پاکستانی معیشت کیلئے جاپانی اور جرمن زبان کی اہمیت

April 27, 2016

پاکستان تیسری دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جہاں بیش بہا وسائل سے نوازا ہے وہیں پاکستانی عوام کو بہترین عقل و دانش سے بھی نواز کر دنیا میں ممتاز کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی قوم دنیا کی ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستانی قوم کو اس پائے کے حکمراں کبھی میسر نہیں آئے جو ملک اور قوم کو کامیابی کے راستے پر گامزن کرتے ، لیکن اس کے باوجود پاکستان آہستہ آہستہ ترقی کی جانب سفر کرہی رہاہے ۔پاکستانی قوم کے دیار غیر میں مقیم سپوتوں نے دنیا بھر میں انفرادی سطح پر اپنا ایک مقام ضرور بنایا ہے جسکی تائید پوری دنیا کرتی نظر آتی ہے اور خوش قسمتی سے دنیا بھر میں ترقی کرنے والے پاکستانیوں کی اپنے وطن سے محبت لازوال ہے اور ہر ترقی کرنے والے پاکستانی کی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح اپنے وطن اور اپنی قوم کے لئے کچھ کرسکے لیکن بدقسمتی سے ان کامیاب پاکستانیوں کی اپنے ملک میں سننے والا کوئی نہیں ہے ، کوئی ان سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ انھوں نے ترقی کس طرح کی ہے ، کوئی ان کے تجربات سے فائد ہ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن حکمرانوں سمیت اعلیٰ شخصیات کو ذاتی طور پر ان پاکستانیوں کی اس وقت ہی ضرورت پیش آتی ہے جب وہ بیرون ملک علاج کیلئے جاتے ہیںیاسیاسی پناہ کے بعد معاشی ضروریات پوری کرنے کیلئے ان پاکستانیوں کی خدمات لی جاتی ہیں ، بہرحال یہ تو وہ دکھ ہے جو بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی کو ہی اپنے ملک کے حوالے سے لاحق ہے لیکن چند گزارشات ایسی بھی ہیں جن پر عمل کرکے پاکستان نہ صرف ان اہم ممالک کے ساتھ عوامی سطح پر تعلقات بہتر کرسکتا ہے بلکہ پاکستانی عوام کو بھی ترقی کے لاتعداد مواقع میسر آسکتے ہیں ، ان اہم گزارشات میں سب سے اہم بیرون ملک چند اہم زبانوں سے آشنا ہونا ہے جس کے لئے ان زبانوں کی بنیادی تعلیم کی فراہمی کے لئے اقدامات پاکستان کے ساتھ مذکورہ ممالک کے تعلقات کو بلندی کی سطح پر لاسکتے ہیں ، یہاں میں پاکستان کے ان دونوں دوست ممالک کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کی زبانوں کی تعلیم حاصل کرکے پاکستانی عوام کے لئے ایک نئی مارکیٹ حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ دو ممالک پاکستان کے قریبی دوست جاپان اور جرمنی ہیں ،جی ہاں انگریزی زبان کے بعد جن دو زبانوں کی عالمی سطح پر اہمیت ہے وہ جاپانی اور جرمن زبانیں ہی ہیں ، یہ دونوں ممالک بالترتیب دنیا کی تیسری اور چوتھی بڑی معیشت رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کی فی کس آمدنی پینتیس ہزار ڈالر سے زائد ہے اور خاص بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نے اپنی اپنی زبان میں ہی ترقی کی ہے اور پاکستان کے لئے ان دونوں ممالک سے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے ان دونوںممالک کے عوام بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں ، لہٰذا اگر حکومتی سطح پر جاپان اور جرمنی سے تعلقات میں فروغ کے لئے کوششیں کی جائیں اور پاکستان میں حکومتی سرپرستی میں سرکاری اور نجی سطح پر جاپانی اور جرمن زبان کی تعلیم کی فراہمی کے ادارے قائم کئے جائیں تو اس سے پاکستان ،جاپان اور جرمنی کے درمیان عوامی سطح پر نہ صرف تعلقات میں بہتری آسکتی ہے بلکہ پاکستانی عوام کو جاپان اور جرمنی کی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے بے پناہ مواقع حاصل ہوسکتے ہیں اس سلسلے میں جاپان اور جرمنی میں کامیاب پاکستانی شخصیات بھی آگے آئیں گی اورپاکستانیوں کے لئے جاپان اور جرمنی کے دروازے