سیاسی اور غیر سیاسی تربیت گاہیں!

February 08, 2021

قومی اسمبلی میں اگلے روز ایسا ہنگامہ ہوا، جو پاکستان جیسی جمہوریتوں کےلئے انتہائی خطرناک ہے۔ رپورٹس کے مطابق ارکان ایک دوسرے سے گھتم گتھا ہو گئے۔ ارکان کے درمیان گالم گلوچ بھی ہوئی۔ ایوان میں جوتا بھی لہرا دیا گیا۔ دھکم پیل میں ایک معزز رکن قومی اسمبلی سیڑھیوں سے گر گئے۔ ایوان میں ہنگامے کا یہ دوسرا روز تھا، جب ایسی افسوس ناک صورت حال پیدا ہو ئی۔

ویسے تو دنیا کے مختلف جمہوری ممالک کے منتخب ایوانوں میں ایسی صورت حا ل پیدا ہوتی رہتی ہے۔ بسا اوقات ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی ایسے واقعات رونما ہوجاتےہیں لیکن پاکستان جیسے ملک کی قومی اسمبلی میں اس طرح کے واقعات کو جمہوریت کو نقصان پہچانے کے جواز کے طور پر استعمال کرنے کے امکانات دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ اس سے گزشتہ جمعرات کو مقدس ایوان میں ارکان کو گتھم گتھا دیکھ کر اور گالم گلوچ کی آوازیں سن کر نہ صرف بہت افسوس ہوا بلکہ انتہائی تشویش بھی ہوئی۔

ہمارے خطے کے ایک ملک( میانمار )برما میں عوام کے اقتدار پر فوج کے قبضے کے بعد دل دہل گیا ہے کیونکہ ہم نے زندگی بھر جمہوریت کے لئے جدوجہد کی ہے اور تکالیف برداشت کی ہیں۔ میانمار میں اقتدار پر قبضے نے ہمیں تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ میانمار کے سانحے سے قبل جمہوریت کے حامی ہمارے ترقی پسند دانشوروں کا خیال یہ تھا کہ دنیا میں افواج کے اقتدار پر قبضے کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ صرف کچھ افریقی ممالک اور خانہ جنگی کا شکار عرب ممالک میں اس طرح کے خطرات کسی حد تک موجود ہیں لیکن ہمارے خطے جنوبی ایشیا میں یہ خطرات لاطینی امریکہ کی طرح بہت حد تک کم ہو گئے ہیں۔ میانمار کے واقعہ کے بعد یہ اندازے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات کے بارے میں بھی ہونے والے تجزیے پہلے کی طرح سائنسی اور جدلیاتی پیمانوں پر نہیں ہو رہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں سیاسی مباحثوں کی پہلے والی روایات نہیں رہی ہیں۔

ان حالات کے تناظر میں مجھے قومی اسمبلی میں ہونے والے ہنگامہ سے خوف پیدا ہوا۔ اس کے اسباب کی میں مزید وضاحت کر دیتا ہوں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ جولائی 2018 کے انتخابات میں جو سیاسی توازن قائم ہوا تھا یا بقول اپوزیشن قائم کیا گیا تھا، وہ اب برقرار نہیں رہا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عوام کے ساتھ ساتھ اپنے حامی مقتدر حلقوں کی توقعات پر پورا نہیں اتری۔ یہ ایک ایسا جھٹکا (Shock) ہے، جس میں کچھ بھی غیر متوقع ہو سکتا ہے۔ دوسرا سبب دنیا اور خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال ہے، جس میں ہونے والی نئی صف بندی میں سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی ہیں اور وہ بے یقینی کا شکار ہیں۔ تیسرا اور اہم سبب یہ ہے کہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں خود اپنے اندر انفرادی اور گروہی مفادات کی ’’ فالٹ لائن‘‘ پر کام کر رہی ہیں۔ اس لئےمیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے منتخب ارکان کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔میں اسمبلیوں اور ارکان اسمبلی کے استحقاق اور احترام کا پورا ادراک رکھتا ہوں۔ اس لئے کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا، جس سے یہ استحقاق مجروح ہو لیکن مجھے مجبوراً اس حقیقت کااظہار کرنا پڑ رہا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں منتخب ارکان کے ساتھ ساتھ منتخب ایوانوں کی کارکردگی کے معیار کو تنزلی کی طرف جاتے ہوئے محسوس کیا ہے۔ موجودہ منتخب ایوان (بشمول سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں )کے معیار پر مجھے بہت زیادہ تشویش ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی تربیت کے لیے تربیت گاہوں ( Nurseries ) کو ختم کر دیا گیا ہے۔ جمہوریت میں لوکل باڈیز کی بہت اہمیت ہے۔ بااختیار لوکل باڈیز جمہوریت کی سب سے اہم تربیت گاہ ہوتی ہے۔ طلبا یونینز سیاست کی بنیادی تربیت گاہ تھیں، جنہیں آمروں نے ختم کر دیا مگر جمہوری حکومتوں نے بھی اسے بحال نہیں کیا۔ طلبا سیاست نے پاکستان کے بہت بڑے اور مدبر سیاست دان پیدا کئے۔ اسٹوڈنٹس یونینز پر پابندی لگا کر اس تربیت گاہ کو ختم کر دیا گیا۔ ٹریڈ یونین ازم یا محنت کشوں کی سیاست دوسری تربیت گاہ تھی۔ ٹریڈ یونین کی سیاست پر پابندی لگا کر اس تربیت گاہ یعنی نرسری کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ تیسری تربیت گاہ سیاسی جماعتوں کے ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر ہونے والے کنونشنز اور اجلاس ہوا کرتے تھے ،جن کی سفارشات پر سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیاں بناتی تھیں اور نچلی سطح سے آنے والی سیاسی قیادت کو صوبے اور مرکز کی سطح پر کردار سونپا کرتی تھیں۔ یہ تربیت گاہ بھی ختم ہو گئی۔ چوتھی تربیت گاہ نظریاتی مباحثے ہوتے تھے۔ وہ بھی اب نہیں رہے۔ پانچویں تربیت گاہ عوام میں رہنے والے لوگوں کی کچہریاں ہوتی تھیں۔ وہ بھی اب نہ ہونے کے برابر ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگوں کی تلاش بھی ختم ہو گئی ہے۔ ان تربیت گاہوں سے لوگ کندن بن کر نکلتے تھے اور جب وہ منتخب ایوانوں میں پہنچتے تھے تو ان کی بات سن کر ترقی یافتہ جمہوری ممالک کو احساس ہوتا تھا کہ ان کے عظیم دانشور یہ بات کہنے سے رہ گئے لیکن اب یہ سیاسی تربیت گاہیں (نرسریز )ختم ہو گئی ہیں اور پاکستان میں جمہوریت کے لئےحالات بہت ہی نازک ہیں۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں رونما ہونے والے واقعات پر مجھے بہت زیادہ تشویش ہے۔ شاید ارکان پارلیمنٹ کو اتنی تشویش نہیں ہو گی۔