پی ڈی ایم: کیا ’’انتخابی اتحادوں‘‘ کا انجام ایسا ہی ہوتا رہے گا؟

April 15, 2021

تقریباً ایک ماہ قبل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹکے صدر مولانا فضل الرحمان نے لند ن میںپاکستان مسلم لیگ (ن)کے تاحیات صدر میاںنواز شریف سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتےہوئے جو لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے متعلق تھی اس موضوع پر بھی تبادلہ خیال کیا تھا کہ اگر پاکستان پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوئی تو اس صورت میںہماری پیش رفت کیا ہونی چاہئے تھی نہیںمعلوم کے ’’ حضرت صاحب ‘‘ کو کس قسم کے خدشات تھے یا کچھ اور بات تھی لیکن میاں نواز شریف نے دو ٹوک الفاظمیںقطعیت کے ساتھ کہا کہ پی ، ڈی ، ایم زیادہ قوت کے ساتھ اپنے اہداف کی طرف بڑھے گا اور مولانا صاحب نے بھی ان سےپوری طرح متفق ہوئے ا نہیں یقین دہانی کرائی کہ مسلم لیگ (ن)اور جمعیت علمائے اسلام ہر صورت اتحاد کو لیکر آگے بڑھیں گے ۔

اب عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی نے اتحاد سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے ، بھرے اجلاس میں شوکاذ نوٹس، پھاڑنے کے عمل پر شرکا کی دادو تحسین کا مطلب کیا ہو سکتا ہے ،یہ عمل اچانک نہیںتھا بلکہ پہلے سےطے شدہ تھا، پیپلزپارٹی کے اکابرین کا کہنا تھا کہ ہم سیاست ،عزت و وقار کیلئے کرتے ہیںلیکن شوکازنوٹس دیکر ہماری بے عزتی کی گئی ہے اور اس طرح اجلاس میں شوکاز نوٹس ،پھاڑکر انہوںنے بے عزتی کا بدلہ لے لیا، یہ درست ہے کہ اتحادوں کی سیاست میں شامل جماعتوں میں اختلافی امور اور متنازعہ باتوں پر بیٹھ کر گفت و شنید کی جاتی ہے لیکن یقینا ًشوکاز نوٹس دینا یا تحریری طور پر وضاحت طلب کرنا ایک غیر سیاسی عمل ہے اور اس طرح ایک غلطی کا جواب اس طرح دینا یقینا ًکوئی سیاسی یا جمہوری رویہ نہیں ہے ۔

پی ڈی ایم کے اتحاد کو غیر موثر یا منتشر کرنے کی ذمہ داری دو جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور کسی حد تک جمعیت علمائے اسلام پر ڈالتی ہیں 11سیاسی جماعتوں کا یہ اتحاد 20 ستمبر 2021کو اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس تشکیل پایا تھا آل پارٹیز کانفرنس کے میزبان پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو تھے۔ اس کانفرنس میں ایک 26 نکاتی قرارداد پڑھ کر سنائی گئی تھی۔ کانفرنس سے وڈیو کانفرنس پر خطاب کرتے ہوئے لندن سے سابق وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ۔ عمران خان ہمارا ہدف نہیں ہماری جدوجہد ان لوگوں کے خلاف ہے جو عمران خان کو اقتدار میں لائے ہیں۔ جبکہ پی ڈی ایم کا نعرہ تھا کہ ووٹ کو عزت دو۔

گو نیازی گو۔ ابتدائی مرحلے میں گو کہ پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف موثر احتجاج کئے لیکن بعض جماعتوں نے جن میں سرفہرست پاکستان پیپلز پارٹی تھی پی ڈی ایم کے جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ ردعمل اختیار کرنے اور اشتعال پیدا کرنے والی تقاریر اور تصویروں پر احتجاج کیا اور پھر چند ماہ بعد ہی اس اتحاد میں اختلافات پیدا ہونے شروع ہوگئے لیکن پی ڈی ایم کے صدر کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمان نے ان خبروں اور اختلافی امور پر ’’مٹی پائو‘‘ والا ناصحانہ طرز عمل اختیار کیا لیکن کب تک۔

