سندھ کے دروازے پر اسلام کی دستک

April 18, 2021

10 رمضان المبارک، 93 ہجری۔ یہ وہ دن ہے، جب اسلامی فوج راجا داہر کو شکست دے کر’’ راوڑ‘‘ کے قلعے میں داخل ہوئی اور پھر اگلے ڈھائی برسوں میں پورا سندھ اُن کے زیرِ نگیں آگیا۔ یوں اِس تاریخی فتح کے ساتھ اسلام بھی باقاعدہ طور پر اِس خطّے میں داخل ہوا۔

سندھ کا اسلام سے تعارف

محقّقین نے مختلف روایات کے نتیجے میں یہ رائے قائم کی ہے کہ عربوں کے سندھ سے تجارتی تعلقات قدیم زمانے سے قائم تھے اور جہاں تک اسلام کی بات ہے، تو سندھ میں نبی کریم ﷺ کے دَور ہی میں اسلام پہنچ چُکا تھا، یہاں تک کہ سندھ کے باشندوں کی بارگاہِ رسالتؐ میں حاضری کی روایات بھی موجود ہیں۔

اگر پورے خطّے کی بات کی جائے، تو عام خیال یہی ہے کہ مسلمان سب سے پہلے جنوبی ہندوستان میں مالابار کے علاقے میں پہنچے تھے۔کئی ایک مؤرخین ریاست کیرالہ کی’’ چیرامن مسجد‘‘ کو خطّے کی پہلی مسجد قرار دیتے ہیں، البتہ یہ واضح ہے کہ اسلام اِس خطّے میں باقاعدہ طور پر محمّد بن قاسم کی فتوحات ہی کے نتیجے میںپھیلا۔ اِسی لیے سندھ کو’’ باب الاسلام‘‘ کا اعلیٰ مقام حاصل ہے۔

قدیم سندھ کی سرحدیں

راجا داہر کے زمانے کا سندھ، جغرافیائی لحاظ سے آج کے سندھ سے بہت مختلف تھا۔ شمال میں کشمیر، جنوب میں کَچھ، گجرات، مشرق میں راجپوتانہ، شمال مغرب میں دریائے ہلمند اورجنوب مغرب میںمکران کے ساحل تک اس کی سرحدیں تھیں۔گویا موجودہ کے پی کے، پاکستانی پنجاب کا ایک بڑا حصّہ، موجودہ بلوچستان، موجودہ سندھ، افغانستان کا دریائے ہلمند تک کا علاقہ اور جودھ پور تک قدیم سندھ پھیلا ہوا تھا۔ اس کا دارالحکومت، اروڑ تھا، جسے’’ ارور‘‘ اور’’ الور‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس شہر کی باقیات آج بھی روہڑی (سندھ) کے قریب پائی جاتی ہیں۔

سندھ کی سیاسی، سماجی اور مذہبی صُورتِ حال

یہاں کی اکثریتی آبادی بُدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل تھی، جب کہ حکومت ہندوؤں کی تھی۔راجا داہر ہندو برہمن تھا اور اُس نے اہم عُہدے بھی اپنے ہم مذہبوں کو دے رکھے تھے۔ دراصل داہر کے باپ، چچ کے زمانے ہی سے ریاستی پالیسی کے سبب معاشرے میں مذہبی اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق شروع ہوگئی تھی، جو داہر کے دَور میں عروج پر پہنچ گئی۔نچلی ذات کے ہندوؤں کو مخصوص لباس پہننے پر مجبور کیا جاتا، جس سے اُن کی تذلیل مقصود تھی۔ اگر معاشی حالات کی بات کی جائے، تو سندھ کا شمار دنیا کے متمول علاقوں میں کیا جاتا تھا۔

سندھ کی فتح کے منصوبے

تاریخی طور پر خلافتِ راشدہؓ ہی میں مسلمانوں نے سندھ کو فتح کرنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ اِس ضمن میں مؤرخین نے کم ازکم 15 چھوٹے بڑے حملوں کا ذکر کیا ہے۔پہلا حملہ حضرت عُمر فاروقؓ کے دورِ حکومت میں 15 ہجری کو گجرات کے قریب’’ تھانہ‘‘ کے مقام پر حملہ کیا گیا۔ پھر حضرت عثمان غنیؓ ، حضرت علی المرتضیٰ ؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے ادوار میںبھی سندھ کی جانب فوجی لشکر روانہ کیے گئے۔ ان میں سے کئی مہمّات میںکام یابی ملی، تو کئی ایک میں اہداف حاصل نہ ہوسکے۔اِن حملوں کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عُمر فاروقؓ کے دور میں مسلمانوں نے مکران تک کا علاقہ فتح کرلیا تھا۔

