اسلامی نظریاتی کونسل کا ”اسلامی نظام“

June 03, 2013

اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں یہ ”فتویٰ“ صادر کیا ہے کہ اجتماعی عصمت دری کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔یہ خبر ریپ ملزمان کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوسکتی ہے لہٰذاایسے تمام ملزمان کو چاہئے کہ وہ کونسل کے چیئرمین کو شکریے کی ای میل ارسال کریں اور جیل سے چھوٹنے کے فوراً بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔
جس ڈی این اے ٹیسٹ کو اسلامی نظریاتی کونسل نے بنیادی ثبوت ماننے سے انکار کیا ہے اس کا طریقہ کار نہایت سائنٹفک ہے ۔Deoxyribonucleic acid یا DNAوہ مالیکیول ہوتے ہیں جو تمام زندہ اجسام میں پائے جاتے ہیں اور ان میں وہ تمام ”جنیاتی ہدایات درج ہوتی ہیں “ جن کے تحت زندہ اجسام نشو ونما پاتے ہیں یعنی یہ ایک قسم کا ہدایت نامہ ہے جس میں بالوں اور چہرے کی رنگت سے لے کر ناک کی ساخت اور آنکھوں کی بناوٹ تک کی تفصیل موجود ہوتی ہے ۔دنیا میں ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے حتیٰ کہ جڑواں بھائیوں کا بھی ۔ ڈی این اے میں ”درج معلومات“ کو جنیٹک کوڈ کے ذریعے سمجھا جاتا ہے ۔ریپ کے کیس میں عموماً مشتبہ افراد کے خون سے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور پھر اس کے نتائج کا ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کے جسم میں پائے جانے والی secretionsسے موازنہ کیا جاتا ہے ،اگر کسی ملزم کا ڈی این اے ان secretionsسے میل کھا جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ اس مخصوص ڈی این اے کے حامل شخص نے لڑکی کے ساتھ زیادتی کی۔یہ ٹیسٹ 99.9%تک درست ہوتا ہے جبکہ 0.001% غلطی کا احتمال بہر حال موجود رہتا ہے۔ کونسل کے باریک بین اور دور اندیش ممبران کے نزدیک 0.001% غلطی کے امکان کو رد نہ کرنا یقینا ایک ایسا دانشمندانہ فیصلہ ہے جو آنے والے وقتوں میں سنہری ٹشو پیپر پر لکھا جائے گا ۔
اس فیصلے کے دور رس اثرات ابھی سے سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔پانچ سال قبل مزار قائد کے احاطے میں جو معصوم لڑکی ریپ کا شکار ہوئی تھی اس نے ہمت کرکے پرچہ کٹوایاتھا ،پولیس نے ایک ملزم کو لڑکی کے شناخت کرنے پر پکڑ لیا جبکہ دو ملزمان کا تعین ڈی این اے ٹیسٹ کے نتیجے میں ہوا۔تاہم کراچی کی ایک عدالت نے پانچ سال کے صبر آزما انتظار کے بعد اب یہ فیصلہ دیا ہے کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور ڈی این اے کا ثبوت بھی قابل قبول نہیں لہٰذا تمام ملزمان کو با عزت بری کیا جاتا ہے ۔فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے نہیں دیکھا لہٰذا جرم ثابت نہیں ہوتا ۔با الفاظ دیگر جس وقت ریپ ہو رہا تھا اس وقت اگر چار گواہ وہاں موجود ہوتے اور پوری دلجمعی کے ساتھ یہ پراسس دیکھتے اور اس دوران ملزمان بھی انہیں کچھ نہ کہتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ گواہان بھی اس جرم میں پوری طرح ملوث ہیں جنہوں نے ان تینوں کو ریپ سے روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا! اصولاً تو ایسے گواہوں کو بھی سزا دینی چاہئے جو عملاً شریک جرم ہوں ،اور ان کو سزا دینے کے لئے ضروری ہے کہ مزید چار گواہ لائے جائیں اور پھر یہ سلسلہ قیامت تک یونہی چلتا رہے ۔تاہم یوم حشر وہ مظلوم لڑکی ضرور اللہ کی عدالت میں اپنا کیس دائر کرے گی اور اس کے محبوبﷺ کی شفاعت کی طالب ہو گی،اس روز نہ کسی ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت ہو گی اور نہ کسی گواہ کی ،وہ کڑا یوم حساب ہوگا جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔
