خیبر بینک اسکینڈل، وزیر خزانہ مظفر سیدبے گناہ قرار،30 صفحات کی تحقیقاتی رپورٹ تیار

May 02, 2016

پشاور( گلزار محمد خان) خیبر پختونخوا کی کابینہ کمیٹی نے ’’بینک آف خیبر سکینڈل‘‘کی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے 30 صفحات پر مبنی رپورٹ تیار کرلی ہے جس میں صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید پر عائد الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بینک آف خیبر کے منیجنگ ڈائریکٹر نے کمیٹی کے سامنے زبانی اور8صفحات کے تحریری جواب میں صوبائی وزیر خزانہ پر عائد غیر قانونی بھرتیوں اور مالی بد عنوانیوں کے الزامات ثابت کئے اور نہ ہی کوئی تحریری ثبوت پیش کئے ہیں البتہ ایم ڈی نے کمیٹی کے روبرو بعض سفارشی خطوط پیش کئے ہیں جن میں وزیر خزانہ کے پی ایس او نے کلاس فور کی بھرتی کے حوالے سے سفارش کی ہے، انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں ایم ڈی کی جانب سے اخبار میں اشتہار کی اشاعت کو جاب ایگریمنٹ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے صوبائی حکومت سے بینک آف خیبر کے ایم ڈی کی تعیناتی ’’ سرچ کمیٹی‘‘ کے ذریعے کرنے کی سفارش کی ہے ، انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ کی جانب سے بینک کے قرضوں اورمالی معاملات میں مداخلت کے بھی کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں البتہ اس بات کی نشاندہی ہوئی ہے کہ ایم ڈی نے اخبار میں اشتہار دینے سے قبل چیف سیکرٹری کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں انہیں بینک میں سیاسی مداخلت سے آگاہ کیا گیا تھا ، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں معاملہ کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی کوئی تجویز یا سفارش نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کا فیصلہ وزیر اعلیٰ خود کریں گے، انکوائری کمیٹی کے سربراہ سکندر حیات خان شیرپاؤ رپورٹ آج وزیر اعلیٰ کے حوالے کریں گے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے سرکاری بینک’’ بینک آف خیبر‘‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر نے دو ہفتے قبل مختلف اخبارات میں اشتہار دیا تھا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ’’صوبائی وزیر خزانہ ’’ مظفر سید‘‘ بینک کے معاملات میں بے جا مداخلت کرتے ہوئے سرکاری وسائل کا غیر قانونی استعمال کررہے ہیں جنہوں نے بینک میں قواعد کیخلاف غیر قانونی بھرتیاں کیں اور پرانے ملازمین کو فارغ کرکے اپنے منظور نظر افراد اور اپنے رشتہ داروں کو نوکریاں دلانے کی سفارش کی ، اشتہار میں کہا گیا تھا کہ صوبائی وزیر خزانہ بینک کے خرچ پر جلسوں اور تقریبات کا انعقاد اور بینک کے وسائل کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں، وزیر خزانہ کے پرائیویٹ سیکرٹری نے بھی اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بینک میں درجہ چہارم ملازمین کی تقرری میں خوب ہاتھ رنگے ہیں‘‘ بینک آف خیبر کی انتظامیہ کے اشتہار کے بعد صوبہ میں طوفان برپا ہوگیا تھا جبکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے اشتہار کی اشاعت اور صوبائی وزیر خزانہ پر لگائے گئے الزامات کی انکوائری کیلئے سینئر صوبائی وزیر سکندر حیات خان شیرپاؤ، سینئر وزیر شہرام خان ترکئی، صوبائی وزیر قانون امتیاز شاہد قریشی ، صوبائی وزیر شاہ فرمان اور وزیر اعلیٰ کے سپیشل سیکرٹری اسرار خان پر مبنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے چار دنوں میں رپورٹ پیش کرنیکا حکم دیا تھا ، انکوائری