وہ لاہور کہیں کھو گیا

May 09, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ لاہور میں ایک بڑی خوبصورت حویلی ہے مگر اس حویلی میں صرف لڑکیوں کو رہنے کی اجازت ہے، مردوں کا داخلہ منع ہے، 73برس سے اس حویلی میں کوئی مرد رہائش پذیر نہیں ہوا۔ یہ خوبصورت حویلی جس کو جب ہم نے دیکھا تھا تو پیلے رنگ کی تھی، اب سفید رنگ کر دیا گیا ہے۔ یہ حویلی مہاراجہ نریندر سنگھ کی ہے۔ کئی برس قبل ایچی سن کالج کی یونین کی تقریب ہوئی جس میں مہاراجہ نریندر سنگھ کے بیٹے مہاراجہ سریندر سنگھ کو دعوت دی گئی تھی۔ وہ اپنے بیٹے شمشیر سنگھ کے ساتھ یہ حویلی دیکھنے آئے تو انہوں نے ایک قصہ سنایا جو ہمیں فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کی وارڈن مسز رشیدہ وسیم خان نے سنایا۔ وہ بتاتی ہیں کہ مہاراجہ سریندر سنگھ نے بتایا کہ اس حویلی کے ایک گنبد کے نیچے ہمارےمنشی رام داس کا آفس تھا ، ایک مرتبہ ہماری حویلی میں مہمان آئے تو منشی رام داس نے ان کے کھانے پر ایک روپیہ چاندی کا خرچ کر دیا۔ رات کو جب میرے باپ نے رجسٹر میں دیکھا کہ ایک روپیہ چاندی کا کھانے پر خرچ ہو گیا تو انہوں منشی رام داس سے کہا کہ منشی جی آپ نے اتنا خرچہ کر دیا، اس طرح تو ہم کنگال ہو جائیں گے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک ہندو طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر کے جب دہلی پہنچا تو آل انڈیا ریڈیو سے اس کا انٹرویو نشر ہوا ، انٹرویو کرنے والے نے اس سے پوچھا لاہور کی آپ نے مکمل سیر کی ہے۔ اس نے کہا جی۔ انٹرویو کرنے والے نے کہا کہ آپ نے مہاراجہ نریندر سنگھ کی حویلی دیکھی ہے، اس نے کہا کہ نہیں۔ اس پر اس انٹرویو کرنے والے نے کہا کہ پھر آپ کی لاہور کی سیر مکمل نہیں ہوئی۔

یہ حویلی فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) اور دی مونٹ مورینسی کالج آف ڈینٹسٹری (ڈینٹل کالج) کی طالبات کی رہائش گاہ ہے۔ اس حویلی کو ایف جے ایم یو کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عامر زمان نے بڑے اچھے انداز میں مرمت اور رنگ و روغن کرا کے اس کی اصل صورت میں بحال کر دیا ہے۔ اس حویلی میں پچاس کے قریب طالبات رہتی ہیں ، اس میں 25کمرے ہیں، دیواریں بناکر ایک کمرے کے دو کر دیئے گئے ہیں۔ ایف جے ایم یو میں 14غیر ممالک کی لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ کسی زمانے میں ایک پورا ہوسٹل غیرملکی لڑکیوں کے لئے ہوتا تھا۔ اس حویلی کے فرش سفید اور کالے پتھروں کا بنا ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج کا پہلا نام بالک رام میڈیکل کالج تھا۔ یہ جس سڑک پر ہے اس کو کوئینز روڈ کہا جاتا ہے۔ کبھی کوئینز روڈ بڑی صاف ستھری سڑک ہوتی تھی۔ یہاں ڈاکٹر بلقیس فاطمہ مرحومہ کا کلینک بھی تھا۔ ڈاکٹر بلقیس فاطمہ، فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی بڑی معروف پرنسپل رہی ہیں۔ اس کالج کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے یہ لڑکیوں کی میڈیکل کی تعلیم کے لئے بنایا گیا تھا جبکہ اس کالج کے بانی پرنسپل ایک مرد تھے، ڈاکٹر شجاعت علی۔ ڈاکٹر شجاعت علی نے پاکستان میں لڑکیوں کے لئے پہلا میڈیکل کالج قائم کیا جس کا افتتاح محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا۔ جب اس کالج کا نام بالک رام میڈیکل کالج سے محترمہ فاطمہ جناح کے نام پر رکھا گیا تو اس کی باقاعدہ اجازت بانی پاکستان قائد اعظم اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح سے لی گئی تھی۔ اس کالج سے کئی نامور طالبات نے تعلیم حاصل کی،ان کا ذکر پھر کبھی۔