کونسل نے اپنے اجلاس میں ایک سفارش یہ بھی کی ہے کہ ”اللہ ،رسول،پیغمبر اور مسجد“ جیسے الفاظ کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا اسلام میں جائز نہیں لہٰذا اس مقصد کے لئے تمام صوبائی وزرائے تعلیم ،ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ٹیکسٹ بک بورڈز کو خطوط لکھے جا رہے ہیں ۔اگر ترجمے کے حوالے سے یہ دلیل مان لی جائے تو پھر قرآن کا وہ ترجمہ جو شاہ ولی اللہ نے فارسی میں کیا اور جو مولانا مودودی نے اردو میں کیا اور جو دیگر سینکڑوں جید علمائے دین نے دیگر زبانوں میں اسلام کی ترویج و اشاعت اور عام مسلمانوں کی سمجھ بوجھ کے لئے کئے ان کی جواز اور حرمت کیاہوئی ؟ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اسلام کی تبلیغ نہیں چاہتی کیونکہ کروڑوں غیر مسلم تو عربی سمجھ ہی نہیں سکتے ؟
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں کلوننگ کو بھی غیر اخلاقی اور غیر اسلامی فعل قرار دیا ہے ۔یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کیونکہ ہمارے علمائے کرام یہ کہتے نہیں تھکتے کہ دینی معاملات میں رائے دینے کا حق صرف انہی کو ہے جنہوں نے باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کی ہے،مراد یہ کہ کسی خاص مکتبہ فکر کے مدرسے سے سند یافتہ عالم۔بجا ارشاد ۔تو حضور پھر کلوننگ کے بارے میں جو کچھ آپ نے ارشاد فرمایا اس کی کیا حیثیت ہے ،کیا آپ بائیو میڈیکل سائنسدان ہیں؟ کلوننگ وہ جدید تکنیک ہے جس کی مدد سے زندہ اجسام کی جنیاتی نقول تیار کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر کل کو اس تکنیک کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ آپ کی کاربن کاپی دفتر میں کام کرے اور آپ چھٹیاں منانے میامی کے ساحل پر بیٹھے ہوں۔اگر آپ جڑواں بھائیوں کو قدرتی کلوننگ سمجھ لیں تو انسانی کلوننگ وہ ہوگی جس میں آپ کا” جڑواں“ بھائی یا بہن بنایا جا سکے گا۔ یہ بات بظاہر لطیفہ لگتی ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ سائنس نے شمار نظریا ت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں ،یہ کلوننگ ہی تھی جس کی مدد سے سائنس دانوں نے ڈولی نام کی بھیڑ ”ایجاد“ کی تھی ۔جس دن یہ تکنیک ترقی کر گئی اس دن دنیا میں جانداروں کی کلوننگ کوئی فتویٰ نہیں روک سکے گا بالکل اسی طرح جیسے ٹیلی وژن ،لاؤڈ سپیکر اور کیمرے کے خلاف فتوے صادر ہوئے مگر آج کسی نظریاتی کونسل یا رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کا کام ان کے بغیر نہیں چلتا۔یہ سب کفار کے ایجاد کردہ بلیک بیری استعمال کرتے ہیں ،امریکی کمپیوٹرز پر فتویٰ ٹائپ کرتے ہیں ،یہودی کمپنیوں کے تیار کردہ جہازوں میں سفر کرکے حج اور عمرہ کا فریضہ ادا کرتے ہیں ،انہی کی کمپنیوں کی ادویات استعمال کر کے زندہ ہیں، سر سے لے کر پیر تک ایک ایک چیز کے لئے ان کے محتاج ہیں مگر فتویٰ یہ صادر فرماتے ہیں کہ مسجد کا ترجمہ کسی اور زبان میں نہیں کیا جانا چاہئے حالانکہ کوئی ایک بھی مسجد اس ملک میں ایسی نہیں ہوگی جہاں کسی غیر ملک کی بنی کوئی چیز موجود نہ ہو اور اس میں انگریزی میں کچھ نہ لکھا ہو!
اسلامی نظریاتی کونسل اب تک اس قسم کی تین ہزار قسم کی سفارشات دے چکی ہے جس کے بارے میں ایک مذہبی جماعت کا فرمانا ہے کہ اگر ان سفارشات پر عمل ہو جائے تو ملک میں” اسلامی نظام“ نافذ ہو جائے گا ۔اگر ایسا ہی ہے تو اس جماعت کو مبارک ہو کہ کراچی کی ایک عدالت نے اس نظام پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے ۔ان غلط فیصلوں کے نتیجے میں گینگ ریپ ہونے والی خواتین کی آواز دب جائے گی اور ملزم دندناتے پھریں گے۔ کیا اسلامی نظریاتی کونسل کا یہی انصاف ہے؟؟