عمران خان! آزمائش اب اور کٹھن ہوگئی

March 18, 2021

16مارچ بھی تاریخ پاکستان کے سانحوں میں ایک اہم اضافہ ہے۔ ملک میں جیسے عمران خان سے توقعات باندھنے والوں کی بڑی تعداد مایوس ہورہی تھی۔ اب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کی بڑی تعداد کے مایوس ہونے والوں کا اضافہ بھی ہوگیا۔

پی ڈی ایم پر ہنسنے والے، سنگباری کرنے والے تو بہت ہیں ۔ ادھر جشن فتح والے عمران خان کے حاشیہ بردار بھی بہت۔مولانا فضل الرحمٰن کے تاریخی جملوں، پھر میڈیا ٹاک سے روٹھنے والے نوجوانوں کی طرح منہ پھیر کر جانے پر بغلیں بجانے والے بھی بہت ہیں۔ میں اسے خطرے کی گھنٹی سمجھ رہا ہوں۔ عمران خان کے نام اپنے کھلے خط کے بعد میں ضروری سمجھتا ہوں کہ پھر وزیر اعظم کو اس اہم مگر خطرناک موڑ پر خبردار کرسکوںکہ عوام کا موڈ پی ڈی ایم کے اس یوٹرن سے نہیں بدلا۔ پی ڈی ایم عوام کی نمائندہ نہیں تھی۔ اس لیے وزیر اعظم یہ نہ سمجھیں کہ پی ڈی ایم کے کمزور پڑنے سے عوام کی حکومت سے شکایت کمزور پڑ گئی ہے۔ پی ڈی ایم شاخ نازک پہ آشیانہ تھی۔ اس لیے پائیدار نہیں تھی۔ یہ آزمائے ہوئے، اپنے اپنے مفادات کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ ان کے کارکنوں کو ان کا برسوں کا تجربہ تھا۔ وہ انہیں خود دولت کے انبار گھر لے جاتے ۔ ملک سے باہر محلات خریدتے دیکھ کر بیزار تھے۔ وہ اب اپنا حصّہ چاہتے ہیں۔جو یہ دینے کے قائل نہیں ہیں۔اس لیے کارکن سڑکوں پر ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ضمنی انتخابات میں انہوں نے انہیں کامیاب کروایا۔ اس وقت ہم نے لکھا تھا کہ عوام انہیں اسمبلیوں میں جمہوری حدود میں حصّہ لیتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

تاریخ کے ایسے فیصلہ کن موڑ پر ہی حکمران جماعت کے سربراہ عہدیداروں اور کارکنوں کے تدبر کی آزمائش ہوتی ہے۔ سطحی طور پر جو ردّ عمل ہونا چاہئے وہ تو نظر آرہا ہے۔ ٹاک شوز میں سارے باتونی انصافیوں کی باچھیں کھلی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ وفاقی وزراء پی ڈی ایم الوداع کہہ رہے ہیں۔ اکثر کا تاثر یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی موت آپ مرگئی۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت کی اصل اپوزیشن مسائل زدہ عوام ہوتے ہیں۔ ان سے ہی مخالف لیڈروں کو تقویت ملتی ہے اور وہ ان کے جذبات سے فائدہ اٹھاکر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ جو مسلم لیگ(ن)، پی پی پی، جے یو آئی کررہے تھے۔ لیکن اب جب عوام پی ڈی ایم سے بھی مایوس ہورہے ہیں۔ حکومت سے پہلے سے ہی ہیں تو سمجھ دار ذمہ داروں کو خطرے کا احساس ہونا چاہئے کیونکہ عمران خان کے مایوس حامی، پی ڈی ایم کے مایوس حامی اور عام پاکستانی سب اب ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے۔ سب اپنی محدود آمدنی سے بچوں کے لیے دودھ، دو وقت کی روٹی، اپنے مکان کا کرایہ، اسکولوں کی فیس نہیں دے پارہے۔

