سندھ کی تاریخ

May 01, 2021

سندھ کی تاریخ کے مختلف پہلو وؤںادوار کے بارے میں تفصیلی طور پر اگر جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ سندھ دنیا کی ایک لاثانی سر زمین ہے اور اس کی تاریخ بھی لاثانی ہے۔ سندھ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں سندھ نے ایک پرامن دھرتی کا کردار ادا کیا ہے اور اس کے حکمرانوں اور مختلف حلقوں نے سندھ میں باہر سے آنے والے مختلف نسلوں کے لوگوں کا پرامن استقبال کیا۔ اس سلسلے میں سندھ کے دانشوروں اور شاعروں کا بہت بڑا کردار ہے۔ یہ دانشور اور شاعر ہمیشہ اس بات کی تبلیغ کرتے رہے کہ کسی سے بھی زیادتی نہیں کرنی اگر اگلا زیادتی کرتا ہے تو بھی کوشش کریں کہ معاملات کو پیار اور محبت سے حل کریں۔ اس سلسلے میں ایک کانفرنس کا ذکر کروں گا جو سندھ کے بارے میں امریکہ کے شہر واشنگٹن میں منعقد کی گئی تھی جس میں سندھ اور پاکستان کے کچھ دیگر دانشوروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کی صدارت ایک ممتاز امریکی دانشور نے کی۔ اس کانفرنس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے اس کانفرنس میں انگریزی میں ایک مقالہ پڑھا جس کا عنوان تھا‘Save Sindh-Save South Asia‘ درحقیقت میں نے یہ عنوان 1947 ء میں سندھ کے ممتاز قوم پرست و دانشور جی ایم سید کے ایک مقالے کے عنوان سے متاثر ہوکر لکھا تھا۔ جی ایم سید کے مقالے کا عنوان تھا: Save Sindh-Save the Antinety میں نے اپنے کالم کے آخر میں سندھ کے قومی شاعر شاہ عبدالطیف کے شعر کی ایک دو سطر پڑھیں جن کا اردو ترجمہ یہ ہے ’’اگر وہ آپ سے بدتمیزی بھی کرے،تو بھی آپ جواب میں بدتمیزی نہ کریں،جو بھی پہل کرے گا نقصان اسی کا ہوگا‘‘۔ میں نے اپنے مقالے میں ان سطور کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کے بعد تجویز دی کہ کاش اقوام متحدہ سندھ کے قومی شاعر شاہ عبدالطیف کے اس شعر کو اپنے پروگرام میں دنیا بھر میں "Emblam of peace" کے طور پر Declare کرے اور کوشش کی جائے کہ دنیا کے مختلف ممالک اس شعر پر عمل کریں۔ بعد میں کانفرنس کی صدارت کرنے والے امریکی دانشور تقریر کرنے کے لئے اٹھے تو انہوں نے اپنی تقریر کے دوران میرا نام لےکرمیری تجویز کی حمایت کی۔ اس سلسلے میں ایک دو اور باتیں ریکارڈ پر لاتا چلوں۔ سندھ کے چیف سیکرٹری عبدالکریم لودھی جب ریٹائر ہوئے تو انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے عالمی بینک میں پاکستان کی طرف سے ممبر کے طور پر مقرر کیا گیا وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ پاکستان واپس لوٹ آئے ، ایک پریس رپورٹر کی حیثیت سے میرے لودھی صاحب سے کافی قریبی تعلقات تھے۔ واپس آنے کے بعد ایک رات ان سے میری سفارتی استقبالیہ میں ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے بڑی محبت سے کہا کہ میں دوسری رات ان کے پاس آئوں تاکہ گپ شپ بھی کریں اور اکٹھے کھانا بھی کھائیں۔ دوسری رات ان کے بنگلے میں ان سے خاص بات چیت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جتنا عرصہ بھی امریکہ میں رہے زیادہ تر ان علاقوں میں جاتے تھے جہاں ریڈ انڈین لوگ رہتے تھے۔ انہوں نے ریڈ انڈینز کے ایشوز پر ریسرچ بھی کی جس سےانکشاف ہوا کہ امریکہ میں ریڈ انڈینز کے آنے کے بعد گورے بھی بڑی تعداد میں آگئے، گوروں کو ریڈ انڈینز سے نفرت ہوگئی اور وہ ان سے جھگڑتے رہتے تھے مگر اس دوران گوروں کو ایک مشکل کا سامنا تھا کہ وہ گندم اورچاول وغیرہ اگا نہیں سکتے تھے،جب ریڈ انڈینز کو اس بات کا پتہ چلا تو ان کے ایک سردار نے کہا کہ لڑائی ہمیشہ ان سے لڑنی چاہئے جو طاقت میں ایک جیسے ہوں جبکہ کھانے کو نہ ملنے کی وجہ سے یہ گورے ہم سے کیا لڑیں گے، اس کے برعکس یہ ریڈ انڈینز جن علاقوں سے آئے تھے وہاں پر چیزیں وافر مقدار میں اگائی جاتی تھیں لہٰذا ریڈ انڈینز کے سردار نے گوروں کو پیغام بھیجا کہ ہم اپنے کچھ لوگ آپ کے پاس بھیجتے ہیں جو آپ کو گندم اور چاول وغیرہ اگا کر دکھائیں گے، گوروں نے یہ بات مان لی اور ریڈ انڈینز کے سردار نے ایک ٹیم ان کے پاس بھیجی تاکہ ان کو یہ فصل اگا کر دکھائیں۔ جب چاول، گندم وغیرہ اگا کر گوروں کو دی گئی تو انہوں نے کہا کہ انہیں کیسے پکایا جائے گا؟لہٰذا ٹیم نے چاول، گندم وغیرہ تیار کرکے ان کے سامنے رکھے تو انہوں نے شک ظاہر کیا کہ ان میں زہر ملا دیا گیا ہوگا تاکہ وہ کھائیں تو کھاکر مرجائیں۔ اس شک کو دور کرنے کے لئے ریڈ انڈینز کی ٹیم ان کے پاس آئی اور ان کے سامنے یہ پکے ہوئے طعام کھائے، اس کے بعد ریڈ انڈینز واپس چلے گئے۔ اس کے بعد پھر گوروں اور ریڈ انڈینز کی لڑائی شروع ہوگئی۔ اس مرحلے پر تاریخ کے حوالے سے میرے علم میں یہ بات بھی لائی گئی کہ جب محمد بن قاسم اپنی فوج کیساتھ سندھ پر حملہ کرنے کے لئے سمندر کے کنارے اترے تو اُن کی فوج سندھ کے مختلف علاقوں میں پھیل گئی،بعد میں وہ اس علاقے کی طرف بڑھے جہاں اس وقت سندھ کے بادشاہ راجا ڈاہر کا قلعہ تھا،یہ قلعہ دریا کے ایک کنارے پر تھا اور محمد بن قاسم کی فوج دریا کے دوسرے کنارے پر آکر رک گئی۔ (جاری ہے)