جناب وزیراعظم کشیدگی ختم کریں

February 28, 2021

پاکستان پر امریکی اور مغربی دنیا کے مخصوص سیاسی اور علاقائی و جغرافیائی مفادات کے پس منظر میں FATF کی شرائط کی تلوار بدستور لٹکی ہوئی ہے اور خدشہ ہے کہ یہ دبائو مزید کچھ عرصہ برقرار رہے گا، جب تک پاکستان عملی طور پر ان کی شرائط کے آگے جھک نہیں جاتا ۔عملاَ اس دبائو کا اخلاقی طور پر کوئی جواز نہیں لیکن مغربی لابی چاہتی ہے کہ پاکستان کسی بھی طرح معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر پوری طرح کاربند نہ رہ سکے اورا س کے باعث بین الاقوامی کمپنیاں اسی اعتماد سے پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کر سکیں اور اس کے باعث مقامی سرمایہ کار بھی کسی نہ کسی مخمصے میں رہیں۔ FATF کے اقدامات یا پالیسی عملاََ پاکستا ن کی خود مختاری کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے جس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو اپنی روزمرہ کی سیاسی محاذ آرائی اور بد گمانیوں سے نکل کر ایک ساتھ صرف اور صرف ملک کے لئے سوچنا ہوگا ۔اس کے لئے فیصلوں کا اختیار سینئر سیاسی قائدین کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا جس کیلئے دو طرفہ فراخ دلی کی ضرورت ہے یہ کام بچوں کے بس کی بات نہیں، اس وقت مغربی دنیا میں پاکستان کے بارے میں بڑھنے والے منفی تاثر کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں اہم قومی امور پر افہام و تفہیم کا فقدان ہے، یہ بڑا افسوسناک امر ہے کیونکہ اس کے باعث معاشی ترقی نہیںہو رہی،جو بھی حکومت سے باہر ہوتا ہے اس کو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا،جبکہ جو لوگ حکومت میں ہوتے ہیں انہیں اپنے سوا کوئی بھی صحیح نہیں لگتا۔ اس صورتحال کی سب سے بڑی قیمت پاکستانی قوم چکا رہی ہے۔ مہنگائی کا بڑھتا ہوا دبائو ہر ایک کے لئے پریشان کن ہے پہلی بار مڈل کلاس متاثر ہو رہی ہے۔ برسوں سے یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے اب کی بار سیاسی حالات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی بھی طرح ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ دوسری طرف قومی اداروں کا وقار دائو پر لگ رہا ہے۔ کیا یہ کوئی خدمت ہے کہ سیاسی معاملات کے پسِ منظر میں انہیں ہدف بنایا جائے؟ کیا ہمارے سیاستدانوں نے کبھی اپنی پارلیمنٹ کی کارکردگی پر غور کیا جو کوئی مانے یہ نہ مانے، عام افراد کی نظر میں وہ بڑی ہی مایوس کن ہے۔ کیا جمہوریت کے استحکام کیلئے قائم ہونے والی پارلیمنٹ ایسے کام کرتی ہے؟ یہ سلسلہ پچھلے 25 سے 30 سالوں سے ایسے ہی چل رہا ہے جو حکومت میں ہوتا ہے وہ دوسرے کو برداشت نہیں کرتا اور جو اپوزیشن میں ہوتا ہے وہ حکمرانوں پر تنقید کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ یہ امر کسی بھی لحاظ سے صحت مند رحجان نہیں، اس کی حوصلہ شکنی کیلئے کسی اور کو نہیں بلکہ ہمارے سیاسی قائدین کو اپنا قومی فریضہ انجام دینا ہوگا ۔پارلیمنٹ کا اقدام اور اسے فعال بنانا ممبران پارلیمنٹ کا فریضہ ہے اگر اس ایشو کو صحیح سپرٹ میں ایڈریس کر لیا جائے تو یقیناً اس سے FATF اور IMF سمیت تمام بین الاقوامی ایشوز خود بخود حل ہوتے جائیں گے، اس لئے کہ جب دنیا کو یہ معلوم ہو گا کہ پاکستان میں سب سیاسی قائدین جمہوریت کا استحکام چاہتے ہیں جس کیلئے پارلیمنٹ بھی فعال ہے اس کے بعد بار بار انہیں پاکستان کو اپنی شرائط کے تابع کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اس کے لئے وزیراعظم عمران خان سینیٹ الیکشن کے بعد وسیع قومی سوچ کے جذبے کے تحت پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن قائدین کو بات چیت کی دعوت دیں اور 23مارچ سے اس نیک کام کا آغاز کریں جس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافہ ہو گا اور مقامی طور پر حالات نارمل ہونے میں بڑی مدد ملے گی جس کی ملک و قوم کو اشد ضرورت ہے۔ یہ ملک ایلیٹ کلاس کا نہیں، غریب اور متوسط طبقے کا ہے جنہیں اس ملک میں رہنا ہے اور جو سب سیاسی کشیدگی اور بد مزگی سے زیادہ پُر امن اور خوشحال پاکستان کا خواب دیکھنا چاہتے ہیں۔