سیاسی طور پر اب حکمراں پارٹی کو بلاول ہائوس پر بنی گالا کی طرح پیار آرہا ہے۔ آصف علی زرداری ان کے محبوب بن رہے ہیں۔ وہ پی پی پی کو اپنا نجات دہندہ خیال کررہے ہیں۔ اب حالات سدھارنے، عوام کے مسائل کا حل سوچنے کی بجائے پی پی پی سے پینگیں بڑھائی جائیں گی۔ ان سے مذاکرات بھی ممکن ہے شروع ہوجائیں۔ کسی کے کہنے پر انہیں حکومت میں بھی شامل کرلیا جائے۔ملک کی بقا کا تقاضا یہ ہے کہ عمران خان فوری طور پر حقیقی مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ عوام یہی آرزو کرتے ہیں۔سندھ میں جیسے ایم کیو ایم ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہونے سے کمزور پڑگئی۔ اس موقع کا پی پی پی سے یہ تقاضا تھا کہ وہ کراچی سمیت صوبے کے شہری علاقوں کے مکینوں کا دکھ بانٹتی۔ ان کے مسائل حل کرتی۔ مگر وہ ان کی کمزوری پر شادیانے بجاتی رہی۔ یہ مہاجر بڑی تعداد میں ہیں۔ پی ٹی آئی کو کراچی سے 14سیٹیں ملی ہیں۔ لیکن کراچی میں اس کا کوئی نقش نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی کے منتخب نمائندےکو عوام کے دُکھ درد میں شریک ہونا چاہئے۔ آپ عوام کو جواب دہ ہیں۔ پی ڈی ایم کو نہیں۔ میڈیا کو نہیں۔

رمضان المبارک آپ کی سب سے بڑی آزمائش ہوگی۔ سستے بازاروں اور یوٹیلیٹی اسٹور سے چیزیں کم از کم 25سے 30 فی صد سستی فروخت کروانے کا عزم کریں۔ اس میں سبسڈی دیں۔ سرکاری اخراجات کم کریں۔ ارکان اسمبلی اپنی ایک ایک دن کی تنخواہ اور مراعات اس کی نذر کریں۔سب سے نتیجہ خیز سیاسی اقدام بلدیاتی انتخابات کا جلد از جلد انعقاد ہوسکتا ہے۔ مگر اس سے پہلے بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنائیں۔ اس سال کے باقی مہینوں میں بلدیاتی انتخابی مہم زور شور سے چلنی چاہئے۔ اس سے پی ٹی آئی کو تقویت ملے گی۔ باقی پارٹیاں بھی حصّہ لیے بغیر نہیں رہ سکیں گی۔ وزیروں پر اپنے اپنے شعبوں تک رہنے کی پابندی عائد کروائیں۔ وزیر خارجہ اندرونی امور پر بیان دینے، وزیرتعلیم الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے سے گریز کریں۔ خطّے کے حالات پاکستان سے قائدانہ کردار کے متقاضی ہیں۔

پی ڈی ایم کے یو ٹرن نے آپ کو کھلا میدان دے دیا ہے۔ لیکن اس مہلت کو مہلت ہی سمجھیں۔ آپ اب بھی تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ پی ڈی ایم جن تضادات کا شکار ہوئی ہے۔ وہ تضادات آپ کی پارٹی میں بھی ہیں۔ پارٹی کی از سر نو تنظیم اور پارٹی عہدے، سرکاری عہدے سے الگ الگ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ 2021 دنیا بھر میں صحت عامہ کو ترجیح دینے کا سال ہے۔ آپ بھی صحت عامہ کو پہلے نمبر پر رکھیں ۔ اب بلوچستان، کے پی، سندھ، پنجاب، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان اچھی حکمرانی کے خواہشمند ہیں۔ خدا کے لیے تقریریں، ٹاک شوز اورآئندہ کے دعوے بند کریں۔ ہر روز ایسے عملی اقدامات کریں جن سے عوام کی مایوسی دور ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)