بھارت سے انسانی حقوق پر بات کی جائے، یورپین یونین سے مطالبہ

March 03, 2021

یورپین پارلیمنٹ کے 2 ارکان نے یورپین یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ یورپ بھارت کے ساتھ انسانی حقوق کے مسئلے پر گفتگو جلد شروع کرے کیونکہ ایک طویل عرصے سے بھارت کے ساتھ مذہب اور عقیدے کی آزادی جیسے فوری توجہ کے مسائل پر گفتگو نہیں کی گئی ہے۔

ان خیالات کا اظہار نیدرلینڈز اور رومانیہ سے تعلق رکھنے والے دو ممبران یورپین پارلیمنٹ برٹ یین رائوسن اور کرسٹیین ٹیرش سمیت دیگر مقررین نے ’بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال‘ کے موضوع پر ایک آن لائن ویبینار میں کیا۔

ان دونوں ممبران نے اس ویبینار کا اہتمام مذہب اور عقیدے کی آزادی و مذہبی رواداری کیلئے انٹر گروپ کے تحت منعقد کیا تھا۔

ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے بارٹ رائوسن ایم ای پی نے کہا کہ یورپین یونین اور بھارت کو اپنی انسانی حقوق کی بات چیت دوبارہ شروع کرنا ہوگی کیونکہ ایک طویل عرصے سے ہنگامی مسائل جیسے عقیدے اور مذہب کی آزادی پر بات نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں مذہب کی آزادی تشویشناک حد تک محدود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اقدار اور معاشی سپر پاور کے طور پر یورپین یونین کو انسانی و دیگر حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی انوکھی پوزیشن حاصل ہے‘ جس میں سے عقائد کی آزادی سب سے اہم ہے۔

انہوں نے یورپین یونین پر زور دیا کہ اس سلسلے میں وہ اپنی کوششیں تیز کرے۔

بارٹ یین رائوسن ایم ای پی نے یورپین قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے ساتھ ملاقاتوں میں کاروبار کی بجائے انسانی حقوق کا اولین ترجیح کے طور پر ذکر کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے یورپین پارلیمنٹ کو بھی تجویز دی کہ پارلیمنٹ اس مسئلے پر ایک قرارداد منظور کرے۔

اس ویبینار کے دوسرے میزبان رومانیہ سے تعلق رکھنے والے کرسٹئین ٹیریش ایم ای پی نے اپنی گفتگو میں بنیادی آزادیوں کا احترام کرنے والے ممالک کے مثبت نتائج کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جس میں بے حد صلاحیت ہے جیسا کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی ملک جو انسانی حقوق اور مذہب کی آزادی کا احترام کرتا وہ مضبوط اور خوشحال ہوتا گیا۔

اپنی سرحدوں کے اندر انسانی حقوق اور مذہب کی آزادی کے احترام کو تقویت دینے سے ہندوستان اپنے شہریوں میں زیادہ خوشحالی لا سکتا ہے جس کی آواز دنیا میں زیادہ بہتر طور پر سنی جا سکتی ہے۔

اس آن لائن کانفرنس میں جن دیگر چار مقررین نے خطاب کیا ان میں آکسفورڈ ہاؤس ریسرچ کے راحیل پٹیل، این جی او اوپن ڈورز انٹرنیشنل کی آنا ہل، کرسچین سولیڈیریٹی ورلڈ وائڈ ایلیسینڈرو پیکوری اور بھارت سے سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی محافظ شبنم ہاشمی شامل تھیں۔

کانفرنس میں ’جمہوری اقدار‘ کے موضوع پر اظہار خیالات کرتے ہوئے راحیل پٹیل نے کہا کہ بھارت کا معاملہ فوری توجہ (ارجنٹ ) کا متقاضی ہے جہاں جمہوری اقدار تیزی سے بگڑ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یورپین یونین ایک اہم معاشی شراکت دار کے طور پر مضبوط بات چیت کا آغاز کر سکتا ہے۔

انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے کہ ہم ہندوستان کو بدلنے کی کوشش کریں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت دنیا کو کس طرح دیکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمہوری عینک کے ذریعے ہندؤں کا عالمی جائزہ پیچیدہ ہے، انہوں نے اپنی گفتگو میں مختلف اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندو قوم پرست نظریئے میں اضافے کے نتیجے کے طور پر بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، امتیازی سلوک اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

عیسائیوں کے خلاف سالانہ واقعات کی تعداد 2014ء اور 2019ء کے درمیان پانچ گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومتی قوانین کا اقلیتی حقوق پر منفی اثر ہو رہا ہے۔ بھارت سے انسانی حقوق کی کارکن شبنم ہاشمی نے کہا کہ ہندوستان میں جمہوریت پر ایک بے مثال حملہ ہوا ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے خلاف مقدمات دائر کیے جانے ہیں اور بہت سے افراد کو قید اور اقلیتوں کا دفاع کرنے والی آوازوں کو خاموش کردیا جاتا ہے، تشدد، نفرت انگیز تقریر کے ذریعے مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملوں کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔

اس لیے یورپین یونین کو بھارت کے ساتھ مستقبل میں ہونے والے مذاکرات میں اولین ترجیح کے طور پر بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