کمیٹی نے چار دنوں کی بجائے تقریباً دو ہفتوں تک معاملہ کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا اور صوبائی وزیر خزانہ، بینک کے ایم ڈی اور دوسرے متعلقہ افراد سے تحقیقات کرکے30صفحات پر مبنی انکوائری رپورٹ تیار کرلی ہے جس پر شاہ فرمان،شہرام ترکئی اور اسرار خان نے دستخط کرلئے ہیں جبکہ صوبائی وزیر قانون لاہور میں رشتہ داروں کے ہاں شادی میں مصروفیت کے باعث آج رپورٹ پر دستخط کریں گے جس کے بعد کمیٹی کے سربراہ سکندر شیرپاؤ رپورٹ پر دستخط کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے حوالے کریں گے، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بینک انتظامیہ کی جانب سے صوبائی وزیر خزانہ پر عائد الزامات ثابت نہیں ہوسکے ہیں کیونکہ انکوائری کمیٹی نےایم ڈی شمس القیوم کیساتھ ملاقات کرکے صوبائی وزیر خزانہ پر عائدغیر قانونی بھرتیوں، بینک کے معاملات میں مداخلت اوربینک کے پیسوں سے سیاسی تقریبات کے انعقاد کے ثبوت پیش کرنے کی ہدایت کی تاہم ایم ڈی نے زبانی اور 8صفحات کے تحریری جواب میں اس حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے البتہ ایم ڈی نے کمیٹی کے سامنے بعض خطوط پیش کئے جن میں صوبائی وزیر خزانہ کے پی ایس او نے مظفر سید کی جانب سے کلاس فور کی بھرتی کےحوالے سے سفارش کی ہے، انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایم ڈی نے وزیر خزانہ کی بینک کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے چیف سیکرٹری کو بھی ایک خط ارسال کیا تھا ، تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بینک آف خیبر کے ایم ڈی کی جانب سے اخبارات میں صوبائی وزیر کیخلاف اشتہار کی اشاعت کو غیر قانونی اور جاب ایگری منٹ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایم ڈی کے نوٹس میںوزیر کی جانب سے مداخلت کی کوئی بات آئی تھی تو اخبار میں اشتہار دینے کی بجائے اسے صوبائی حکومت کو آگاہ کردینا چاہیے تھا، کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں صوبائی حکومت سے سفارش کی ہے کہ آئندہ بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر کی تعیناتی کیلئے سرچ کمیٹی قائم کی جائے ، انکوائری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحقیقات کےدوران ایم ڈی نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ وزیر خزانہ نے بینک کےقرضوں کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید نے بھی اپنے اوپر لگے الزامات کی صفائی میں زبانی کیساتھ 5صفحات کا تحریری جواب بھی جمع کرایا ہے، انکوائری کمیٹی نے رپورٹ کے نکات کی تصدیق کرتے ہوئے’’ جنگ‘‘ کو بتایاکہ رپورٹ میں کسی کیخلاف سزا کی سفارش نہیں کی گئی ہے بلکہ رپورٹ آج وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے حوالے کی جائے گی جو خود ذمہ داروں کیخلاف کاروائی کا فیصلہ کریں گےتاہم ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ اپنے طور پر مذکورہ اختیار استعمال کرنے کی بجائے رپورٹ کو صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے اور اراکین اسمبلی کی مشاورت سے واقعہ کے ذمہ داروں کیخلاف کاروائی کرنے کی خواہش مند ہیں اور ان کی خواہش پر ہی رپورٹ آج اسمبلی میں پیش کی جائے گی ۔واضح رہے کہ بنک آف خیبر 1991ء میں صوبائی اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ ایک ایکٹ ہی کے ذریعے قائم ہوا تھا اوراب اسمبلی کی جانب سے ہی تنازعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی تجویز کرنے سے مقننہ کی بالادستی مزید قائم ہوگی ۔