معاشی اِشاریے کیا کہتے ہیں؟

February 28, 2021

حکومتوں کی کارکردگی جانچنے کی پہلی کسوٹی آج کی دنیا میں بالعموم معیشت کے میدان میں ان کی پالیسیوں کے ثمرات و نتائج ہوتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اپنی تقریباً نصف آئینی مدت پوری کرچکی ہے لہٰذا یہ دیکھا جانا فطری امر ہے کہ اس کی معاشی کارکردگی کس حد تک ان وعدوںکے مطابق رہی ہے جو اس کی قیادت نے ہم وطنوں سے کیے تھے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ کے معاشی اِشاریوں پر مبنی وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس مدت میں مجموعی صورت حال کچھ زیادہ امید افزاء نہیں رہی کیونکہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں، برآمدت ، سرمایہ کاری اور بجٹ خسارے جیسے اہم ترین اشاریے منفی ہیں جبکہ آنے والے دنوں میں بھی حکومتی اقدامات کے باعث مہنگائی میں مسلسل اور خطیر اضافہ یقینی نظر آرہا ہے۔ ٹیکس وصولی اور ترسیلات زر بڑھنے سے معاشی شرح نمو میں بہتری آئی ہے لیکن حقیقی معاشی ترقی کے لیے سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ لازمی ہے۔ برآمدات میں کمی کے ساتھ درآمدات کا بڑھنا بھی کوئی مثبت بات نہیں کہ توازنِ تجارت پر اس کا اثر منفی ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سات ماہ میں مہنگائی کی اوسط شرح 8.2فیصد رہی۔آٹے، گھی، دال، انڈے اور مرغی سمیت 25اشیا ء کی قیمتوں میں اضافہ اور اس کے مقابلے میں صرف 5چیزوں کے نرخوںمیں کمی ہوئی ۔ اس مہنگائی میں یقینی طور پر بجلی، گیس ، پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کلیدی کردار ادا کررہا ہے لیکن یہ سلسلہ کسی صورت رکنے میں نہیں آرہا۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے یکم مارچ سے پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں بالترتیب 20روپے اور 19.61روپے فی لیٹر اضافے کی سفارش کی ہے۔ان اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافے کا نتیجہ بہرحال مہنگائی کے سیلاب کے مزید منہ زور ہوجانے اور لوگوں کی زندگی مزید دشوار بنانے ہی کی شکل میں نکلے گا۔ دوسری طرف ملکی برآمدات کی لاگت بڑھنے سے عالمی منڈی میں مسابقت مشکل تر ہوتی چلی جائے گی۔ مجموعی سرمایہ کاری میں 78فیصد کمی کا واقع ہونا یقینی طور پر نہایت تشویش ناک ہے ۔ پچھلے مالی سال کے ابتدائی سات ماہ میں 3ارب 43کروڑ81لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی جبکہ رواں مالی سال کے سات مہینوں میں صرف 75 کروڑ 50لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ۔ یہ صورت حال اس بناء پر بالخصوص وضاحت طلب ہے کہ پچھلے مالی سال کے ابتدائی سات ماہ میں کورونا کی وباء نے معمولات زندگی اور کاروباری سرگرمی کو جتنا زیادہ متاثر کررکھا تھا موجودہ مالی سال میں اس حوالے سے خاصی بہتری رہی ہے۔ اس کے باوجود سرمایہ کاری میں اتنی زیادہ کمی کیوں ہوئی؟اس کے اسباب کا تعین اور ان کا جلد از جلد ازالہ ناگزیر ہے۔ بیرون ملک سے پاکستانی شہریوں کی ترسیلات زر کے بڑھنے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کا 20ارب 20کروڑ ڈالر تک جاپہنچنا یقینابہتر پالیسیوں کا نتیجہ ہے لیکن حقیقی معاشی ترقی ملک کے اندر سرمایہ کاری بڑھنے ، نئی صنعتوں کے قیام ، روزگار کے مواقع اور برآمدات میں اضافے کا نتیجہ ہوتی ہے۔لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں بہتری اچھی علامت ہے جس سے برآمدات میں اضافہ ہونا چاہیے لیکن بجلی گیس پٹرول کی مسلسل مہنگائی بہرحال اس عمل میں رکاوٹ ہے۔ ٹیکس وصولی کا بڑھنابھی معیشت کو بہتر بنانے کا سبب بنے گا لیکن ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے پر مزید توجہ دی جائے تاکہ ٹیکس کی شرح کم سے کم کرکے زیادہ آمدنی کا حصول ممکن ہو اور لوگوں کو بخوشی ٹیکس دینے پر تیار کیا جاسکے۔ گندم اور دیگر فصلوں کے مطلوبہ اہداف حاصل ہوجانے کے امکانات خوش آئند ہیں لیکن آٹا چینی مافیا کو قابو میں رکھنا لازمی ہے کیونکہ اس کے بغیر اس کا فائدہ عام صارف تک منتقل نہیں کیا جاسکتا ۔