ہے۔ آج 20/ مئی یہ کالم شروع کرنے سے پہلے جب ”جنگ“ اٹھایا تو اس کے لوئر ہاف میں مولانا فضل الرحمن کے بیان کی سرخی تھی ”انتخابات میں دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا۔ قوم کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا“ حالانکہ قوم کے حق بلکہ حقوق پر ڈاکے تو روز اول سے جاری ہیں۔ دھاندلی کا یہ کھیل تو پاکستان بنتے ہی ”جعلی کلیموں“ اور ”جعلی ذاتوں“ کی شکل میں شروع ہو گیا تھا جو ”جعلی ڈگریوں“ اور ”جعلی لیڈروں“ کی شکل میں زور و شور سے جاری ہے لیکن میری فکر دھاندلی سے کچھ آگے ہے کہ اس بدی کو یہیں ختم نہ کیا گیا تو بڑی تباہی مچے گی۔ کون نہیں جانتا کہ میں تحریک انصاف کو پسند اور ن لیگ کو ناپسند کرتا ہوں اور اس حوالہ سے میری اپنی دلیلیں اور لاجک ہے۔ مجھے اس بات کی بھی رتی برابر پرواہ نہیں کہ آخری قہقہہ کس کا ہو گا؟ فائنل میچ کون جیتے گا؟ میرا مسئلہ یہ ہے کہ جسے صحیح سمجھوں گا اس کا بھرپور ساتھ دوں گا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں غلط کو غلط نہ کہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تحریک انصاف کی ٹکٹوں کے حوالہ سے غلط فیصلے ثبوتوں کے ساتھ میرے علم میں لائے گئے تو میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر ڈانگ اٹھا لی تھی کیونکہ غیر مشروط وفاء اور محبت میں بھی کچھ شرائط ضرور ہوتی ہیں۔ یہ ساری تمہید اس لئے کہ ایک انتہائی تکلیف دہ بات میرے علم میں لائی گئی جس کا تعلق بھی میرے شہر سے ہے جس کے ایک حصہ میں حامد خان اور سعد رفیق کے درمیان دھاندلی کے حوالہ سے ”میچ“ جاری ہے۔ حامد خان ممتاز قانون دان ہیں اور کردار ایسا کہ برے وقتوں میں بھی پی ٹی آئی کے ساتھ جڑے رہے لیکن ”صاحب“ آدمی ہیں اور ”عوامیت“ ان کے مزاج کا حصہ نہیں۔ غریب اور پسماندہ علاقے تو ایک طرف آپ نے متمول آبادیوں کے ساتھ بھی ”انٹر فیس“ اور ”انٹر ایکٹ“ نہیں کیا سو نتیجہ یہ نکلا کہ پوش علاقوں میں تو جیت گئے لیکن بھاری اکثریت والے غریب، متوسط، زیریں متوسط علاقوں میں عوامی قسم کا اعلیٰ تربیت یافتہ تجربہ کار ورکر سعد رفیق زیادہ ووٹ لے گیا جسے نوعمری میں جمعیت کی تربیت حاصل رہی۔ خان صاحب نے تو ڈی ایچ اے، عسکری ہاؤزنگ اور مین کینٹ میں بھی کمپین ڈھنگ سے نہ چلائی کہ عمران خان کا نام ہی کافی تھا تو ایل ڈی اے کوارٹروں، صدر، بیدیاں روڈ، غازی روڈ، نشاط کالونی، چرڑ، کوڑا پنڈ اور کیر میں کیسے جاتے؟ میں ان علاقوں سے اس لئے بھی بہت واقف ہوں کہ 80 کی دہائی میں میں نے چند ایکڑ پر مشتمل فارم ہاؤس بنایا تھا۔ گاؤں کا نام ٹھیٹھہ تھا اور یہ رقبہ میں نے یعقوب چکری نامی آدمی سے خریدا جس کے ساتھ ہی اصغر گھرکی مرحوم کا رقبہ بھی تھا۔ حامد خان صاحب مخصوص علاقوں میں اپنی اکثریت کی بناء پر ٹھیک ہی سوچ رہے ہوں گے لیکن اتنے ممتاز قانون دان کو اتنا تو کرنا چاہئے تھا کہ گیارہ مئی صبح 8 بجے سے شام گئے تک پریذائیڈنگ افسر، ریٹرننگ افسر (ایڈیشنل سیشن جج) اور ڈی آر اور (ڈسٹرکٹ سیشن جج) کے پاس کوئی تحریری شکایت ہی جمع کرا دیتے۔ بارہ مئی دوپہر کے بعد ہی دھاندلی کا خیال کیوں؟ اصل بات یہ کہ فریقین کی خواہش کے مطابق دونوں طرف ہی ری کاؤنٹنگ ہونی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو سکے لیکن اصل کہانی کچھ اور ہے۔ مجھے دلچسپی نہیں کہ کون جیتے اور کون ہارے گا۔ متعلقہ اتھارٹیز میرٹ پر جو بھی فیصلہ کریں، برپشم قلندر لیکن خدا کے لئے… دھاندلی کے رپھڑ کو دھاندلی سے آگے نہ جانے دیں۔ ہمارے کلچر میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ… بہنیں، بیٹیاں اور بچے سانجھے ہوتے ہیں تو یہ سانجھ نہ توڑو۔ سعد رفیق کی اہلیہ اور بچوں کو درس قرآن کی محافل سے لے کر سکولوں تک ہراساں کیا جا رہا ہے جو انتہائی افسوس ناک اور ان دی لانگ رن بہت خطرناک بھی ہو گا۔ دھاندلی کی الزام بازیوں میں خاندان بھی لپیٹ لئے جانے کی رسم چل نکلی تو اس شر اور غلیظ روایت کو ریورس کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اپنی اپنی سوچ کے ساتھ ساتھ بہنوں، بیٹیوں، بچوں کی سانجھ بھی برقرار رکھو تو بہتر ہے ورنہ بچا کھچا بھی برباد سمجھو!