مہاراجہ نریندر سنگھ کی اس حویلی کا طرز تعمیر بالکل لاہور کالج برائے خواتین (اب یونیورسٹی) کی قدیم عمارت جیساہے۔ لاہور کالج کی عمارت سر گنگارام نے تعمیر کی تھی جو آج بھی موجود ہے۔ ہم نے فادر آف لاہور سر گنگا رام کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ کبھی لاہور میں ان کی تعمیر کردہ عمارتوں کے بارے میں بتائیں گے۔ یہ حویلی گرمیوں میں بھی اندر سے ٹھنڈی ہوتی ہے اور بغیر اے سی کے آرام سے اس میں رہا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ایف جے ایم یو کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عامر زمان نے اس عمارت کی اچھی دیکھ بھال کی ہے اور انہوں نے طالبات کے لئے ایک نیا ہوسٹل بھی بنا دیا ہے۔ ہم تو یہ کہیں گے کہ مہاراجہ نریندر سنگھ کی حویلی ایک تاریخی ورثہ ہے جو وارث روڈ پر ہے۔

گزشتہ ہفتے ہم یہ سوچ رہے تھے کہ جب کچھ عرصہ قبل ہم نے یہ علاقہ دیکھا تھا تو یہاں سب دیہات تھے۔ سرشام کوئی اس طرف کا رخ نہیں کرتا تھا، یہ زرعی علاقہ تھا۔پھل، پھول اور گھنے درخت ہوتے تھے۔ اب یہ ریت، سیمنٹ، اینٹوں اور اونچے اونچے پلازوں کا علاقہ بن چکا ہے۔ جب یہ سارا زرعی رقبہ ختم ہو جائے گا، تمام علاقے ہائوسنگ اسکیموں کی نذر ہو جائیں گے تو پھر دوسرے ممالک سے سبز مرچیں، ہرا دھنیا، پودینہ اور سبزی منگوانا پڑے گی۔

ہم وہاں گئے تو ہمیں وہاں دو ریڑھیاں نظر آئیں جن پر مٹی کے برتن ہانڈیاں، گھڑے، صراحیاں، ٹھوٹھیاں، پیسے ڈالنے والے گلے، دہی جمانے والی کھونیاں، پانی پینے کے لئے مٹی کے پیالے، غرض ان ریڑھیوں پر ہمیں مٹی کا ہر برتن نظر آیا۔ ہم سے رہا نہ گیاکچھ مٹی کی چیزیں پسند کیں اور خرید لیں، ڈی ایچ اے کی ہائوسنگ اسکیم کے بعد بیدیاں اور برکی میں دو چار دیہات بچ گئے ہیں وہاں آج بھی مٹی کے برتن بنانے والے کمہار موجود ہیں۔ لاہور میں ایک ایسا زمانہ ہم نے بھی دیکھا ہے کہ پیتل اور تانبے کے برتنوں کے ساتھ گھروں میں مٹی کے برتن اور لکڑی کے چمچے جو ہانڈی میں پھیرے جاتے ہیں، لازمی ہوا کرتے تھے۔ (جاری ہے)

ؕ (کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)