غیرت مند

June 16, 2013

چلئے ایک خصوصیت تو ایسی ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ،ہماری غیرت مندی ۔سارا سال بھلے ہم گھوڑے بیچ کر سوئے رہیں مگر ایک دن غیرت سمیت یوں ہڑبڑا کر جاگتے ہیں کہ دنیا چلّااٹھتی ہے کہ ”بھائی صاحب،پہلے سے بتا کر اٹھا کریں!“لیکن ہماری یہ غیرت نہایت دلچسپ ہے اور اس تعریف کرنا بڑا مشکل کام ہے۔غیرت کی مروجہ تعریف چونکہ نہایت پھیکی ہے اور ہمارے معاشرے کے ظریفانہ مزاج سے میل نہیں کھاتی لہذاغیرت کی تعریف کرنے کی بجائے غیرت کی مختلف اشکال بیان کرنا زیادہ بہتر رہے گا:
غیرت کی سب سے پہلی شکل وہ ہے جو ہمارے بھائیوں میں پائی جاتی ہے ۔بہن کے لئے بھائی کی غیرت ضرب المثل ہے ،کسی زمانے میں یہ حقیقت بھی تھی جب بھائی بہنوں کے لاڈ اٹھایا کرتے تھے ،ان کی فرمائشیں پوری کرتے تھے ،بہن کی شادی بھائی کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی ،حتّٰی کہ شادی کے بعد وہ اپنے بہنوئی کی نخرے بھی اٹھاتے تھے۔پر اب وہ زمانے لد گئے۔ اب یہ بھائی لوگ محبوباؤں کے نخرے اٹھاتے ہیں ،بہن کی کالج کی فیس جمع ہو نہ ہو ،گرل فرینڈ کو سمارٹ فون ضرور لے کر دیتے ہیں ،بہن کی بجائے انہیں اپنی شادی کی فکر ہوتی اور بہنوئی کی بجائے اب یہ محبوبہ کے ڈرائیور کا زیادہ خیال رکھتے ہیں ۔ان کی بہن اب ملازمت کرتی ہے ،انڈیپینڈنٹ ہے ،اپنا خرچہ خود اٹھاتی ہے ،چونکہ گھر سے باہر نکلتی ہے اس لئے مردوں سے انٹر ایکشن بھی ہوتا ہے اور اس موقع پر بھائی کی سوئی ہوئی غیرت جاگ اٹھتی ہے اور وہ گنڈاسہ ہاتھ میں لے کے پوچھتا ہے ”تم نے اس سے بات کیوں کی؟“ اب بندہ پوچھے کہ بھائی صاحب ،جب آپ نے اپنی بہن کا ذمہ لینا ہی چھوڑ دیا ،اس کے لاڈ اٹھانے بند کر دئیے ،یہ سوچا ہی نہیں کہ وہ اپنی ضرورتیں کیسے پوری کرے گی ، جب اس نے ملازمت کی تو آپ نے شکر کیا کہ آپ کی ذمہ داری ختم ہوئی، تو پھر اب لیٹ نائٹ آپ کی غیرت کیوں بیدار ہوئی ؟
اصل میں یہ تمام باتیں یونہی خود بخود نہیں ہو جاتیں ،زمانہ مجبور کرتا ہے ۔اربن مڈل کلاس زندگی اب اس قدر کٹھن ہو گئی ہے کہ گھر چلانا اب کسی ایک فرد کے بس کا کام نہیں رہا ۔لیپ ٹاپ،وائی فائی ،موبائل فون،ایل سی ڈی،آئی پوڈ اوربرینڈڈ کپڑے اب زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں،انہیں عیاشی نہیں سمجھا جاتا۔لیکن ان تمام چیزوں کی ایک قیمت ہے جو ادا کرنی ہوتی ہے اور وہ قیمت ہمارا معاشرہ رو پیٹ کرادا کر رہا ہے، ہم ابھی تک آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بنے بیٹھے ہیں ،ہم نے اپنی مشرقی غیرت کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے اور مغربی مادہ پرستی بھی ہمیں پر کشش لگتی ہے ۔مغربی لائف سٹائل پیسے مانگتا ہے اور پیسے کمانے کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ آج سے دس پندرہ برس پہلے خواتین کا ملازمت کرنا شہروں میں بھی اتنا عام نہیں تھا جتنا آج کل ہے۔ گھر کا سربراہ ہی کماتا تھا اور سب کھاتے تھے، بہن کو کالج اور ٹیوشن چھوڑنے کی ذمہ داری بھائی کی ہوتی تھی۔ پھر یکدم پاکستانی معاشرے میں تبدیلی آئی ،پر تعیش اشیاء روز مرہ کی ضرورت بن گئیں ،مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا ،کسی حد تک معاشرے میں آزاد خیالی نے بھی جنم لیا اور ان تمام باتوں نے مل کر وہ فضا پیدا کی جس میں عورتوں کا ملازمت کرنا ممکن ہوا۔اب جب عورت کسی قدر آزاد ہوئی تو ہماری غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ وہ مردوں سے بات چیت کرے ۔اس وقت تو بھائیوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی لیکن غیرت جتانے میں اب بھی پیش پیش ہیں !
