مولانا وحید الدین خان

May 06, 2021

گزشتہ سال ان دنوں بھارتی میڈیا پر کورونا وائرس کو لے کر ایک طوفان برپا تھا۔ بیسیوں نیوز چینلز اور اخبارات تبلیغی جماعت کے ارکان پر ملک بھر میں جان بوجھ کر کورونا پھیلانے کا الزام لگا رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کورونا جہاد کی نئی اصطلاح عوام الناس کے ذہنوں پر سوار کرا دی گئی۔ ایک طرف تبلیغی جماعت کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو دوسری طرف کورونا پھیلانے کے شبے میں مسلمان دیہاڑی دار مزدوروں اور پھل سبزی بیچنے والوں کا بائیکاٹ کردیا گیا۔ تمام مسلمان اس زہریلے پروپیگنڈے سے پیدا ہونے والے بحران سے سراسیمہ تھے کہ ادھر سے مولانا وحید الدین خان نے بھی وار کھول دیا۔ آپ نے حقائق جانے بغیر روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کے مشہور بلاگ ’’اسپیکنگ ٹری‘‘ میں تبلیغی جماعت پر اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تائید کی، اس گوہر افشانی نے ایک اہم موقع پر ہندتوا کے زہریلے پروپگنڈے کو نئی مہمیز بخشی۔

مولانا صاحب اکثر اوقات مسلمانوں کے اہم معاملات میں ہندتوا کے طرفدار اور معاون تھے۔ 1992میں بابری مسجد کے پُرتشدد انہدام کے بعد جب مسلمانوں نے مسجد کی آباد کاری کیلئے پُرامن احتجاجی تحریک شروع کی تو مولانا صاحب نے اس کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے مؤقف سے دستبردار ہونے کی صلاح دی۔ یوں آپ راتوں رات آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں بشمول بی جے پی میں کافی مقبول ہوئے یہاں تک کہ بی جے پی کے مرکزی رہنماؤں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن ایڈوانی کے ساتھ ذاتی تعلقات بن گئے۔ بابری مسجد پر اپنے مؤقف کی وجہ سے ہی انہیں 2000میں وزیراعظم واجپائی کی حکومت نے دوسرے بڑے سویلین اعزاز پدم بھوشن سے نوازا جو انہیں پبلک افیئرکے شعبے کی مد میں دیا گیا۔ اس کے شکرانے میں خان صاحب نے 2004کے پارلیمانی انتخابات میں واجپائی کے حق میں انتخابی مہم چلائی، اس دوران آپ واجپائی حمایت کمیٹی کے ایک فعال رکن بھی رہے۔

نائن الیون کے بعد مولانا کے افکار و خیالات کو مغربی دنیا میں کافی پذیرائی ملی کیونکہ آپ کے بقول ’’اس کے ردعمل میں مسلم ممالک کے خلاف امریکہ کی انتقامی جنگ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی آپریشن تھا۔ اس نے ان طاقتوں کو زیر کردیا جو امن اور دعوت کے مشن کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے۔ چنانچہ ہر شخص دیکھ رہا ہے ساری مسلم دنیا میں تمام زبانیں اور تمام قلم امن اور دعوت کی بات کر رہے ہیں۔ آخری زمانے کے جس دور امن کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی وہ دور امن اب پوری طرح آچکا ہے‘‘۔ امن کے نام پر نئی نئی تاویلیں برآمد کرنے پر ہی شاید وہ اپنے آپ کو امن کا علمبردار کہلواتے رہے جسے بعد میں میڈیا نے مزید پھیلایا مگر آپ نے اپنی زندگی میں ہر صاحبِ علم و دانش کو تضحیک کا نشانہ بنایا۔

مولانا سے میرا بالمشافہ تعارف 2000کے وسط میں معروف بھارتی اکیڈمک اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس وقت کے پروفیسر یوگیندر سکند کے توسط سے ہوا جو چند برس تک گاہے گاہے جاری رہا۔ اس دوران یہ واضح ہوا کہ آپ جدید علم تاریخ اور سوشل سائنسز کے بنیادی اصولوں کی پروا کئے بغیر مختلف مسلم تحریکوں کے بارے میں ایک یک رنگی اور سطحی سوچ کے حامل تھے جس پر وہ اس شدت اور قطعیت سے ڈٹ جاتے کہ ان کے مقابل کے پاس قالوا سلاما کے وظیفے کے بغیر کوئی اور چارہ کار نہیں بچتا تھا۔ غالب قوتوں کی مداح سرائی میں آپ اس قدر مغلوب تھے کہ مظلوموں کے انسانی حقوق تک کو غیراہم قرار دیتے تھے۔ امسال جنوری میں آپ کو وزیراعظم مودی نے بھارت کے دوسرے بڑے سویلین اعزاز پدما بھوشن سے نوازا۔ اگرچہ سرکاری طور پر یہ انہیں روحانیت کے تئیں خدمات کے عوض دیا گیا مگر اس سے کچھ عرصہ قبل سے آپ مودی جی کی تعریفوں میں مشغول تھے۔ حال ہی میں جب آپ کورونا سے وفات پاگئے تو مودی نے انہیں والہانہ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مذہب اور روحانی معاملات کا عالم قرار دیا۔ مولانا خان صاحب اگرچہ اپنے خیالات اور افتاد میں انتہائی متنازعہ تھے مگر ایک صاحبِ طرز ادیب اور نکتہ دان کی حیثیت سے آپ تادیر یاد رکھے جائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)