کھولنے میں اہم کردار ادا کریںگی، اس حوالے سے جرمنی میں مقیم سینئر اور کامیاب پاکستانی کاروباری و سماجی شخصیت سید خرم کے مطابق انھوں نے بذات خود کئی دفعہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے کوششیں کیں جبکہ کئی دفعہ جرمن کاروباری شخصیات کو بھی پاکستان لے جانے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ ہی پاکستان سے اتنا منفی اور مایوس کن ردعمل سامنے آیا کہ پاکستان کے لئے ہمارے سارے خواب ادھورے رہ گئے ، انھوں نے کہا کہ وہ پاکستان کی نئی نسل کے لئے بھی اپنے پاکستانی اور جرمن دوستوں کے ساتھ مل کر کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں حکومتی سطح پر جس تعاون کی ضرورت تھی وہ نہ ہونے کے باعث ہم پاکستان میں تعلیمی منصوبے شروع نہیں کرسکے ،لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری ہے عنقریب پاکستان میں جرمن زبان کی تعلیم سمیت دیگر کئی اہم تعلیمی منصوبے شروع کریںگے تاکہ پاکستان میں نئی نسل کے لئے یورپ کے دروازے کھول سکیں ، اسی طرح جاپان میں مقیم معروف پاکستانی کاروباری وسماجی شخصیت چوہدری آصف محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی منصوبے شروع کرنے کے لئے بہت پیسہ خرچ کیا لیکن حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے سبب ہمیںمقامی سطح پر بہت تنگ کیا گیا جس کےبعد کئی منصوبے ادھورے چھوڑ کر واپس آگئے ہیں لیکن ابھی بھی جاپانی این جی اوز کے ساتھ ملکر پاکستان میں مشترکہ طور پر جاپانی زبان کی تعلیم کے علاوہ بھی دیگر تعلیمی منصوبے شروع کرنے جارہے ہیں مقصد صرف یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے جاپان میں رہ کر حاصل کیا ہے اس میں سے اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے بھی کچھ کرسکیں اور اس میں سب سے اہم چیز بہترچاہئے تعلیم کی فراہمی ہے ۔بہر حال یہ تو جاپان اور جرمنی میں مقیم کامیاب پاکستانیوں کے خیالات تھے جو حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں صرف بھارتی فلمیں دیکھ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے ہمیں بھارتی ترقی سے سبق بھی سیکھنا چاہئے ، ہمیں ان عوامل کا جائزہ لینا چاہئے جن کی بدولت بھارت تیزی سے نہ صرف ترقی کررہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اپنی ایک ساکھ بھی بنارہا ہے ، اس وقت اگر صرف بھارت کی جانب سے غیر ملکی زبانوں کی تعلیم کے حصول کے لئے دلچسپی پر نظر ڈالیں تو حیرت انگیز اعداد وشمار نظر آتے ہیں ،بھارت نے روس کا روایتی حریف ہونے کے باوجود اپنے ملک میں انگریزی سیکھنے پر توجہ دی اور پورے بھارت میں ستر اور اسی کی دہائی میں ہزاروں انگریزی زبان سیکھنے کے اسکول قائم کئے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انگریزی زبان بھارت میں عام ہوگئی ، جس کے بعد بھارت نے جرمنی سے تعلقات کے فروغ کا فیصلہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے بھارت میں جرمن زبان سیکھنے کے ادارے قائم ہوئے اور پھر جرمنی میں ہزارو ں بھارتی بطور طالب علم اور پھر ملازمتوں کے لئے جرمنی پہنچ گئے ، اور اب بھارت نے جاپان سے تعلقات میں اضافے کا فیصلہ کیا اور اس وقت بھارت میں ڈیڑھ ہزار جاپانی زبان سیکھنے کے اسکول قائم ہوگئے ہیں اور اس وقت جاپان میں چالیس ہزار کے لگ بھگ بھارتی شہری کاروبار اور ملازمتوں میں مصروف ہیں اور جاپان کا بھارت کےساتھ تجارتی حجم پانچ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس میں مزید اضافے کی توقع ہے ، لہٰذا اگر پاکستان صرف بھارت کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی آگے بڑھے تو بہت جلد پاکستان بھی اپنی سمت ترقی کے راستے پر موڑ سکتا ہے لیکن اس کے لئے ہمیں ایک مخلص اور قومی قیادت کی ضرورت ہے۔