غیرت کی دوسری شکل مقبول عام غیرت مندی ہے جس کا ہم آئے دن اظہار کرتے رہتے ہیں ،خا ص طور پر اس دن جب کوئی ڈرون ہماری ”آزادی اور خود مختاری “ کو روندتے ہوئے ہماری سر زمین پر حملہ آور ہوتا ہے ۔اس دن ہماری غیرت ایک دن کے لئے جاگتی ہے ،ہم تابڑتوڑ بیانات جاری کرتے ہیں ،قوم کی سوئی ہوئی غیرت کو للکارا جاتا ہے ،ہمیں اپنے عظمت رفتہ کی یاد دلائی جاتی ہے اوربتایا جاتا ہے کہ امریکہ ہماری غیرت کا امتحان لے رہا ہے جبکہ ہم نے آرٹیفیشل جیولری پہن رکھی ہے وغیرہ وغیرہ۔لیکن ہمار ی یہ غیرت بڑی عجیب و غریب ہے ،یہ ڈرون حملے پر جاگ جاتی ہے اور خود کش حملے کے موقع پر دھنیا پی کے سوئی رہتی ہے ۔ڈرون حملوں میں اگر کوئی بڑے سے بڑا دہشت گرد بھی ہلاک ہو جائے تو ہماری غیرت تب بھی اس حملے کو قبول نہیں کرتی جبکہ خود کش حملوں میں جو سو فیصد معصوم لوگوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں ،تب ہماری غیرت نجانے کہاں غائب ہو جاتی ہے!
ایک غیرت اور غرور کی جنگ افغانستان میں بھی جاری ہے ۔ہمارے خیال میں ہم نے پہلے بھی وہ جنگ جیتی تھی اور آئیندہ سال امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد ایک مرتبہ پھر ہم وہ جنگ جیتیں گے ۔اور یہ جیت غیور اور بہادر قوم کی جیت ہوگی جو طاقت کے نشے میں چور سپر پاور کے آدھے دانٹ کھٹے کر چکی ہے جبکہ رہے سہے دانت اگلے سال تک کھٹے کر دئیے جائیں گے۔دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے مگر پرابلم یہ ہے کہ یہ بس ہماراہی خیال ہے ،حقیقت کا اس سے دور تک بھی تعلق نہیں۔اگر ایک منٹ کے لئے فرض کر لیا جائے کہ ہمارا خیال درست ہے اور افغان جنگ میں پہلے روس کو اور اب امریکہ کو شکست ہونے جا رہی ہے تو ہم میں سے کتنے لوگ ہوں گے جو ایک فاتح ملک یعنی افغانستان کی امیگریشن لینا چاہیں گے ،کتنے لوگ تورا بورا میں اپارٹمنٹ بک کروائیں گے ،ہم میں سے کون قندھار میں ہنی مون منانے جایا کرے گا ،کتنے لوگ اپنے بچوں کو کابل یونیورسٹی میں اعلی ٰ تعلیم کیلئے بھیجیں گے ،رشتہ پکا کرنے سے پہلے کون چاہے گا کہ اس کا ہونے والا داماد جلال آباد میں فورمین لگا ہو؟ یقینا یہ ایک ایسی ”فتح“ ہوگی جس پر امریکی بھی غیور افغانیوں کو مبارک باد دیں گے۔
تیسری قسم کی غیرت مزید دلچسپ ہے ۔یہ وہ غیرت ہے جو دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تو جاگ پڑتی ہے مگر اپنے ہمسائے پر ہونے والے ظلم کے موقع پر سوئی رہتی ہے ۔برما میں مسلمانوں کی مبینہ نسل کشی (جس کے بارے میں مصدقہ اطلاعا ت بھی مغربی میڈیا نے دیں نہ کہ کسی مسلم ملک نے)کی خبر آ جائے تو کہرام مچ جاتا ہے ،قوم کی غیرت کو جگانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں ،میڈیا کو بے غیرت کہا جاتا ہے جو اب تک اس ظلم و ستم پر چپ رہا ،مگر وہ تمام لوگ جو اس عمل میں پیش پیش ہوتے ہیں اگر ان کے ساتھ والے گھر میں علاقے کا ایس ایچ او دندناتا ہوا گھس جائے،گھر کی عورتوں کی بے عزتی کرے ،سربراہ کو بالوں سے گھسیٹ پر ٹھڈے مارتے ہوئے تھانے لے جائے تو کسی با غیرت مسلمان کی ہمت نہیں ہوتی کہ حق ہمسائیگی ادا کرتے ہوئے اتنا ہی پوچھ لے کہ جناب آخر اس کا جرم کیا ہے ؟ ہاں اگر برما میں کسی کے ساتھ کچھ ہو رہا ہے تو نعرہ لگتا ہے کہاں گئی مسلماں کی غیرت!
اورایک غیرت وہ ہے جو اب صرف قصے کہانیوں اور نصابی کتابوں کی حد تک رہ گئی ہے ، ”غیور، بہادر اورروایت پسند“ جیسے الفاظ جن لوگوں کے لئے استعمال ہوتے تھے اب انہیں ان الفاظ کے ہجے بھی یاد نہیں رہے۔ بچے اغوا کرنے سے لے کر منشیات فروشی تک اور سود خوری سے لے کر امریکیوں کے لئے جاسوسی کرنے تک (جس کی مدد سے ڈرون حملے ہوتے ہیں) کون سا ایسا کام ہے جو اس غیرت کی تعریف پر پورا اترتا ہے؟ جس طرح غریب شخص بلاوجہ کی غیرت مندی افورڈ نہیں کر سکتا اسی طرح ہم جیسی اقوام بھی نہیں کرسکتیں۔بطور قوم ہم ایک ٹکے کا فرض ادا کرنے کو تیار نہیں اور دعوی ٰ ہے غیرت مندی کا ۔ہم ایک غریب ملک ہیں اوربے غیرتی کی سب سے بڑی خریدار، غربت ہوتی ہے !