اردو دنیا کی ممتاز افسانہ نگار شمع خالد انتقال کرگئیں

March 10, 2021

اردو ادب کی ممتاز افسانہ نگار شمع خالد طویل علالت کے بعد دُنیا چھوڑ گئیں۔ اُن کے افسانوںمیں زندگی کی شمع ہر رنگ میںجلتی تھی۔

خُوب صورت ذہن اور مثبت سوچ، زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سمجھنے میں آسانی پیدا کردیتی ہے۔کسی بھی فن سے کئی دہائیوں تک وابستہ رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔

راول پنڈی سے تعلق رکھنے والی شمع خالد نے اپنا قلم سے رشتہ اس وقت جوڑا تھا، جب بچے کھلونوں اور گڑیوں سے کھیل پر اپنا دل خوش کرتے ہیں۔انہوں نے زندگی کی جنگ قلم سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔

وہ اس جنگ میں ہار جیت کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتی رہیں، انہیں شہرت اور کام یابی کا کبھی لالچ نہیں رہا۔وہ لکھتی رہیں اور آگے بڑھتی رہیں۔اس تخلیقی سفر میں اپنے پڑھنے والوں کو کتابوں کے تحائف دیتی رہیں۔

شمع خالد نے ساری زندگی قلم کی آب یاری میںگزاری، پتھریلے چہرے 1985ءگیان کا لمحہ 1990ءبے چہرہ شناسائی 1995ءگمشدہ لمحوںکی تلاش 2003ءاور بند ہونٹوںپہ دھری کہانیاں نے 2007ء میںشائع ہوکر مقبولیت حاصل کی ۔

اُن کے فن پر اب تک 8 تھیسز اور ایک بار ایم فِل ہوچکا ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ ابھی تک میںنے دو سو کے لگ بھگ افسانے لکھے ہیں۔ میںاکثر اپنے آپ سے سوال کرتی ہوںکہ میںنے افسانے کیوںلکھے اور دل سے جواب آتا ہے کہ اس کے علاوہ اور کیا کرتی۔

اردو دنیا کے ممتاز افسانہ نگار اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے تقریباً 40برس قبل شمع خالد کے پہلے افسانوی مجموعے ’’پتھریلے چہرے‘‘کی اشاعت کے موقع پر لکھا تھا کہ ’’ شمع خالد کے افسانے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں اور وہ یہ افسانے حقیقت پسندانہ انداز میںیوںلکھتی ہیںکہ فن کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیںاور معاشرے کے بارے میں بعضڈھکی چُھپی سچائیوںکے انکشاف کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ کہانی سنانے یا لکھنے کا یہی وہ خوبصورت انداز ہے جو چیخوف،موپساں،منٹو اور بیدی سے ہوتا ہوا یہاںتک پہنچا ہے۔

احمد ندیم قاسمی کا کہنا تھا کہ شمع جانتی ہیںکہ کسی بھی صنف کے امکانات ختم نہیںہوسکتے اور اس لیے حقیقت پسندانہ کہانیوںکے امکانات آج بھی بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ شمع کے مطالعہ ومشاہدہ کی کوئی مقرر نہیں۔ ہر وہ واقعہ یا کردار جو ان کے تجربے میں آتا ہے۔ ایک گُھٹی ہوئی کہانی کی صورت میں انتہائی سادگی اور قرینے سے اظہار پاتا ہے۔

شمع بات چیت کے انداز میںکہانی سُناتی ہیں۔اس لیے نہ کہیںفن کی نمائش ہے اور نہ وہ کسی واقعے کی انفرادیت یا کسی کردار کی پوری پوری ترجمانی یا اتراہٹ کا اظہار کرتی ہیں۔وہ سچی اور کھری کہانی کار ہیںاور اس لیے ان کے بارے میں اعتماد کے ساتھ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ اگر انہوںنے فنی ریاضت جاری رکھی تو ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا مستقبل تابناک ہوگا۔‘