ایران کے ساتھ ہونے والی اِس’’ جنگِ نہاوند‘‘ میں سندھ کے حکم ران، راجا داہر نے نہ صرف ایران کی ساسانی حکومت کی حمایت کی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف لڑائی کے لیے اپنے فوجی بھی بھیجے۔ دشمن افواج کے ساتھ تعاون بہت بڑا جرم تھا، اِس لیے سندھ کے حکم ران کی سرکوبی ضروری سمجھی گئی۔ پھر یہ کہ شکست خوردہ بہت سے لوگ سندھ بھاگ آئے اور اُنھوں نے سرحدی علاقوں میں سبوتاژ کی کارروائیاں شروع کردیں، اِس لیے بھی مسلمان فوج اُن کا قلع قمع کرنا چاہتی تھی۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سندھ کو ایک دُور دراز کا علاقہ تصوّر کیا جاتا تھا اور اسے فوجی نقطۂ نظر سے بھی ایک مشکل علاقہ سمجھا جاتا تھا، اِس لیے مسلمانوں کے ابتدائی حکم رانوں نے اِس خطّے پر فوج کشی کے حوالے سے محتاط پالیسی اختیار کیے رکھی۔

محمد بن قاسم کی سندھ پر لشکر کشی کے اسباب

اِس ضمن میں مؤرخین نے دو باتوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ خراسان اور سیستان کی فتح کی وجہ سے اسلامی مملکت کی سرحدیں سندھ سے جا ملی تھیں، جس کی وجہ سے اِن سرحدی علاقوں میںموجود مخالفین دراندازی کرتے رہتے تھے۔ اِس حوالے سے سب سے اہم واقعہ عبد الرحمٰن بن محمد بن اشعث کی حجّاج کے خلاف بغاوت ہے۔ابنِ اشعت کو تقریباً تین سال بعد82 ہجری میں حجّاج کے ہاتھوں شکست ہوئی، تو حکومت کے بہت سے باغیوں نے سندھ میں راجا داہر کے پاس پناہ لے لی۔ ان میں عرب سردار، حارث علافی کا بیٹا، محمّد علافی بھی شامل تھا۔

اُس نے راجا داہر کی شہہ پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر والیٔ مکران ، سعید بن اسلم کو قتل کر دیا۔ حجّاج کے بار بار کے مطالبے کے باوجود راجا داہرنےقتل میںملوّث علافی اور دیگر باغیوں کو اُس کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ اس معاملے کی وجہ سے دونوں حکومتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ محمّد بن قاسم کی مہم جوئی کا ایک فوری سبب یہ بھی بنا کہ لنکا(بعض کے نزدیک مالدیپ) سے عرب تاجر، وہاں انتقال کر جانے والے مسلمان تاجروں کے بیوی بچّے ایک کشتی میں سوار ہوکر عرب جا رہے تھے۔ راجا نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کچھ تحائف بھی ساتھ بھجوائے تھے۔جب یہ کشتی دیبل کے قریب پہنچی، تو جنگی کشتیوں میں سوار قزاقوں نے اُنھیں لُوٹ لیا اور تاجروں، عورتوں اور بچّوں کو قیدی بنا لیا۔

حجّاج کو اطلاع ملی، تو اُس نے راجا داہر سے مغویوں کی فوری بازیابی اور ملوّث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، مگر داہر نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ مسلمان خاتون کی جانب سے خلیفہ کو پکارنے اور اُن کا’’ لبّیک، لبّیک‘‘ کہتے ہوئے حملوں کی تیاری کا حکم دینے کی کہانی کو بیش تر مؤرخین نے غیر مستند قرار دیا ہے۔جہاں تک اِس سوال کا تعلق ہے کہ عرب تاجر لنکا یا مالدیپ میں کہاں سے آگئے؟ تو یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عرب تاجروں کی نہ صرف جنوبی ہند، بلکہ لنکا اور دیگر علاقوں میں آبادیاں قائم تھیں۔ نیز، اُن کا بحری اور خشکی کے راستے اپنے آبائی علاقوں میں آنا جانا بھی رہتا تھا۔

