سرمایۂ جاں

April 26, 2021

امجدا سلام امجد

یہ سب نے دیکھا

کہ ساز گل سے نکل کے خوشبو کا ایک جھونکا

ہزار نغمے سنا گیا ہے

مگر کسی کو نظر نہ آیا کہ

اس کے پردے میں گل نے اپنا

تمام جوہر لٹا دیا ہے

یہ میری سوچوں کی سبز خوشبو

یہ میری نظمیں یہ میرا جوہر

یہ میرے لفظوں کے شاہزادے

یہ میری آواز کے مسافر

نکل کے ہونٹوں کی وادیوں سے

خموشیوں کے مہیب جنگل میں آہٹوں کے فریب کھاتے

نشاط منزل کی جستجو میں

اداس رستوں پہ چل رہے ہیں

سفر کے دوزخ میں جل رہے ہیں