پھر سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن جسے مسلم لیگ (ن) اپنا استحقاق سمجھتی تھی لیکن یوسف رضا گیلانی کا جس طرح ’’ انتخاب‘‘ ہوا اس پر پی ڈی ایم کے صدر اور مسلم لیگ (ن) کے شدید تحفظات تھے جس پر عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کو ’’شوکاز نوٹس‘‘ دینے کا فیصلہ کیا گیا جسے کسی طرح بھی دانشمندانہ فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان میں سیاسی اتحادوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

پاکستان میں پہلا سیاسی اتحاد مشرقی پاکستان میں ’’ جگتو فرنٹ‘‘ کے نام سے بنا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ایوب خان کے خلاف پھر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں بحالی جمہوریت کیلئے کئی اتحاد بنے جن میں نوابزادہ نصر اللہ خان پیش پیش رہے لیکن حالیہ اتحاد پاکستان ڈیموکریٹیک موومنٹ اپنی تشکیل کے نو ماہ بھی پورے نہیں کر سکا اور جس مقصد کیلئے قائم کیا گیا تھا وہ بھی پورا نہیں ہوا۔

یہ پہلا موقعہ تھا کہ کسی اتحاد میں شامل جماعتوں کو ’’شوکاز‘‘ نوٹس دیا گیا جو یقیناً مضحکہ خیز بات تھی اور اسی فیصلے نے اے این پی کو اتحاد چھوڑنے اور پیپلز پارٹی کو شدید ردعمل ظاہر کرنے کا جواز فراہم کیا۔ دوسری طرف ڈسکہ میں انتخابی فتح نے مسلم لیگ (ن) کے ’’سیاسی مورال‘‘ کو خاصی تقویت پہنچائی ہے گوکہ یہ نشست 1990 سے ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تھی لیکن تحریک انصاف نے اس حوالے سے زمینی حقائق کو نظرانداز کیا۔

ووٹرز کی نفسیات اور رجحان سے لاتعلق ہوکر ایک ایسے امیدوار کو ٹکٹ دے دیا جو یہاں کے لوگوں کیلئے نامانوس اس لئے بھی تھے کہ ان کا اس علاقے سے کوئی ربط ضبط ہی نہیں تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) کی سید زادی نوشین افتخار نے اس نشست پر کامیابی حاصل کرکے اپنے والد کے ’’ سیاسی ورثے‘‘ کا بھرپور انداز میں تحفظ کیا۔

اس نشست پر کامیابی سے مسلم لیگیوں کو زیادہ خوشی ہوئی ہے یا پاکستان تحریک انصاف کو زیادہ صدمہ ہوا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے یہ ایک دھچکہ ہے اور ایک طرف تو ضمنی انتخابات میں ناکامیوں سے یہ تاثر تقویت حاصل کر رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت بتدریج تنزلی کا شکار ہے تو دوسری طرف دوبارہ انتخاب کے نتائج سے یہ بات بھی درست ثابت ہو رہی ہے کہ 19 فروری کے الیکشن میں واقعی دھاندلی ہوئی تھی اور مسلم لیگی زعما نے اس حوالے سے حکومت پر جو الزامات عائد کئے تھے وہ حقائق پر مبنی تھے اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اگر الیکشن کمیشن سمیت پولنگ کے انتظامات کرانے اور امن وامان قائم رکھنے والے ادارے چاہیں تو الیکشن منصفانہ بھی ہوسکتے ہیں۔

پھر ان الیکشنز کے حوالے سے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار پر تنقید کرنے والے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان کو ایک بار پھر ان کی گڈگورننس اور منصب کی اہلیت کے بارے میں سوالات اٹھانے کا موقعہ ملا ہے۔