حملوں کا آغاز

حجّاج بن یوسف سندھ کی سرحد سے متصل مشرقی صوبوں کا گورنر تھا۔اُس نے خلیفہ عبدالملک بن مروان سے سندھ پر لشکر کشی کی اجازت طلب کی، مگر اس اقدام کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم، 86 ہجری میں ولید بن عبدالملک خلیفہ بنے، تو اُنھوں نے حجّاج کو سندھ فتح کرنے کی اجازت دے دی۔اُنھوں نے اجازت ملتے ہی عبید اللہ کی سرکردگی میں خشکی کے راستے ایک دستہ بھیجا ،مگر اُسے کام یابی حاصل نہ ہوئی۔

پھر بدیل نے بھی خشکی کے راستے لشکر کشی کی، مگر وہ بھی شہید ہوگئے اور سپاہی ناکام لَوٹ آئے۔اُنھوں نے تیسری بار محمّد بن قاسم کی سرکردگی میں بحری اور خشکی کے، دونوں راستوں سے لشکر روانہ کیا، جو کام یاب رہا۔کہا جاتا ہے کہ حجّاج نے محمّد بن قاسم کو بھرپور تیاری کے ساتھ سندھ بھیجا تھا۔یہاں تک کہ فوجیوں کو سوئی دھاگہ تک فراہم کیا گیا تھا۔نوجوان سپہ سالار کے ساتھ چھے ہزار فوجی تھے، جب کہ اِتنے ہی فوجی بحری بیڑے کے ذریعے بھی روانہ کیے گئے تھے۔ بیڑے میں5 منجنیقیں اور دیگر اسلحہ بھی تھا۔

محمّد بن قاسم کون تھا؟

محمّد بن قاسم بن محمّد بن حکم بن ابی عقیل عرب کے مشہور قبیلے، بنو ثقیف کے خاندان، آل ابی عقیل سے تعلق رکھتے تھے۔ والد، قاسم اور اموی گورنر، حجّاج بن یوسف آپس میں سگے چچا زاد بھائی تھے۔ جب حجّاج عراق کا گورنر بنا، تو اُس نے چچا زاد، قاسم کو بصرے کا والی بنا دیا، جب کہ اُن کے بیٹے، محمّد بن قاسم کو بھی نوجوانی میں فارس کی گورنری دی، وہ وہیں سے سندھ کی مہم پر روانہ ہوئے۔مؤرخین کا اِس اَمر میں خاصا اختلاف ہے کہ فتحِ سندھ کے وقت محمّد بن قاسم کی عُمر کیا تھی؟ عام طور پر اُنھیں 17 برس کا نوجوان قرار دیا جاتا ہے، مگر اس پر بہت سے سنجیدہ اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ اس موقعے پر اُن کی عُمر25 برس کے قریب رہی ہوگی۔

سندھ میں فتوحات کا آغاز

محمّد بن قاسم مکران کی طرف سے سندھ میں داخل ہوا اور پنج گور، ارمن بیلہ فتح کرتے ہوئے دیبل پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔یہاں حجاج کی جانب سے روانہ کردہ بحری بیڑہ اُن سے آملا۔چند ماہ کے محاصرے کے بعد دیبل فتح ہو گیا، تو اُنھوں نے وہاں چار ہزار مسلمانوں کو آباد کیا اور ایک مسجد بھی بنوائی، جس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔

اِس مسجد کو بعض مؤرخین نے جنوبی ایشیا کی پہلی مسجد قرار دیا ہے۔ ایک زمانے میں کراچی کو دیبل کہا جاتا تھا، مگر اب بیش تر تاریخ دانوں کا اِس پر تقریباً اتفاق ہے کہ بھنبھور ہی دیبل تھا۔دیبل کے محاصرے کے دَوران ہی مندر پر لگے جھنڈے کا واقعہ پیش آیا، جسے منجنیق کے ذریعے گرایا گیا، جس سے قلعہ فتح ہوگیا۔

وہاں سے اسلامی لشکر نیرون (موجودہ حیدرآباد کے قریب)پہنچا۔ نیرون کا حاکم بُدھ مت کا پیرو کار تھا اور وہ پہلے ہی حجّاج سے صلح کر چُکا تھا، لہٰذا نیرون بغیر جنگ کے فتح ہو گیا۔ بعدازاں بُدھ حکم ران کی معاونت سے سیہون اور مضافاتی علاقے بھی جلد ہی فتح ہو گئے۔ان فتوحات کو دیکھ کر راجا داہر اپنا تخت چھوڑ کر راوڑ(راور) آگیا۔یہیں یکم رمضان سے10 رمضان93 ہجری تک دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کا رَن پڑا، جس میں داہر مارا گیا اور مسلمانوں نے قلعے پر قبضہ کرلیا۔اِس موقعے پر داہر کی بیوی گرفتار ہوئی، جس کے متعلق متضاد روایات ہیں۔

ایک روایت کے مطابق، اُس نے خود کُشی کرلی تھی، جب کہ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ اُسے دمشق بھجوا دیا گیا تھا۔راوڑ کا قلعہ کہاں تھا؟ ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور تاریخ دان اِس ضمن میں ابھی تک کسی حتمی مقام کا تعیّن نہیں کرسکے ، البتہ خیال یہی ہے کہ یہ قلعہ حیدرآباد اور ٹنڈو محمّد خان کے درمیان کہیں تھا۔راجا داہر کا بیٹا ،جے سنگھ’’ راوڑ‘‘ سے بھاگ کر برہمن آباد( ٹنڈو آدم کے قریب) چلا گیا ۔محمّد بن قاسم بھی تعاقب کرتے ہوئے وہاں پہنچا، تو داہر کے وزیر، سی ساکر نے عرب قیدی عورتیں اور بچّے اُس کے حوالے کردیے۔6 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد برہمن آباد فتح ہوا۔ اب پایہ تخت، اروڑ باقی تھا، جہاں راجا داہر کا بیٹا، گوپی موجود تھا۔اُس نے ایک معاہدے کے تحت یہ شہر اسلامی فوج کے حوالے کر دیا۔ بعدازاں، محمّد بن قاسم نے ملتان بھی فتح کرلیا۔

عوام کا ردّ ِعمل

چوں کہ عوام راجا داہر کے ظلم وستم اور اُس کی مذہبی پالیسیز سے سخت متنفّر تھے، لہٰذا اُنھوں نے نئے حکم رانوں کو خوش آمدید کہا، جنھوں نے اُن کے جذبات و احساسات کا پوری طرح خیال رکھا تھا۔اُنھیں نئی حکومت میں اہم عُہدوں سے نوازا گیا اور کئی ایک کو پرانے عُہدوں پر برقرار رکھا گیا۔اِس پورے جنگی معرکے میں عام لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا اور صرف وہی لوگ مارے گئے، جو مسلم فوج سے لڑنے نکلے تھے۔جب محمّد بن قاسم کو گرفتار کر کے لے جایا گیا، تو سندھ میں اُس کا باقاعدہ غم منایا گیا اور ہندو رعایا نے اُن کی مورتیاں تک بنائیں۔

محمّد بن قاسم کا انجام

محمّد بن قاسم ملتان کے بعد مزید علاقے فتح کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ اُسی دَوران پہلے حجّاج اور پھر خلیفہ ولید بن عبدالملک کی وفات ہوگئی۔سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا، تو اُس نے محمّد بن قاسم کو معزول کر کے جیل میں ڈلوادیا اور پھر وہاں سے ایک سال بعد اُن کی میّت ہی باہر آئی۔اِس حوالے سے تاریخ میں بہت سی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ کوئی اِس معاملے کو راجا داہر کی بیٹیوں سے جوڑتا ہے، تو کسی کے پاس کوئی اور قصّہ ہے، تاہم مستند تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ محمّد بن قاسم اُس محلّاتی سازش کا نشانہ بنے، جو خلافت پر قبضے کی جنگ کا حصّہ تھی۔

کہا جاتا ہے کہ ولید اپنے دَورِ خلافت میں بھائی سلیمان کو معزول کر کے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ولی عہد نام زد کرنا چاہتے تھے، جس کی حجّاج نے بھی حمایت کی تھی۔ جب سلیمان خلیفہ بنا، تو اُس نے ایسے تمام لوگوں سے انتقام لینا شروع کردیا، جو اُس کی برطرفی کے منصوبے میں شامل تھے۔چوں کہ محمّد بن قاسم، حجّاج کے قریبی رشتے دار تھے، اِس لیے وہ بھی اِس انتقام کی لپیٹ میں آگئے۔